ہم آزادی سے خائف ہیں؟

1,455

ہمارے سماج میں جس سرعت کے ساتھ سیاسی تبدیلیوں کے عمل کو ہوا دی گئی اس سے عدم استحکام کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں،انیس سو نوے کی دہائی میں سیاسی جماعتوں نے کھینچاتانی کے نامطلوب نتائج اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کے تلخ تجربات کے بعد میثاق جہموریت کر کے عوام کے حق حاکمیت کے تحفظ اور آئین و قانون نظام کو مستحکم کرنے پہ اتفاق کر لیا لیکن ایک تو بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے این آر او کر کے جمہوری قوتوں کے مابین سیاسی ہم آہنگی کو گزند پہنچائی دوسرے نواز شریف نے میمو گیٹ سکنڈل اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی متنازعہ عدالتی فیصلہ کے ذریعے برطرفی کی حمایت کر کے سویلین بالادستی کے خواب کو خود ہی چکنا چور کر دیا،بے نظیر بھٹو این آر او نہ کرتیں تو یوں بیکسی کی موت مرتیں نہ انکی جماعت آج فنا کی دہلیز پہ نظر آتی،نواز شریف بھی اگر میمو گیٹ سکنڈل میں ٹریپ نہ ہوتے تو انہیں حکومت ملتی نہ ملتی لیکن آج وہ حسرت سے ہاتھ نہ مل رہے ہوتے۔لیکن جن نادیدہ قوتوں نے،سیاست کی فریب کاریوں کے اس ہنگام میں عمران کی پی ٹی آئی کو پرموٹ کیا، وہ بھی مداخلت کے نتائج سے بچ نہیں سکیں،تحر یک انصاف نے ایک طرف جارحانہ کشمکش کے ذریعے سیاسی ماحول کو پراگندہ کر کے جمہوری ارتقاء کے فطری عمل کی رخ گردانی کی اور دوسری طرف اسی جماعت کے غیرمتعین سیاسی کلچر کی کوکھ سے پشتون تحفظ موومنٹ جیسی نسلی تحریک کو حیات نو ملی،جس نے مملکت کے حفاظتی تیقّن (Security Myth)کو متزلزل کر دیا،پچھلے دس سالوں میں طالبان آئزیشن کے دباو کا شکار قوم پرست کارکنوں نے پی ٹی آئی میں خفیہ سیل بنا کے اپنی نسلی سوچ کو چھپائے رکھا اور موافق ماحول پاتے ہی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر نئے نعروں کے ساتھ سامنے آ گئے،ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ جس وقت قوم پرستی کی سیاست کرنے والے روایتی سیاستدان شکست کی گرد جھاڑ کے پنجاب کی ایک ملک گیر جماعت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے پہ آمادہ ہوئے عین اسی وقت پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی نئی علاقائی قوم پرستی کی حامل جماعتیں(Neo Sub Nationalist Parties) جدید حرکیات کے ساتھ ابھر کے سامنے آ گئیں،کیا اب بلوچستان عوامی پارٹی بھی پیش پاء افتادہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں بدل کے نسل پرستوں کے ہارے ہوئے سپاہیوں کیلئے مستقبل کے امکانات کو زندہ رکھنے کا وسیلہ بنے گی،ہماری مقتدرہ جو جمہوریت کو ایک ہاتھ سے دور دھکیلتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے ناآموختہ عمل سمجھ کے سینے سے لگاتی ہے۔کیا تیزی کے ساتھ قومی دھارے کی سیاسی حمایت سے جدا ہوتی مملکت موثر عوامی حمایت کے بغیر ان زخم خوردہ گروہوں کو اپنا بنا پائے گی؟ اب اسی سوال کے ساتھ ہمارا قومی مستقبل معلق ہو گیا ہے۔بدقسمتی سے جس طرح کراچی میں مصنوعی طریقوں سے پی ایس پی کو ایم کیو ایم کا متبادل بنانے کی ناکام کوشش نے سندھ میں قومی وحدت کے تصورکو کنفیوژ کیا اسے کلیئر کرنے کیلئے ہمیں کسی نئی بہارِ مہاجر کی ضرورت پڑے گی،سوشل میڈیا کے اس پرپیچ دور میں اگر سیاسی گروہوں کی مصنوعی تخلیق کاری کے عمل سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا تو بہتر ہوتا کیونکہ دو کروڑ کی متنوّع آبادی کے شہر میں اگر پولیٹیکل پارٹیوں کی بے رحمانہ کتربیونت جاری رہی تو اس ناپسندیدہ عمل کے بطن سے کوئی نئی بلا پیدا ہو سکتی ہے۔فرانسس بیکن نے کہا تھا کہ سیاست میں تبدیلیاں ہمشیہ طاقت کی ایما پہ آتی ہیں،بیشک،اگر قوت کے مراکز قوم کے اجتماعی شعور سے ہم آہنگ ہوں تو ایسے محرکات نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن اب طاقت کی تعریف تبدیل اور انسانی سماج کو کنٹرول کرنے والے آلات بدل گئے ہیں،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں قومی دھارے کے میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا اور گلوبل رابطہ کاری بھی موثر طاقت بن چکی ہے،ایسے میں جو لوگ عوام کیلئے دام بچھاتے ہیں اور اس دام کو ریاست کا نام دیتے ہیں،تقدیر انہیں غیر مربوط واقعات کی مدد سے کسی ان دیکھی تباہی سے دوچار کر سکتی ہے۔چھوڑ دیجئے اس کام کو کیونکہ سیاست میں اُدھیڑ، بُن کا یہ خطرناک کھیل کسی بھی لمحہ سماج کے قدرتی نظم و ضبط کو بکیھرنے کا سبب بن جائے گا۔قومی دھارے کی مقبول جماعت کو پاباجوالاں کرنے کی خاطر پنجاب میں نیب کی فعالیت اور ایک بے فیض عدالتی کشمکش نے مسلم لیگ کی مزاحمتی تحریک کو توانائی بڑھا دی،نوازشریف سیلاب کی طرح چڑھتے نظر آتے ہیں،انکے لہجہ کا اعتماد بتا رہا ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابی معرکہ سے قبل ہی وہ سیاسی جنگ جیت چکے ہوں گے لیکن افسوس کہ ایک طرف شریفوں کی پیشقدمی ہر آن طاقت کے مراکز کو کمزور کر کے مغربی سرحدات پہ جنگ دہشتگردی کے بطن سے جنم لینے والے نسلی تحریکوں کے حوصلے بڑھا رہی ہے تو دوسری طرف ملک کے کونہ کونہ میں سیاسی عمل کو کنٹرول کرنے کی پالیسی نے طاقت کے مراکز کی سیاسی نظام پہ گرفت کمزور کر دی ہے۔اسی لئے اب وہ فطری آزادیوں سے خوف کھانے لگے ہیں،ہمارے آبا واجداد سیاست میں آزادی کے خواہشمند ہونے کے باوجود اخلاق کے معاملہ میں سختی سے روایتی انداز کے پابند ہونے کے وجہ سے ریاست کی دسیسہ کاری کے ہاتھوں مات کھاتے رہے لیکن آج کے سیاستدان اپنے دل پہ کوئی بوجھ لئے بغیر وعدہ توڑ دیتے ہیں اور نیا وعدہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، وہ اپنی اخلاقیات و نظریات میں لچکدار ہونے کے باعث زیادہ پیچیدہ اور مہلک ہوتے جا رہے ہیں،جنہیں خوف و ترغیب کے ذریعے مینیج کرنا دشوار ہو گا،وہ ہماری سیاسی سائنس کے اس میکانزم کو جان گئے ہیں کہ مقتدرہ اگرچہ مملکت کی مشینری کا ایک پرزہ سہی لیکن یہی اہم پرزہ اس پوری مشین کو کنٹرول بھی کرتا ہے،چنانچہ اس وقت وہ تمام جماعتیں جو اسٹبلشمنٹ کی دائیں یا بائیں طرف کھڑی ہیں،اسی سنٹرآف گرویٹی سے طاقت حاصل کرتی ہیں اور اسی مرکز ثقل پہ دباو بھی بڑھا رہی ہیں،اسلئے آزادی اور جمہوریت کے نعرت مقبول ہو رہے ہیں۔اسکے علاوہ قومی سیاست کو نیب کے کوڑے سے ریگولیٹ کرنے کے مضمرات کو بھی زیادہ دیر تک کنٹرول میں رکھنا ممکن نہیں ہو گا،یہ عفریت بہت جلد ملکی سیاست کے اس خام مواد کو نگل جائے گا جس سے معاشرہ اورسیاسی نظام استوار ہونے جا رہا ہے،شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات پہ سابق وزیراعظم اور اسکے رفقاء کی جارحانہ تنقید سے زچ ہو کر نیب نے اب خیبر پختون خوا میں علامتی کاروائیوں کے ذریعے یکطرفہ احتساب کے منفی تائثر کو زائل کرنے کی کوشش میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ان میڈیا رپوٹس کی تحقیقات شروع کر دی،جن میں سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیرقانونی استعمال اور بلین ٹری پراجیکٹ میں بے قاعدگیوں کے علاوہ مالم جبّہ میں محکمہ سیاحت و ثقافت کی طرف سے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کی 256 ایکڑز اراضی مردان کی نجی کپمنی کو الاٹ کرنے جیسے سکنڈل شامل ہیں،یہ تو معلوم نہیں ہو سکا،نیب ان معاملات کی چھان بین کن خطوط پہ کرے گی تاہم اگر پنجاب میں ایل ڈی اے کے چیئرمین احد چیمہ کے خلاف کی جانے والی انکوائری کا ماڈل فا لو کیا گیا تو خیبر پختون خوا کی انتظامی مشینری منہدم ہو جائے گی کیونکہ مالم جبّہ لینڈ الاٹمنٹ سکنڈل صوبہ کے میر منشی کے گرد گھومتا ہے،اپریل 2014 میں جب پختون خوا کے موجودہ چیف سکریٹری،شعبہ سیاحت و ثقافت کے صوبائی سیکریٹری تھے،انہی دنوں مردان کے سمسن(SAMSON) گروپ کو مالم جبہ میں ہوٹل کی تعمیر کے لئے 5 ایکٹر اور چیئرلفٹ کیلئے 12 ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کے علاوہ ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ کے ایم ڈی نے ہوٹل سے ملحقہ محکمہ جنگلات کی 256 ایکٹرز قیمتی اراضی نجی کمپنی کو ا لاٹ کر دی،مسّیر معلومات کے مطابق محکمہ ہذا نے نجی کپمنی کو 256 ایکڑ اراضی کی الائٹمنٹ اپریل 2014 میں کی لیکن وزیر اعلی سے منظوری جون 2014 میں لی گئی،دریں اثناء ٹوئرازم ڈیپارٹمنٹ نے فارسٹ کی 256 ایکٹر اراضی کی الائٹمنٹ بارے سیکریٹری جنگلات کی ایما لینے کوشش کی لیکن سیکریٹری فارسٹ نے این او سی دینے سے انکار کر دیا تھا،اس کے باوجود محکمہ سیاحت و ثقافت نے نہایت بیباکی کے ساتھ محکمہ جنگلات کی ملکیتی 256ایکڑز قیمتی اراضی نجی کمپنی کو الاٹ کر کے مطالق العنانی کا ثبوت دیا،معاصر انگریزی اخبار میں لینڈ الاٹمنٹ کی خبروں کی اشاعت کے بعد نیب نے اس معاملہ کی انکوائری شروع کی تو سیاحت و ثقافت ڈیپارٹمنٹ نے متذکرہ اراضی بارے ایک مہمل موقف اختیار کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اراضی مذکورہ والیِ سوات سے وفاقی حکومت کومنتقل ہوئی جسے وفاقی حکومت نے محکمہ سیاحت و ثقافت کو سرننڈر کر دیا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...