گزشتہ ماہ چین کی پیپلز کانگرس نے موجودہ چینی صدر شی جنگ پنگ کو اس شرط سے مستثنی قرار دے دیا جس میں وہ دس سال تک عہدہ صدارت پر کام کرنے کے پابند تھے ۔ وہ اب چاہیں تو تاحیات پیپلز ریپبلک کے صدر رہ سکتے ہیں ۔ چینی کانگرس کا یہ فیصلہ مغربی سیاسی تجزیہ کاروں کی ان پشینگوئیوں پر بجلی کی مانند تھا جو یہ توقع کررہے تھے کہ عالمی معاشی اداروں میں چین کی شمولیت آئندہ برسوں میں سیاسی آزادیوں اور جمہوری روایات کی جانب گامزن ہوگی ۔ اب جبکہ ایسے امکانات تاریک ہوئے ہیں تو مغرب اپنے سیاسی مفادات کو چین جیسی معاشی طاقت کے سامنے کس طرح پورا کرسکتا ہے اور اس مشکل مرحلے میں اسے کس نوعیت کے سمجھوتے کرنے ہوں گے ۔ ان سب کا احوال دی اکانومسٹ پر درج اس مضمون میں تھا ۔ (ازطرف مدیر)
انہیں یقین تھا کہ چین جمہوریت اور بازاری معیشت کی طرف جائے گا۔ ان کی بازی خطا گئی۔
گزشتہ دنوں چین شخصی حکومت سے آمریت کی طرف پلٹ گیا ۔ یہ تب ہوا جب دنیا کے طاقتور ترین شخص چینی صدر شی ینگ پنگ نے طے کر لیا کہ وہ چین کے آئین میں ایسی تبدیلی لائیں گے کہ وہ خود جب تک چاہیں گے چین کا حکمران رہیں گے ۔ امکان ہے کہ وہ تاحیات چین کے صدر رہیں گے۔ اس سے پہلے چیئرمین ماو زے تنگ کے علاوہ کسی چینی رہنما نے کھلم کھلا اتنی طاقت نہیں رکھی ۔ یہ صرف چین کے لئے ہی بڑی تبدیلی نہیں بلکہ اس امر کا بھی اعلان ہے کہ سال پہلے مغرب نے چین کے متعلق جو اندازے قائم کئے تھے وہ سب غلط ثابت ہوئے ہیں ۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد مغرب نے دنیا کے دوسرے بڑے کیمونسٹ ملک چین کو عالمی معاشی نظام میں خوش آمدید کہا تھا ۔ مغربی رہنماوں کو لگتا تھا کہ چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے عالمی معاشی اداروں میں حصہ داری دینے سے وہاں آئینی طریق معیشت رائج ہو جائے گا جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے اپنا یا تھا ۔ انہیں توقع تھی کہ عالمی معاشی نظام میں ضم ہوکر چین مارکیٹ اکانومی کی طرف چلا جائے گا اور جیسے جیسے یہاں کے لوگ مالدار ہوں گے وہ جمہوری حقوق ، آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کا تقاضا کرنے لگیں گے۔
یہ ایک عظیم خیال تھا جسے اس اخبار نے بھی شائع کیا ۔ یہ چین کو باہر نکال رکھنے سے کہیں بہتر تھا ۔ چین نے توقعات سے بھی زیادہ امارت حاصل کرلی ہے ۔ ہوجن تاو کی صدارت کے عہد کو تصور کریں تو لگتا تھا کہ چین سے متعلق مغربی تصورحقیقت میں بدل رہا تھا ۔ پانچ سا ل پہلے جب شی ینگ پنگ نے صدرات سنبھالی تو چین کے متعلق یہ وہمہ گردش میں تھا کہ وہ آئینی حکومت کی طرف پلٹ جائے گا ۔ آج یہ سراب ٹوٹ چکا ہے ۔ حقیقت میں ، جناب شی ینگ پنگ نے سیاست اور معیشت کو جبر ، استبداد ، ریاستی کنٹرول اور محاذ آرائی میں بدل کے رکھ دیا ہے ۔
شی جنگ تمام مبارکوں کے مستحق
سیاست سے آغاز کریں تو مسٹر شی نے اپنی طاقت کو کیمونسٹ پارٹی کے مضبوط کرنے پر صرف کیا ہے اور اس دوران انہوں نے پارٹی میں اپنی حیثیت کو مضبوط بنایا ہے ۔ بدعنوانی کے خلاف مہم کے دوران انہوں نے اپنے ممکنہ حریفوں کو ٹھکانے لگایا ہے ۔ انہوں نے پیپلز لبریشن آرمی میں کیمونسٹ پارٹی سے پرعزم وفاداری نبھانے کے لئے اور خاص طور پر ان کی ذات سے وفادار رہنے کے لئے تنظیم نو کی ہے ۔ انہوں نے آزاد خیال قانون دانوں کو جیل میں ڈلواتے ہوئے آ ن لائن میڈیا اور صحافت میں ریاست ، حکومت اور پارٹی پر تنقید کرنے کو ختم کروا دیا ہے ۔ اگرچہ عام لوگوں کی زندگیاں نسبتا آزاد ہیں تاہم انہوں نے ریاست کو نگرانی کرنے والا ایسا ادارہ بنا دیا ہے کوجو ہر لمحہ اختلاف اور انحراف کرنے والوں کی تاک میں رہتا ہے ۔
چین کا ایک زمانے تک یہ دعوی ہوا کرتا تھا کہ اسے کوئی غرض نہیں کہ دیگر ممالک کا انتظام کس طرح چل رہا ہے سو تب تک چین اکیلا رہا۔ مگر اب ایسا نہیں رہا کیونکہ چین میں موجود جبری حکومت کا نظام اب آزادانہ جمہوریت کے بالمقابل تصور ہوتا ہے ۔ گزشتہ خزاں میں پارٹی کی انیسویں کانگرس کے موقع پر صدر شی نے دنیا کو ایک نئے نظام کی دعوت دی ۔ یہ نظام انسان کے مسائل کے حل کے لئے متبادل تھا اور اس کی اپروچ اور دانشمندی چین کے تصورات پہ کھڑی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یقین رکھئے ، چین اپنے ریاستی ماڈل کو کو برآمد نہیں کرے گا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ اور ہم محض معاشی مقابل نہیں بلکہ ہمارا تنازع نظریاتی ہے۔
مارکیٹس پر اثر انداز ہونے کا داو زیاد ہ کامیاب رہا ہے۔ چین کو عالمی معیشت میں ضم کیا جا چکا ہے ۔یہ فیصد سے زائد شرح کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ۔ یہ کاروباری سطح پر کامیاب اور وسائل سے مالامال ہے ۔ دنیا کامیاب ترین کاروبار کمپنیوں میں سے کاتعلق چین سے ہے ۔ اس نے شفافیت کا اعلی معیار نہ صرف اپنے لئے طے کررکھا ہے بلکہ یہ ان کے لئے بھی لازم ہے جو ان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ۔
اس کے باوجود چین بازاری معیشت نہیں ہے ۔ نہ حال کی گھڑی میں اور نہ ہی آئندہ ایسے ہونے کا امکان ہے ۔ بلکہ یہ تو کاروبار کو ریاستی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔ یہ بہت سی صنعتوں کو اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر اس کا میڈان چائنا پلان یہ ہے کہ وہ ہوا بازی ، ٹیکناوجی اور توانائی میں اپنی تیار شدہ مصنوعات پر سبسڈیز اور پروٹیکشن لاگو کرے گا ۔ یہ شعبے چین کی تیار شدہ کل مصنوعات کا فیصد ہیں ۔
اگرچہ چین کی معاشی جاسوسی کاروائیوں کا شہرہ نہیں ہوتا مگر مغربی کمپنیاں یہ چینی حکام سے یہ شکایات کرتی ہیں کہ ان کے انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس پر حکومتی سرپرستی میں حملے کئے جاتے ہیں ۔ اگرچہ چین میں غیر ملکی کاروبار فائدہ مند ہے تاہم یہ قابل رحم حالت میں ہے کیونکہ تجارت ہمیشہ چینی شرائط پہ ممکن ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر امریکی کریڈٹ کارڈز کمپنیوں کو اس وقت داخلے کی اجازت ملی جب ادائیگیوں کو موبائل فونز پر منتقل کردیا گیا ۔
چین نے کچھ مغربی قوانین کو قبول کیا ہے تاہم ا س نے ان کے متوازی اپنے قوانین بھی وضع کئے ہیں ۔ مثال کے طور پر چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبہ ملاحظہ کیجئے ۔ جس کے تحت غیر ملکی منڈیوں میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ یہ ایک طرح کا مارشل پلان ہے ۔ یہ ایک طرح سے بگاڑ کا شکار مغربی چین کی ترقی کا منصوبہ ہے تاہم یہ ایک طرح کا چینی سرمایہ کاری سے وجود میں آنے والا چینی اثرورسوخ کا نظام ہے جس میں کوئی بھی ملک اپنی منشا سے شامل ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے میں شامل ممالک سے چین کی توقعات یہ ہیں کہ وہ تنازعات کے حل میں چینی منصوبے کو قبول کریں گے ۔ اگر آج کی مغربی اقدار چین کی امنگوں سے متصادم ہیں تو یہ انتظام اس کے لئے متبادل ثابت ہوسکے گا۔
اور یہ بھی کہ چین کاروبار کے ذریعے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔ یہ کاروباری کمپنیوں کو براہ راست سزا دیتا ہے ۔ مثا ل کے طور پر اس نے حال ہی میں مرسڈیز بینز جو کہ ایک جرمن کار ساز ادارہ ہے کو معذرت کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس نے بغیر سوچے دلائی لامہ کو آن لائن حوالہ دیا تھا ۔ یہ انہیں ان کی حکومتوں کے رویئے پر بھی سزا دیتا ہے ۔ جب فلپائن نے بحیرہ جنوبی چین میں سکاربورو شوآل (جنوبی بحیرہ چین میں کم گہرے پانی کا ایک مختصر علاقہ) پر چینی دعوی مسترد کیا تو چین نے فلپائن سے حفظان صحت کا بہانہ بنا کر کیلے خریدنے سے انکار کر دیا ۔ جو ں جوں چین کا معاشی اثرورسوخ بڑھ رہا ہے توں توں اس کا سیاسی اثرورسوخ بھی وسیع ہورہا ہے۔
کاروبار میں طاقت کا یہ ہتھیار فوجی اثرورسوخ کی قدر زائد ہے ۔ یہاں چین نے علاقائی سپر پاور ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کو مشرقی ایشیا سے کوچ پر مجبور کیا ہے ۔ سکاربورو کے معاملے پر چین نے اس علاقے میں چٹانوں اور رقبے پر قابض ہوکر یہاں چھوٹے جزیرے بنا لئے ہیں ۔ جس رفتار سے چین کی فوج جدید ہورہی ہے اور اس میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے اس سے امریکہ کا یہ دعوی کہ وہ اس خطے میں اثرورسوخ کا اکیلا مالک ہے کمزور پڑتا جارہا ہے ۔ اگرچہ جنگ کی صورت میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی امریکی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی تاہم طاقت کا اندازہ صرف فوجی تصادم سے نہیں بلکہ تنازعات کو اپنے مفادات کے حصول پر ختم کرنے سے بھی تو ہو سکتا ہے ۔ اگرچہ چین کا چیلنج کھلم کھلا ہے تاہم امریکہ اسے روکنے میں یا تو ناکام رہا ہے یا اسے روکنا مناسب نہیں سمجھتا ۔
ایک گہرا سانس لے لیجئے
کیا کرنا چاہیئے ؟ عین اس لمحے جب مغرب کو اپنی جمہوریتوں میں اعتماد کی کمی کی بنا پر مشکلات کا سامنا ہے چین پر اس کے دعوے ناکام ہوئے ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے چینی خطر ے بروقت بھانپ تو لیا مگر انہیں یہ بنیادی طور پر صرف دوطرفہ تجارت میں خسارے کی صورت میں نظر آتا ہے جو شائد حقیقت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تجارتی جنگ تو ان اقدار کو ہی کمزور کرے گی جن کی انہیں حفاظت کرنی چاہیئے اور ان امریکی اتحادیوں کو نقصان پہنچائے گی جنہیں چین کی دھمکیوں کے سامنے متحد ہونا چاہیئے۔ اور جس قدر چاہے مسٹر ٹرمپ احتجاج کریں ، ان کا یہ نعرہ کہ و ہ امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں گے ان کی حکومت کو بتدریج کمزور کرتے ہوئے شخصی آمریت کی طرف لے کر جارہا ہے ۔ اس سے بھی چین کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔
بخلاف اس کے صدر ٹرمپ کو چاہیئے کہ وہ چین کی وسیع حکمت عملی کا بغورِ نظر جائزہ لیں ۔ چین اور مغرب کو اپنے اپنے اختلافات کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ چین کے برے سلوک کو اس امید سے برداشت کرنا کہ مستقبل میں چین بہتر رویئے کا مظاہرہ کرے گا کسی طور بھی درست رویہ نہیں ہے۔ جب تک مغرب چین کے بڑھتی ہوئی بدسلوکیو ں کو نظر انداز کرتا جائے گا وہ مستقبل میں مزید کڑے چیلنجز کے ساتھ سامنے آئے گا ۔ اس لئے ہر شعبے میں تدارک کی حکمت عملی کو سخت ہونا چاہیئے اگرچہ یہ مغرب کی ان اقدار میں شگاف ہی کیوں نہ ہو جسے وہ عالمگیر سمجھتا ہے ۔
چین کی اس شارپ پاور کا مقابلہ کرنے کے لئے مغربی معاشروں کو چاہیئے کہ وہ آزادانہ تنظیموں حتی کہ اسٹوڈنٹس گروپس اور چینی ریاست کے مابین تعلقات کا قریبی جائزہ لیں۔چین کی جانب سے معاشی طاقت کو نقصان پہنچانے کی غرض سے استعمال کرنے کی روایت کا مقابلہ کرنے کے لئے مغرب کو چاہیئے کہ وہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی کڑی جانچ کریں اور حساس ٹیکنالوجی والی چینی ملکیت کمپنیوں پر خاص نگاہ رکھیں ۔مغرب کو چاہیئے کہ وہ ان اداروں کو مزید مضبوط بنائے جو اس نظام کے تحفظ پر کام کررہے ہیں جسے وہ محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔ مہینوں تک امریکہ نے ڈبلیو ٹی او میں اہلکاروں کی تعیناتی کو معطل رکھا ۔ مسٹر ٹرمپ کو چاہیئے کہ وہ امریکی اتحادیوں کے سامنے اپنے عزم کا اعادہ کریں اور ٹرانس پیسفیک پارٹنر شپ کے ممبرز کا ازسر نو جائزہ لیں جیسا کہ وہ اس کا اشارہ دے چکے ہیں ۔ چین کی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کو چاہیئے کہ وہ نئے ہتھیاروں کی تیاری میں سرمایہ کاری کو فروغ دے اور اپنے اتحادیوں کے شانہ بشانہ رہے جو چین کی جانب سے جارحیت کی صورت میں مدد کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔
ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کے ساتھ دشمنی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جنگ کی جائے ۔ تاہم مسٹر شی کی جانب سے طاقت کے حصول کی پیاس نے عالمی امن اور ٹھہراو کو متلاطم کیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ ایک دن اپنی عظمت میں اضافے کے لئے تائیوان پہ قابض ہونا چاہیں اور یادرکھئے کہ چین پہلے اپنے رہنماوں کی شرائط کو پورا کرتا ہے تاکہ اسے دوبارہ افراتفری اور ماو زے تنگ کی طرز کی شخصی آمریت کا سامنا نہ ہو ۔ ایک طاقتور مگر منتشر آمریت زدہ چین ، مغرب کی خواہش نہیں تھی ۔ مگر یہ یہیں آن پہنچا ہے ۔
فیس بک پر تبصرے