جوڈیشل مارشل لا کے سائے
بیسویں صدی کے معروف مغربی مفکر رالز نے انصاف کو بطور راست بازی بہت نمایاں طور پر انصاف کے اہتمام کی خاطر وسیع المعنیٰ سطح پر سماج کے مجموعی سیاسی ادراک کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے بنیادی سوال اٹھا یا تھا کہ کسی معاشرے میں لوگ خاصے متضاد مگر معقول و جامع نقطہ نظر رکھنے کے باوصف ایک دوسرے کے ساتھ کیونکر تعاون کر سکتے ہیں۔رالز کے اس سوال کی تفہیم و توضیح اس کے ساتھی امریتا سین نے معقولیت اورعملی استدلال کے ساتھ پیش کی ہے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ انصاف کے حوالے سے لوگ مشترکہ معقول سیاسی ادراک رکھتے ہوں جو ان کو بنیادی سیاسی مسائل پر عوامی بحث کرنے اور معقولیت کے ساتھ فیصلہ سازی کےلیے بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ خواہ تمام معاملات میں نہ سہی مگر امید ہے کہ دستوری لوازمات اور بنیادی انصاف کے معاملات میں ایسا ہو سکتا ہے ۔ ( ص69 تصور انصاف)
گزشتہ مضمون میں راست بازی کی راہ میں حائل مزاحمت کا تذکرہ کیا گیا تھا ۔ بد قسمتی سے راست بازی اور انصاف کے پس منظر میں مذکورہ تجزیے میں ایک قانون دان نے راست گوئی سے گریز کی شعوری کوشش کی تھی جس کا اظہار اس کی پیشہ ورانہ فرائض اور معاشی سرگرمی کو متاثر کرسکتا تھا ۔ ایک ایسے ادارے میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کو پہنچنے والی کسی زک کے تدارک کے لیے تمام شہریوں نے رجوع کرنا ہے اور عدلیہ نے اس ناقابل تنسیخ حق کی شنوائی بھی کرنی ہے ان کے متعلق ایک وکیل محتاط روی جو درحقیقت مفادات پر ضرب پڑنے کے خوف کا نتیجہ ہے ، گریز و اجتناب کرتا ہے ۔ کیا اسے انصاف و راست بازی کے لازم و ملزوم کلیے کے تناظر میں خوشگوار مبنی بر انصاف آزاد سماجی ماحول تشکیل کرنے والے آئینی ریاستی سماج کے ہم آہنگ قرار دینا ممکن ہوگا؟ستم بالائے ستم یہ کہ عدالت عظمیٰ کے معزز رکن جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف دو سال سے زیر التوا اس درخواست کو قابل سماعت قرار دینے کا اچانک فیصلہ بھی سامنے آگیا ہے ۔ جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے شیخ رشید کی نااہلیت کے معاملے کی سماعت کے دوران پانامہ کیس کے فیصلے کی پیروی پر اصرار کیا تھا ۔ لیکن ان کے برادر جج اس سے متفق نہیں تھے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں بھی شہبار شریف کے حق میں فیصلہ صادر کرنے کے بعد شائد معتوب و نامطلوب جج کا رتبہ پا چکے ۔ دریں حالات سوال اٹھتا ہے کہ اگر ملک کی سب سے معتبر اور معزز عدلیہ میں متبادل استدلال اور نکتہ نظر رکھنے ، بیان کرنے کی گنجائش نہیں تو پھر پورے معاشرے میں جہاں بہت سے امور پر ناقابل عبور حد تک اختلافات و تناؤ کی صورتحال موجود ہے، کیونکر، کون اور کیسے ، باہمی اتفاق و معاشرتی مفاہمت ، تحمل و بردباری اور متبادل نقطہ نظر کو برداشت کرنے ، گنجائش دینے اور اس سے عدم اتفاق کے علی الرغم احترام دینے کی گنجائش قائم ہوسکتی ہے، جس کی بابت رالز نے ازروئے بحث بنیادی سوال اٹھا یا تھا ۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی اور پھر سپریم کورٹ میں تبادلہ کے عمل میں کوئی قانونی سقم اگر موجود بھی تھا تو اسے تب قابل سماعت کیونکر نہ گردانا گیا جب درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا تھا ۔قانونی تقاضوں اور موشگافیوں سے قطع نظر جن حالات میں درخواست ہذا کو قابل سماعت قرار دیاگیا ہے اس کی کچھ تفصیل سطور بالا میں بیان ہوگئی ہے۔ جبکہ ملک میں موجود وہ بحران جو سیاسی پارلیمانی ادوار سے اور حرفا ًلفظاً معنوی و عملی بالادستی کو چیلنج کرنے کی وجہ سے سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے،اس کی بڑھتی ہوئی حدت کے لمحوں میں جناب جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمے کا احیا شاید اس مصنوعی بیانیے کی سطحی معنویت کی بھی قلعی کھول رہا ہے جو سینٹ کے حالیہ انتخاب میں بلوچستان کو چیئرمین شپ عنائت فرما کردہائیوں پر مشتمل صوبے کے احساس محرومی کے خاتمے کی تیر بہدف کوشش کے طور پر کیا جارہا ہے۔
اگر جسٹس فائز عیسیٰ کی تقرری پر اعتراضات ہیں تو کیا انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے لے جانے کا عمل زیادہ بہتر نہ ہوتا؟مذکورہ بالا صورتحال جو جوڈیشل ایکٹوازم کے ابھار سے زیادہ نمایاں ہورہی ہے ،کو شیخ رشید کے جوڈیشل مارشل لا کے مطالبے کی عملی پیشقدمی کے طور پر دیکھا جانا مناسب ہوگا ۔
مارشل لا کے معنی و کردار سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ فوجی حکومت یا مارشل لا کے علاوہ ہماری ملکی تاریخ میں پہلے سول مارشل لا بھی نافذ رہا ہے ۔ جس کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ استدلال کیا جا تا ہے کہ فوجی آمر سے اختیارات کے انتقال کے دوران ایسا کرنا مجبوری تھی کہ اس وقت ملک میں آئین موجود ہی نہیں تھا ۔ اس پر متبادل استدلال یہ ہے کہ کیا آئین کی موجودگی میں فوجی آمر سے انتقال اقتدار آئینی ذرائع سے ہونا قانوناً ممکن ہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ فوجی مارشل لا کو بھی جائز قانونی حاکمیت تسلیم کیا جاتا ۔ جیسا کہ بعد ازاں دوبار ہوا بھی ہے اور اب جبکہ ملک میں چیف جسٹس اپنی نگرانی میں تمام انتخابات کے صاف و شفاف انعقاد کے لئے عزائم کا برملا اظہار کر چکے ہیں تو مستقبل قریب کی سیاسی حد بندی اور گزشتہ پینتالیس سال تک ہوئے انتخابات میں سرایت شدہ عدم شفافیت با الفاظ دیگر مداخلت و اثراندازی پر خود چیف جسٹس مہر تصدیق ثبت فرما چکے ۔ کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اپنے بیان کردہ عزائم کی تکمیل کے لئے ملک میں جوڈیشل مارشل لا رفتہ رفتہ اپنی گرفت مستحکم نہیں کررہا ؟چنانچہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر انتخابات چیف جسٹس کی نگرانی میں ہونے ہیں تو پھر نگران چیف ایگزیکٹو ( وزیر اعظم) کی تلاش و تقرری کی کیا ضرورت ہے ؟
آج جسٹس دوست محمد کے الفاظ کو گہرے شعوری ادراک پہ مبنی تنبیہ کے طور پر یاد رکھنا اشد ضروری ہے کہ” جب سیاسی معاملات عدالتوں میں آتے ہیں تو پھر مارشل لا کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔”
فیس بک پر تبصرے