سعودی ریاست کے سیاسی افق پر جس ایک نام نے پچھلے ایک سال سے ہلچل مچارکھی ہے وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسیوں کے سبب نہ صرف مشرق وسطی کے سیاسی میدان میں نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں بلکہ خود سعودی ریاست بھی ازسرنو تشکیل کے عمل سے گزر رہی ہے۔ وہ سعودی ریاست کی قرون وسطی کی ریاست کی تصویر کو جدید دور کی ریاست کی تصویر سے بدل دینا چاہتے ہیں اس کوشش میں مستقبل کے پرجوش بادشاہ کو کس طرح کی مشکلات کا سامنا درپیش ہے ۔ اس کا احوال معروف بین الاقوامی تجزیہ کار تھیوڈور کراسک نے دی اکانومسٹ کے صفحات پر کیا تھا۔ (ازطرف مدیر)
سعودی عرب میں مسجد اور ریاست کے تقسیم کی صورت میں ایک عالمی سطح کا جیوپولیٹیکل واقعہ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے جہاں وہابی اسلا م ارتقائی مراحل سے گزرنے میں ہے ۔ سعودی بادشاہت کے راج میں اس طرح تبدیلی اگر کامیابی سے ممکن ہوتی ہے تو اس کے اثرات عالمی سطح کے ہوں گے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ خیال کہ ریاست کو 1979 سے پہلے دورکے جدید اسلام کی طرف بدلا جائے ، محض وہابیت کی طرف جھکاو والے سیاسی لبادے کو اتار پھینکنے تک محدود نہیں ہے۔ اس سے بادشاہت کی وہ شناخت جو اسے خادمیت حرمین شریفین(مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ)بناتی ہے اسے بھی بدل دیا جائے گا ۔یہ خیال گاہے بگاہے ہمیں دکھائی دے چکا ہے ۔ خاص طور پر گذشتہ سال، جب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بادشاہت سے دست برداری کا اعلان اورخادم حرمین شریفین کا لقب اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ شہزادے محمد کی بطور ولی عہد نامزدگی پر اختلاف کرنے والوں کی مزاحمت کے سبب آخری لمحے موخر کردیا ۔
اکتوبر 2017 میں ولی عہد شہزادہ محمد نے اعلان کیا وہ اپنی ریاست کو جدید اسلام کی جانب موڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا عالمی دنیا ان کے اس اقدام میں ان کا ساتھ دے اور ایک سخت گیر معاشرے کو بدل کر سماج کو آزادانہ بناتے ہوئے شہریوں کو بااختیار بنانے اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے ان کی کوششوں کی حمایت کرے۔وہ 1979میں ایران میں شیعہ اسلام کے انقلاب کو تنقید بناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اس کی وجہ سے ان کی ریاست میں سخت گیر وہابیت کا نفاذ ہوا اور پچھی تین دہائیوں سے ان کا ملک ایک” نارمل ” معاشرہ نہیں رہا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابقہ سعودی حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے ۔
تقسیم اور تجدید کے منصوبے
ولی عہد کا منصوبہ اس خیال کے گرد گھومتا ہے کہ مسلم ورلڈ لیگ کو با اختیار بناتے ہوئے اسے حرمین کا عالمی نمائندہ تصور کیا جائے ۔ اس لیگ کے سیکرٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی بین المذاہب ہم آہنگی کے مکالمے اور برداشت کو فروغ دے رہے ہیں جو کہ سعودی تاریخ کا بے مثل حصہ ہے ۔ العیسی کی جانب سے ہولوکاسٹ کی مذمت نہ صرف یہودی طبقے کے لئے خوشگوار حیرت ہے بلکہ اس کو عالمی سطح پر محسوس کیا گیا ہے ۔
ولی عہد اس سلسلے میں دیگر علمائے کرام سے بھی رابطے کررہے ہیں ۔ مستقبل کے بادشاہ اس پیغام کو فروغ دے رہے ہیں کہ ان کی ریاست بین المذاہب ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دے گی ۔ مارچ 2018میں مصر کے دورے دوران ولی عہد نے کوپٹک چرچ کے کیتھیڈرل میں ان کے سربراہ سے ملاقات کی ۔ یہ کسی بھی سعودی حکمران کی پہلی ملاقات تھی ۔ اس کے علاوہ یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ولی عہد جلد ہی عراق میں شیعہ مسلمانوں کے مقدس شہر نجف کا دورہ بھی کریں گے ۔ اس کا مقصد ایران کے اس اثرونفوذ کو روکنا ہے جو اسے شیعہ عربوں پر حاصل ہے۔ یہ دورہ ولی عہد کی ان کوششوں کو ظاہر کرتا ہے جو وہ خطے کی عرب شیعہ اقلیت سے عرب شناخت کے تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے کررہے ہیں جو کہ اس سے پہلے مسلکی شناخت کی بنیاد پر ایران کے محور میں چلے گئے تھے ۔
مزید برآں گزشتہ سال ریاض میں ایک آئیڈیالوجیکل وارفیئر سنٹر ، آئی ڈبلیو سی یا “فکر” کے نام سے کھولا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہوتا ہے ، سوچنا ۔ یہ وزارت دفاع کے تحت ایک اصلاحی ادارہ ہے جس کا مقصد انسداد دہشتگردی کا معلومات کا ذخیرہ کرنا ہے۔ العیسی جو کہ اس “فکر” نامی اس ادارے کے سیکرٹری جنرل ہیں نے بیان کیا کہ یہ ادارہ اس امر پہ یقین رکھتا ہے کہ اسلام محبت اور درس دینے والا ہمہ گیر مذہب ہے ۔ اس ادارے کی طرف سے اسلام کی جو تشریح پیش کی جائے گی وہ انتہا پسندی ، نفرت اور تکفیر کے انسداد کے لئے ہوگی ۔ یہ ادارہ کی توجہ کا مرکز اسلامی قوانین کو استعمال میں لاکر انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کی جانب سے پھیلائی گئی افواہوں ، وہموں اور دھوکہ بازیوں کو روکنا ہے ۔ اس کا مقصد دانشمندانہ طور پر انتہا پسندی اور دہشگرد ی کا مقابلہ کرنا ہے ۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سعودی ملائیت اس طرح کے ہمہ گیر اور جدید تصور اسلام کو نافذ کرنے میں دلچسپی لے گی ۔ ریاست اور مسجد کے مابین تقسیم کا معاملہ حرمین شریفین کی ذمہ داریوں کو بانٹنے کے معاملے سے کہیں زیادہ مختلف ہے ۔ مزید آزاد سماج کی جانب سفر آہستہ اور مربوط ہوگا ۔ جو امر زیادہ اہم ہے وہ ولی عہد کا سعودی ریاست کی چوتھی نسل تشکیل دینا ہے ۔
اگرچہ کچھ وہابی علما ولی عہد کے ساتھ ہیں تاہم ایک بڑے درجے کی مزاحمت طے شدہ امر ہے۔ بہت سے علما اور قبیلوں کے سردار اگر ولی عہد کا ساتھ دے رہے ہیں تو وہ محض خوف کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں ۔ اس مرحلے کا بڑا امتحان تب ہوگا جب اس سال موسم گرما میں سعودی خواتین سڑکوں پہ گاڑیاں چلانا شروع کریں گی۔
اس اثنا میں عالمی دنیا کو اس تبدیل ہوتے معاشرے اور اس کی تقسیم کے ساتھ اس سے رابطے میں مشکل پیش آئے گی ۔ تاہم یہ اہم ہے کہ خارجی لوگوں کو اس تبدیل ہوئے ہوئے سعودی معاشرے میں اپنے بھاری مفادات کی پہچان ہونی چاہیئے۔ اس طرز کے جدید وہابی اسلام کی تشہیر ولی عہد کے حالیہ دورہ امریکہ کا خاص موضوع ہوگا ۔ یہ دورہ دیگر ولی عہدین کے دورہ امریکہ سے اس لئے مختلف ہے کہ اس میں کاروبار اور اختراع کے علاوہ برداشت اور جدیدیت پر بھی گفتگو ہوگی ۔
پالیسی کے اثرات
جدید سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا پھیلا ، خاص طور پر حرمین شریفین کی ذمہ داریوں کے ڈھانچے کی تقسیم ، سیاسی طور پر سرگرم شیعوں کے لئے خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے نئے چیلنجز پیدا کرے گی ۔ جب بھی ایران کا معاملہ آتا ہے تو سعودی قیادت اس پر واضح نظر آتی ہے ۔ سعودی جغرافیہ خطرات سے بھرا ہوا ہے اور ریاض اس خطے میں تہران کو قومی سلامتی اور علاقائی سا لمیت کے لئے سخت خطرہ تصور کرتا ہے ۔ یہاں پر ایران سے نمٹنے میں سعودی ریاست کی مسجد اور ریاست کے مابین تقسیم کام آئے گی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو لگتا ہے کہ سعودی عرب میں مذہبی مصالحت کا تصور ایران میں ملائیت پر مبنی سیاسی نظام کو خطرات لاحق کرے گا۔
1979میں ایرانی بادشاہت کے خلاف کامیاب انقلاب نے سعودی بادشاہت کے لئے سخت خطرات کو جنم دیا ۔ اب یہاں ملائیت کا کمزور پڑتا ہوا نظام ایران میں بھی ایسے اقدامات کو تقویت دے گا جو کہ ملائیت پر مبنی سیاسی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ اس صورت میں سعودی ریاست کی سیکولرائزیشن نہ صرف سنی انتہا پسندی کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ اس کے ذریعے شیعہ بنیاد پرستی کو بھی ختم کیا جائے گا ۔ ایران میں کمزور شکل کی ملائیت کے پاس خطے میں موجود حلیفوں کے ساتھ شیعہ کارڈ کھیلنے کا موقع محدود ہوجائے گا ۔ اس طرح سعودی عرب خطے میں ایران کی طاقت کی تشہیر روکنے میں کامیاب ہوسکے گا ۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے لئے بدلتا ہوا یہ سعودی عرب نہ صرف جہادیوں کے خلاف جنگ میں معاون ہوسکے گا بلکہ اس کے ذریعے شیعہ بنیاد پرستی کو بھی روکا جائے گا ۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ولی عہد کی ان کوششوں کا ہر ممکن ساتھ دینا چاہیئے اور اس کے لئے اپنے گھر میں اسلاموفوبیا جیسے بیانئے کو روکنا ہوگا ۔ سعودی ولی عہد کی ان کوششوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کو ایک انٹی اسلاموفوبیا تحریک چلانے کی ضرورت ہے تاکہ جدید مسلم طاقتوں کو اندازہ ہو کہ امریکہ ان کی کوششوں میں ان کا ساتھی ہے ۔ یہ سعودی عرب میں سیکولر ریاست کے ارتقا کے لئے بھی لازم ہے جو نہ صرف امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے ضروری ہے بلکہ اس سے مشرق وسطی کے خطے کا پائیدار امن جڑا ہوا ہے ۔
(ڈاکٹر تھیوڈور گلف اسٹیٹ کے سینئر مشیر اور لنکسنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں۔)
فیس بک پر تبصرے