مولانا ابو الکلام آزاد اور موسیقی

1,950

’’ میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا ، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی حیثیت تو اپنے مقام پر مسلم ہے لیکن ان کے مقام علمی کا  کوئی  بھی انکار نہیں کرتا۔ ایک بڑا طبقہ انھیں امام الہند کے نام سے بھی یاد کرتا ہے۔ مشرب کے لحاظ سے ان کو جدید رجحانات رکھنے والا اہل حدیث کہا جاسکتاہے۔ برصغیر میں اور بھی ایسے اکابر گزرے ہیں جن کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جن میں مولانا جعفر شاہ پھلواروی اورمولانا محمد حنیف ندوی شامل ہیں لیکن شاید ان سب میں مولانا ابوالکلام آزاد کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔ ترجمان القرآن کے نام سے ان کے تفسیری مطالب تین جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ادب کی دنیا میں بھی ان کو ایک شہ سوار کی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو موسیقی سے بھی خاصی دلچسپی رہی ہے۔
موسیقی کا مسئلہ علماء کے مابین خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے زیادہ تر علماء موسیقی کو مطلقاً حرام قرار دیتے رہے ہیں۔البتہ اس کے لیے وہ ‘‘غنا’’ کا کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ علماء کی ایک تعداد اس حرمت میں سے دو استثناء ات کی قائل ہے۔ ایک شادی بیاہ کے موقع پر لڑکیوں کا آپس میں گیت گانا اور دوسرا حدی خوانی یعنی شتر بانوں کا اونٹوں کے کاروانوں میں گانا۔ یہ دونوں امور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رائج تھے اور آپؐ نے ان سے منع نہیں کیا بلکہ بعض روایات کے مطابق شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کی سکھیوں کے گیت کی آواز نہ آنے پر استعجاب بھی کیا۔
جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے تو اس کو بھی مطلقاً حرام قرار دینے والے علماء بڑی تعداد میں موجود ہیں البتہ عموماً ‘‘دف’’ کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے کیونکہ ان علماء کے نزدیک رسول اللہؐ کے زمانے میں اس کا رواج تھا اور جب آنحضرتؐ مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ داخل ہو رہے تھے تو مدینے کی لڑکیاں آپؐ کے استقبال کے لیے دف بجا کر یہ گیت گا رہی تھیں‘‘ طلع البدر علینا۔ وجب الشکر علینا’’۔
بہرحال ایسے علماء بھی ہیں جو گائیکی کی بعض دیگر صورتوں کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح صوفیاء کا ایک گروہ ‘‘سماع’’ کو جائز قرار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں جو مذہبی حوالے سے قوالیوں کا رواج ہے وہ اسی جواز سے استفادے کی ایک شکل ہے۔
البتہ کم تعداد میں ایسے علماء بھی ہیں جو موسیقی کی دو صورتوں کے قائل ہیں ،ایک حلال اور دوسری حرام۔ اس مسئلے کی کچھ تفصیلات ہیں جسے ہم کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں کیونکہ آج ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد کے ذوق موسیقی پر کچھ عرض کرنا ہے۔
موسیقی کے ساتھ ان کی وابستگی،رغبت بلکہ انتہائے شوق کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ وہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں
’’ میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا ، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘
موسیقی کے سحر میں مولانا ایسے گرفتار تھے کہ اپنی اس جاذبیت کو بیان کرتے ہوئے وہ پڑھنے والے کے قلب و نظر کو بھی جذب کرلیتے ہیں۔ چنانچہ جوانی کے اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جب وہ موسیقی کے انتہائی دلدادہ ہو چکے تھے، لکھتے ہیں:
’’آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا، اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہونے کو ہوتا تو چاند پردۂ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے یہ انتظام کررکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا، پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہوجاتا، کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے ستارے سر اٹھائے کھڑے تھے، برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، آپ یاد کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں، میں نے بارہا برجیوں سے باتیں کی ہیں۔‘‘
مولانا نے اپنے مختلف مکتوبات میں بتایا ہے کہ انھوں نے کب کب اور کس کس سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کو خاص ستار سے رغبت ہو گئی تھی اور اس پر ان کی انگلیاں خوب رواں تھیں۔ ان کے والد صاحب کے ایک مرید جو موسیقی کے استاد تھے، آزاد نے انھیں بھی چپکے سے اپنا استاد کر لیا تھا اور گوشہ نشینی میں ان سے کئی برس تک فیض موسیقی حاصل کرتے رہے، اس کا نام مسیتا خاں تھا۔ اس دور میں اپنی کیفیت وہ اس شعر کے ذریعے بیان کرتے ہیں:
عشق می ورزم و امید کہ ایں فن شریف
چوں ہنر ہائے دگر موجبِ حرماں نشود
موسیقی سے اپنی رغبت کے لیے وہ دلیل بھی ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
’’مقصود اس اشتعال سے صرف یہ تھا کہ طبیعت اس کوچہ سے نا آشنا نہ رہے کیونکہ طبیعت کا توازن اور فکر کی لطافت بغیر موسیقی کی ممارست کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب ایک خاص حد تک یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر مزید اشتعال نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ موانع کار کے حکم میں داخل ہو گیا تھا۔ البتہ موسیقی کا ذوق اور تاثر جو دل کے ایک ایک ریشے میں رچ گیا تھا، دل سے نکالا نہیں جاسکتا تھا اورآج تک نہیں نکلا:
جاتی ہے کوئی کش مکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو۔‘‘
مولانا آزاد کو دنیا کے مختلف خطوں کی موسیقی کے مزاج کا علم تھا۔ وہ عربوں کی موسیقی سے بھی اسی طرح آشنا تھے جیسے ہندوستان کی موسیقی سے۔ وہ اہل مغرب کی موسیقی میں نئے نئے تجربات سے بھی واقف تھے۔ انھوں نے موسیقی پر لکھی گئی کئی ایک قدیم کتب اچھی طرح سے پڑھ رکھی تھیں۔ وہ بعض مذہبی امور میں بھی موسیقیت کو تلاش کر لیتے تھے۔ ان کے چند کلمات ملاحظہ فرمائیے:
’’بچپنے میں حجاز کی مترنم صداؤں سے کان آشنا ہو گئے تھے۔ صدر اول کے زمانے سے لے کر جس کا حال ہم کتاب الاغانی اور عقد الفرید وغیرہ میں پڑھ چکے ہیں، آج تک حجازیوں کا ذوق موسیقی گیر متغیر رہا۔ یہ ذوق ان کے خمیر میں کچھ اس طرح پیوست ہو گیا تھا کہ اذان کی صداؤں تک کو موسیقی کے نقشوں میں ڈھال دیا۔ آج کل کا حال معلوم نہیں لیکن اس زمانے میں حرم شریف کے ہر منارہ پر ایک موذن متعین تھا اور ان سب کے اوپر شیخ الموذنین ہوتا۔ اس زمانے میں شیخ الموذنین شیخ حسن تھے اور بڑے ہی خوش آواز تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رات کی پچھلی پہر میں ان کی ترحیم کی نوائیں ایک سماں باندھ دیا کرتی تھیں۔‘‘
ہمارے کئی ایک فقہاء نے لکھا ہے کہ بھدی اور بے سری آواز میں اذان دینا مکروہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت اور مترنم آواز میں دی گئی اذان کی تاثیر کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ایسی اذانیں بھی گاہے سنائی دیتی ہیں جو مسجد کی طرف کھینچنے کے بجائے دور بھاگنے پر اکسا رہی ہوتی ہیں۔
مولانا ایک مقام پر مصر کے شیخ احمد سلامہ حجازی کا تذکرہ کرتے کرتے ایک مغنیہ کا ذکر ان الفاظ میں چھیڑتے ہیں:
اس زمانے میں مصر کی ایک مشہور ’’عالمہ‘‘ طاہرہ نامی باشندہ طنطا تھی۔ ’’عالمہ‘‘ مصر میں مغنیہ کو کہتے ہیں، یعنی موسیقی کا علم جاننے والی، ہمارے علماء کرام کو اس اصطلاح میں غلط فہمی نہ ہو، یورپ کی زبانوں میں یہی لفظ (Alma) ہو گیا ہے۔ شیخ سلامہ بھی اس عالمہ کی فن دانی کا اعتراف کرتا تھا۔ وہ خود بھی بلائے جان تھی، مگر اس کی آواز اس سے بھی زیادہ آفت ہوش و ایمان تھی۔ میں نے اس سے بھی شناسائی باہم پہنچائی اور عربی موسیقی کے کمالات سنے۔ دیکھیے اس خانماں خراب شوق نے کن کن گلیوں کی خاک چھنوائی۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں
اس زمانے میں مصر کی مغنیہ ام کلثوم کا بھی طوطی بولتا تھا۔ مولانا ان کے بھی دل باختہ ثابت ہوئے، لکھتے ہیں:
جس زمانے کے یہ واقعات لکھ رہا ہوں، اس سے کئی سال بعد مصر میں ام کلثوم کی شہرت ہوئی اور اب تک قائم ہے۔ میں نے اس کے بے شمار ریکارڈ سنے ہیں اور قاہرہ، انگورہ، طرابلس الغرب، فلسطین اور سنگاپور کے ریڈیو سٹیشن آج کل بھی اس کی نواؤں سے گونجتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس شخص نے ام کلثوم کی آواز نہیں سنی ہے وہ موجودہ عربی موسیقی کی دلآویزیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
مولانا موسیقی اور شاعری کی باہمی الفت و التفات کا ذکر بھی خوبصورت انداز سے کرتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقت کے دو مختلف جلوے ہیں اور ٹھیک ایک ہی طریقہ پر ظوہر پذیر ہوتے ہیں۔ موسیقی کا مولف الحان کے اجزا کو وزن و تناسب کے ساتھ ترکیب دے دیتا ہے اسی طرح شاعر بھی الفاظ ومعانی کے اجزا کو حسن وترکیب کے ساتھ باہم جوڑ دیتا ہے۔
توحنا بستی و من معنی رنگیں بستم
جو حقائق شعر میں الفاظ و معانی کا جامہ پہن لیتے ہیں وہی موسیقی میں الحان و ایقاع کا بھیس اختیار کر لیتے ہیں۔ نغمہ بھی ایک شعر ہے لیکن اسے حرف و لفظ کا بھیس نہیں ملا۔ اس نے اپنی روح کے لیے نواؤں کا بھیس تیار کرلیا ہے۔
موسیقی کے حوالے سے مولانا کے ارشادات اور تجربات لکھتے چلے جائیں تو ایک کتاب چاہیے۔ہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کچھ ذکر کردیا ہے۔ آخر میں مولانا کے کمال علم و فضل کا اعتراف کرنے والے چند مشاہیر کی آراء نذر قارئین کرتے ہیں:
علامہ اقبال ؒ کے نزدیک پورے برصغیر میں صرف ابوالکلام مجتہدانہ حیثیت کے اہل تھے۔
مولانا ظفر علی خاں کے نزدیک اجتہاد میں ابوالکلام آزاد ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔چنانچہ وہ ایک شعر میں اپنی اس رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں:
جہان اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ بوالکلام سے
مولانا سید مودودی کے نزدیک ابوالکلام اور اقبال اس دور کے دماغ تھے۔
مولانا حسرت موہانی کے نزدیک ابوالکلام آزاد نثر اور خطابت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔وہ زبان شعر میں یوں رطب اللساں ہیں:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
جس زمانے میں سب تھے مہر بلب
ایک گویا تھا      بوالکلام آزاد
علامہ سید سلیمان ندوی کہتے ہیں :
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابوالکلام آزاد کے ‘‘الہلال’’اور ‘‘البلاغ’’ نے پیدا کیا۔
آغا شورش کاشمیری مرحوم نے ابوالکلام آزاد کی وفات پر ایک شہرہ آفاق نظم کہی جس کا مطلع یوں ہے:
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے، اْفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
حسن ختام کے لیے ہم یہ مصرعہ پیش کرتے ہیں:
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...