ہاری اور زمیندار کے مابین زیر کاشت زمین کے متعلق ایسا کوئی تحریری معاہدہ موجود نہیں ہوتا جسے ہاری کاشت کرتا ہے ۔ زمیندار کو ہاری کے مقابلےمیں زمین کے اس ٹکڑے سے آمدن زیادہ ہوتی ہے جس کی کاشت کے اخراجات سانجھے ہوتے ہیں ۔ مہرملاح ، ادھیڑ عمر ہاری ہیں جو 2 ایکڑ زمین پر 800 من گنے کی پیداوار پر خوش ہیں جسے وہ کاشت کرتے ہیں ۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ اس سال شوگر مل نے اس زمیندار کو جائز رقم نہیں دی جس کی زمین کو وہ سانجھے داری پر کاشت کرتے ہیں ۔ اگرچہ ا ن کی کاشت کی ہوئی 2 ایکٹر زمین کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تاہم وہ اپنے حصے میں آنے والی فی من 100 تا 130 روپے کی آمدن سے مطمئن نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ رقم سرکار کی جانب سے اعلان کی گئی گی فی من قیمت خریداری 182 روپے سے بہت کم ہے ۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کی آمدن کی شرح ان کی محنت سے بہت کم ہے جو انہوں نے کاشت میں کی تھی ۔ انہوں نے فصل کے ساتھ 18 مہینے اس امید پہ صرف کئے تھے کہ انہیں ٹنڈو محمد خان ضلعے میں مناسب آمدن کی توقع تھی۔ یہ محض قیمت ہی کا معاملہ نہیں جس سے ملاح اور دیگر ہاری متاثر ہیں ۔ مسائلِ دگر بھی ہیں جنہوں نے ان کی کمزوریوں کا پردہ چاک کررکھا ہے اور جن کی وجہ سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
نبی بخش ساتھیو کا کہنا تھا کہ زمینداروں کے ہاتھ بھی کلہاڑی سے کٹتے ہیں جب معاملہ ان کی زمین کے انتظامات کا آتا ہے ۔ ان جیسے زمینداروں کو کاشت سے پہلے اپنے ہاری کے لئے بیج ، پانی ، کیڑے مار دوائی اور کھاد اور پانی کابروقت انتظام کرنا ہوتا ہے ۔ اگرچہ مہر ملاح جیسے ہاری کاشت کاری کے اخراجات میں زمیندار کے سانجھے دار ہوتے ہیں تاہم کاشت کے آغاز پر یہ سب اخراجات زمیندار اٹھاتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے وہ رسمی اور غیر رسمی طریقوں سے قرض لیتا ہے ۔ قرض کی ادائیگی ہاری اور زمیندار سانجھے میں اس وقت کرتے ہیں جب فصل پک جاتی ہے اور اسے منڈی میں بیچا جاتا ہے ۔ ہاری اور زمیندار کے مابین اس زمین کے متعلق کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا جسے ہاری کاشت کررہا ہوتا ہے۔ ہاری کو دی گئی زمین کا رقبہ عام طور پر 2 سے 5 ایکٹر ہوتا ہے ۔ ہاری کا پورا خاندان بشمول عورتیں اور بچے طلوع آفتاب سے غروب تک کام کرتے ہیں ۔ ان کے روز کے خرچ اخراجات کے لئے بھی ان کا انحصار زمیندار پر ہی ہوتا ہے ۔ بے زمین ہاری غلام محمد ملاح کہتے ہیں کہ ” ہم کاشت کا خرچ سانجھے داری پر کرتے ہین لیکن اس کے لئے کاشت سے پہلے خرچہ زمیندار اٹھاتا ہے ۔ لیکن اگر کبھی موسم سختی کرجائے جیسا کہ سیلاب ، بارش یا آندھی تو ساری فصل اجڑ جاتی ہے ۔ یوں ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا ۔” وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال ان کے پاس موجود 4 ایکٹر رقبے پر دھان کی فصل 320 من فی ایکٹر تھی تاہم جب وہ کاشت کے اخراجات کا بوجھ اتار چکے تو ان کے پاس بہت معمولی رقم بچ گئی۔ کاشت کی ابتدا میں کھاد ، کیڑے مار دوائی اور بیج کی فراہمی کے لئے ہاری اور زمیندار آدھ آدھ کے سانجھے دار ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہاری کو بیج بونے، فصل کاٹنے اور پھر زمین کی تیاری کا خرچ خود اٹھانا پڑتا ہے ۔
تاریخی طور پر ہاری اپنے بیلوں کے ساتھ زمیندار کی زمینوں پر کاشت کرتے تھے اور پھر مویشیوں کے ساتھ فصل گاہ لیتے تھے ۔ تاہم اب بیلوں کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی ہے اور فصل گاہنے کے لئے تھریشر مشین آگئی ہے ۔ اس سے وقت تو بچ جاتا ہے مگر ٹریکٹر اور تھریشر کے لئے فیول کا سارا خرچ ہاری کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ زمیندار ساتھیو کہتے ہیں کہ ’’ وہ ہاری سے اس ٹریکٹر کا کرایہ وصول نہیں کرتے جو ان کی ملکیت ہے ‘‘۔ وہ مانتے ہیں کہ بڑے زمیندار اخراجات کی سانجھے داری کے باوجود ہاری سے زیادہ پیسے کماتے ہیں۔ زیادہ زمین کی وجہ سے زمیندار کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک فصل میں نقصان کی صورت میں اگلی فصل سے اپنا نقصان پورا کر لیتا ہے۔ تاوقتیکہ اسے کوئی بہت بڑا نقصان نہ ہوا ہو ۔ کاشت کی سانجھے داری کے علاوہ ہاری مختلف اوقات پر ، تقریبات کے لئے جیسا کہ شادی بیاہ ، فوتیدگی اور بیماری کی صورت میں زمیندار سے قرض لیتے ہیں ۔ ان مختلف النوعع قرضہ جات کوبھی ہاری کے حصے کی آمدن سے کاٹ لیا جاتا ہے ۔
مہر ملاح کا کہنا ہے کہ فصل کی اچھی قیمت لگنا ہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں وہ زمیندار کا قرض چکا کر کچھ پیسے بچا سکتے ہیں ۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ ہاریوں نے مویشی رکھے ہوتے ہیں وہ چھوٹے پیمانے پر دودھ بیچ کر اپنی روز مرہ آمدن کا بندوبست کرتے ہیں ۔ سندھ میں بے زمین ہاریوں کی زندگیوں کا گزارہ سالہا سال سے اسی طرح کے کاروباری رشتے پر ہورہا ہے ۔ ہاریوں اور زمینداروں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہی پڑتا ہے ۔ نبی بخش ساتھیو اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاری زمیندار کی زمین کا کرایہ اور دیگر ٹیکس ادا کرنے میں سانجھے دار نہیں ہوتا حالانکہ بحثیت آدھے سانجھے دار کے اسے چاہیئے کہ وہ اس میں بھی آدھ کی سانجھ داری کرے۔ زیریں سندھ کے علاقے میں باغات ہیں جہاں پھلوں کے موسم میں آموں اور کیلوں کے باغات پر ہاری محنت مزدوری سے کچھ پیسے کما لیتے ہیں۔ کپاس کی چنائی بھی ایک دوسرا طریقہ ہے ۔ اس کام میں ایک من کپا س چننے کے 3 سے 4 سو روپے ملتے ہیں ۔ وہ ہاری جو ان زمینوں کو کاشت کرتے ہیں جنہیں صرف ششماہی نہروں سے پانی حاصل ہوتا ہے ، وہ سارا سال صرف ایک خریف کی فصل اگا سکتے ہیں جس کی آمدن بہت محدود ہوتی ہے ۔
ہاری اور زمیندار کے کاروباری تعلق کی نگرانی سندھ کرایہ داری ایکٹ 1950 کو کرنی چاہیئے۔ اس قانون کے تحت ہاری زمیندار کے کرایہ دار ہیں ۔ لیکن قانون کے نفاذ میں سستی اور عمومی انتظام میں بےضابطگی نے ہاریوں کا استحصال ممکن بنا دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمیں اکثر جبری مشقت جیسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مزدوروں کے حقوق کے لئے سرگرم کارکن کرامت علی کا ماننا ہےکہ سندھ کرایہ ایکٹ میں ضروری ترامیم ہونی چاہییں تاکہ ہاریوں کے حقوق کے لئے کورٹس بنائے جا سکیں اور انہیں تنظیم سازی کا حق ملے ۔ان کا کہنا ہے موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہاریوں کو ان کے جائز حق کا 50 فیصد نہیں ملتا ۔ زبانی کلامی معاہدے کی روایت کو بدلنےکی ضرورت ہے۔ رسمی معاہدہ تحریری ہونا چاہیئے اور اسے ریورنیو ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹر ہونا چاہیئے ۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ہاریوں کو زمینوں سے زبردستی بے دخل نہیں کیا جائے گا ۔ اور اگر ایسا ہو اتو انہیں کورٹ سے انصاف ملے گا ۔ سندھ کرایہ داری ایکٹ کا اجرا حیدر بخش جتوئی کی زیر قیادت مشہور سندھ ہاری تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوا ۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دیا تھا اور اس وقت کے قانون سازوں پر زور دیا تھا کہ وہ ہاریوں کے حق میں قانون سازی کریں ۔
پاکستان کے معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی نے 2014 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے لئے پاکستان میں رائج معیادی نظام پر تحقیق کی ۔ ان کی تحقیق کے مطابق دیہی علاقوں میں 3 چوتھائی یعنی 76 فیصد لوگ ہاری /مزارع ہیں ۔ ان کے جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق 98 فیصد ہاریوں /مزارعوں کے پاس 16 ایکٹر سے کم رقبہ ہے ۔ جسے وہ سانجھ پر کاشت کرتے ہیں ۔ ان میں 43 فیصد ایسے ہیں کہ جن کے پاس 5 ایکٹر سے بھی کم رقبہ ہے ۔ ڈاکٹر بنگالی کا کہنا ہے کہ معیادی نظام ختم ہونا چاہیئے اور اس کی جگہ دیہاڑی دار مزدوری کا نظا م رائج ہونا چاہیئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ معیادی نظام کو اس لئے بھی ختم کرنا ضروری ہے کہ اس کے نتیجے میں محنت کش زمیندار کے پاس جبری مقیم ہوکر رہ جاتا ہے یوں اس کا مسلسل استحصال ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ ہمارے قوانین بھی اس کی زیادہ مدد نہیں کرسکتے ۔
فیس بک پر تبصرے