نوجوان نسل ’امکانات اور چیلنج‘

906

پاکستانی عہدیداروں اور پالیسی سازوں کے یہ خدشات اپنی جگہ کے داعش اور دیگر شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے نظریات کی جانب راغب کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی نصف آبادی 25 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، جو کہ ملک کا یقیناً ایک اثاثہ تو ہے لیکن اگر یہ نوجوان راہ راست سے ہٹ گئے تو شاید ملک کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج ہو سکتے ہیں۔

نوجوان نسل کی تعلیم اور اُن کو مناسب روزگار کی فراہمی کا چیلنج اپنی جگہ، لیکن اُن کے انتہا پسندی کی جانب مائل کا خطرہ یقیناً ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔

اگرچہ اس خطرے کو پہلے سے بھانپتے ہوئے اس کے انسداد کی پیش بندی کی جانی چاہیئے تھی لیکن ایسا نا ہوا۔

تاہم فوج نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے

ملک میں انتہاپسندی کے خاتمے میں نوجوانوں کے کردار سے متعلق 18 مئی کو ایک مباحثے کا اہتمام کرایا۔

اس موقع پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ایک ایسے ملک کی حیثیت سے دوراہے پر کھڑا ہے جس کی 50 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں آئندہ 10 سال بعد پاکستان یا تو اپنے اس اثاثے کے ثمرات حاصل کر رہا ہو گا، یا پھر دوسری صورت میں نوجوان کے انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے چیلنج سے نمٹ رہا ہو گا۔

پاکستانی عہدیداروں اور پالیسی سازوں کے یہ خدشات اپنی جگہ کے داعش اور دیگر شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے نظریات کی جانب راغب کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔

لیکن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے محض ایک سیمینار، مباحثہ یا محدود حکمت عملی کافی نہیں اور نا ہی یہ مختصر یا جز وقتی چیلنج ہے۔

یہ بات درست اور حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلح تنظیموں کے خلاف پاکستانی فورسز کو کامیابی ملی۔۔۔۔ بندوق اور گولہ و بارود کے خلاف جنگ تو بہت حد تک جیتی جا رہی ہے لیکن وہ قوتیں جو انتہا پسندی کی جانب نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے ذہن سازی کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس کا مداوا کرنے کے لیے تاحال ہمارے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں۔

انتہا پسندی کے انسداد کے لیے ایک مثبت بیانیے کا فروغ اور اس کا پرچار کرنے کی کوشش اپنی جگہ، لیکن کیا محض یہ ہی کافی ہے؟

مشکل یا چیلنج کو دوڑ پر پیچھے سے پکڑنے سے شاید کامیابی ہاتھ نا لگے۔۔۔۔۔ اگر مقصد حاصل کرنا ہے تو چیلنج کے سامنے کھڑے ہو کر اُسے روکنے کی کوشش کرنی ہو گی۔

تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں، جامعات میں مباحثے، سوشل میڈیا کے  محفوظ استعمال کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرے اور اردگرد کے ماحول کو بھی ایسا بنانا ہو گا جو مثبت ذہن سازی کا ذریعہ بنے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں روزگار کی فکر صرف ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوان کو ہی نا ہو بلکہ ریاست اور حکمرانوں کی ترجیح بھی نوجوانوں کا مستقبل ہو۔

عصری تعلیم کے ماہرین اور سوچ بچار کرنے والوں سے مشاورت اور اُن کی تجاویز پر عمل درآمد یقیناً ضروری اور اہم ہے لیکن اگر کھیل سے وابستہ شخصیات، دیہی علاقوں اور قصبوں میں رہنے والی وہ نسل جو رواداری کا پیغام دیتی آئی ہے اُن کو بھی اس کوشش میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اگر محلے، گلی، دیہات یا علاقے میں نوجوانوں اور اُن شخصیات کے درمیان ربط بڑھانے کا کوئی ذریعے میسر ہو جو حقیقی معنوں میں معاشرے میں مضبوطی کا سبب ہیں تو ہم اور کچھ نہیں تو ایک قدم آگے ضرور بڑھ سکتے ہیں۔

اس تیز رفتار دور میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے استعمال سے دور کرنا اور اس کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا تو شاید ممکن نہیں لیکن نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں کی طرف راغب کرنا بہت حد تک ممکن بھی ہے اور ایک قابل عمل منصوبہ بھی۔

چیلنج بڑا اور سفر طویل ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن منزل کا حصول نا ممکن نہیں۔

خاص طور پر ایک ایسا جس کی نوجوان نسل نے اپنے اردگرد بہت خوف بہتا دیکھا ہو اور بلواسطہ یا بلاواسطہ دہشت گردی سے متاثر بھی ہوئے ہوں، اُن کی منزل اور کچھ نہیں امن ہی ہو سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...