مہمان: احسان غنی
نیشنل کوآرڈینیٹر نیکٹا
انٹرویوئرز: محمد عامر رانا، محمد اسماعیل خاننیکٹا پاکستان میں قائم ہونے والا انسداد دہشتگردی کا مرکزی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنائے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اداروں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دے ۔ انسداد دہشتگردی کے موضوعات پر لکھنے والے ماہرین کے مطابق نیکٹا کو اپنے مقاصد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ مشکلات کس نوعیت کی ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے ۔ تجزیات کی ٹیم ان سوالات کے ساتھ نیشنل کوآرڈی نیٹر نیکٹا احسان غنی سے انٹرویو کرنے گئی تھی ۔ اس انٹرویو کے مندرجات کو تحریر کی شکل میں تجزیات کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔(ازطرف مدیر)
محمد عامر رانا پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیش اسٹڈیز کے ڈائر یکٹر ہیں ۔ وہ بہت سی کتابوں اور مقالوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی حالیہ کتاب دی ملیٹینٹ : دی ڈویلپمنٹ آف اے جہادی کریکٹر ان پاکستان کو میں جرمن پیس پرائز دیا گیا ہے ۔
محمد اسماعیل خان پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز میں سینئر پراجیکٹ منیجر ہیں ۔ وہ یہاں امن اور تنازعات کا جائزہ لیتے ہوئے انگریزی مقالوں کی ادارت کرتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے موقر اخبارات میں مضامین بھی لکھتے ہیں ۔
یہ انٹر ویو دسمبر میں کیا گیا
نیشنل کوآرڈی نیٹر نیکٹا بیان کرتے ہیں
۔ نیشنل ایکشن پلان کو نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اس میں قانون سازوں ، ماہرین ، منتظیمین نیکٹا اور اس کے ناقدین کو شامل کرنا چاہیئے۔
۔ جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کو سا ل دوہزار اٹھارہ میں فعال ہوگا ۔
۔ قومی پالیسی برائے انسداد انتہا پسندی منظوری کے مراحل میں ہے ۔ اس پالیسی میں محدود مدت کے لئے ، درمیانی مدت کے لئے اور طویل مدت کے لئے انتہاپسندی کے خاتمے کی تجاویز پہ غور کیا جارہا ہے ۔
۔ سالہا سال تک مختلف اداروں کو نیشنل ایکشن پلان کی معائنہ کاری سونپی گئی ہے۔ نیکٹا کی حدود میں اس پر نظر ثانی کرنا اور اس کا جائزہ لینا شامل ہے ۔
۔ پاکستان میں غیر ملکی جنگجووں کی واپسی کا خطرہ موجود رہا ہے ۔
۔ قومی سلامتی کی داخلہ پالیسی جسے پہلی بار میں ترتیب دیا گیا تھا ، اس پر ابھی نظر ثانی ہورہی ہے ۔
پپس : نیشنل ایکشن پلان کا ذمہ دار کون ہے ؟ نیکٹا ، این ایس اے ، ایپکس کمیٹی یا وزیر داخلہ ؟ کیا ان تمام کے کردار اور ذمہ داریاں واضح ہیں ؟
کیا اس کے نتائج آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں یا ایک دوسرے پہ ذمہ داریاں ڈالی جارہی ہیں؟
نیشنل کوآرڈی نیٹر :سب سے پہلے میں اس کا ایک مختصر سا بیک گراونڈ بتانا چاہوں گا ۔ نیشنل ایکشن پلان میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس میں دہشت گردی اور اس کی مختلف جہتوں سے نمٹنے کے لئے بیس نکات بیان کئے گئے ہیں ۔ ان بیس نکات کے نتیجے میں سولہ کمیٹیاں بنائی گئیں جن میں مختلف عہدوں کے اعلی درجے کے اہلکار شامل تھے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کمیٹیوں کی ملاقات ایک ہی بار ہوئی ہے جب نیشنل ایکشن پلان اعلان ہوا تھا ۔ ان میں سے بارہ کمیٹیوں کے سربراہ وزیر داخلہ ہیں ۔ اس کے بعد قومی سلامتی کے مشیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر نظر رکھیں ۔ صوبائی ایپکس کمیٹیاں بھی موجود ہیں ۔ ایک طرح کے یکسو نظام کی ضرورت ہے جہاں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد ممکن بنایا جائے ۔ ہم نے یعنی نیکٹا نے وزیر داخلہ کو لکھا تھا کہ ہمیں ملاقات کی تاریخ دیجئے ۔
تب ہم نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ ہم نے لوگوں کے تین گروپس بنانے کی تجویز دی ۔ پہلا گروپ قانون سازوں اور ماہرین پر مشتمل ہو جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے خدوخال طے کرے ۔ دوسرا گروپ اس کے نفاذ کو ممکن بنائے جیسا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے اہلکار ۔ اور تیسرا گروپ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو کسی بھی طرح اس پر تنقید کرتے ہیں ۔ ان تما م کے مابین نیکٹا کا کردار رابطہ کار کا ہوگا ۔ پھر صوبوں میں مختلف ایپکس کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ۔ جو کہ اس کے نفاذ کی ذمہ دار ہیں ۔
نیکٹا کو اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ وہ انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان وضع کرے ، پھر اس کی نگرانی کرے کہ اس پلان پر عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں اور وزارت داخلہ کو رپورٹ دے ۔ سابق وزیر داخلہ نے اسمبلی کیپلیٹ فارم سے کہا کہ وہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ (ان کے بقول یہ وزیر اعظم کی ہدایت سے کہا گہا ہے)
اسی اثنا میں نیکٹا نے اپنے آپ میٹنگز کی ہیں ۔ ان میں اکثر نیشنل ایکشن پلان پہ فوکس تھیں اور ان میں دہشتگردی کی مالی معاونت کا جائزہ بھی لیا گیا ۔
جہاں تک قومی سلامتی کے مشیر کی بات ہے تو نیشنل ایکشن پلان پر نفاذ ممکن بنانے والی ٹاسک فورس کے کنوینر ہیں ۔ان کی تعیناتی سے لے کر تک تو ہم نے زیادہ کام نہیں کیا ۔ تاہم اگست سے ہم لوگ کام کررہے ہیں ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ شروع میں بہت سے ادارے نیشنل ایکشن پلان کے لئے ایک ساتھ تھے ۔ ابتدا میں سولہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔ایپکس کمیٹیوں کو صوبوں میں بنایا گیا ۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اس میں موجود تھے ۔ وزارت داخلہ ہے ۔ جہاں تک ہماری حدود کا سوال ہے تو ہم نیشنل ایکشن پلان کا مشاہدہ اور نظر ثانی کر سکتے ہیں ۔
اور اس کے علاوہ یہ کہ قومی سلامتی کی داخلہ پالیسی جسے میں بنایا گیا تھا اس پر اب نظر ثانی کی جارہی ہے ۔
پپس:جے آئی ڈی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
نیشنل کوآرڈی نیٹر :جی وہ ابھی تک تکیمل کے مراحل میں ہے ۔ اس کا بنیادی گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں کا تعین کردیا گیا ہے ۔ اس کے لئے عمارت بھی زیر تعمیر ہے ۔ دیگر عملے کو اگلے مہینے سے بھرتی کیا جائے گا ۔ ممکنہ طور پر یہ جون میں کا م شروع کردے گا ۔
یہ اپنے منصوبہ جات پر اسی سال میں کچھ مہینوں میں ہی کام شروع کردے گا ۔
پپس:آپ نے پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کو غیر ملکی جنگجووں کی واپسی کا خطرہ ہے ۔ وہ کس قدر خطرہ کس حد ہے ؟
نیشنل کوآرڈی نیٹر :جی ، وہ خطرہ مسلسل تبدیل ہورہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں انتہا پسند لڑاکوں کی تعداد زیادہ تھی اور یہاں سے لوگ باہر جا رہے تھے ۔ تاہم ، وقت کے ساتھ ساتھ مختلف کوششوں کے سبب یہ خطرہ بدلتا گیا ۔ اب صوبوں کی معاونت سے ، ہم ان تمام گھروں کو دیکھ رہے ہیں جن کے عزیز بیرون ملک ہیں اور وہ دہشتگرد ی میں ملوث ہیں ۔ ہم یہ کام سی ٹی ڈی اور سپیشل برانچ کے ساتھ مل کر سرانجام دے رہے ہیں ۔
پپس:قومی سطح کی انسداد انتہا پسند پالیسی کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ۔ اس کے اہم نکات کیا ہیں اور اس پر اعلان کب تک متوقع ہے ؟
نیشنل کوآرڈی نیٹر:یہ بھی جلد ہوجائے گا ۔ یہ ابھی وزارت کے پاس ہے۔ منسٹر صاحب کی منظوری کے بعد وہ اسے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کریں گے ۔ جہاں تک اس کے نکات کی بات ہے تو وہ تین ہیں ۔ پہلا مختصر مدت کا ، جس میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے گا ۔ ان میں وہ سرگرمیاں شامل ہیں جن کے لئے قانون سازی یا فنڈرز کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور پھر طویل مدت منصوبے ہیں جن کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ ہم نے اس موضوع پر آزاد جموں کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کو بھی بریفنگ دی ہے ۔
پپس:نیکٹا کو درپیش تین بڑی مشکلات کیا ہیں ؟
نیشنل کو آرڈی نیٹر :سب سے پہلی تو نیکٹا کی ذمہ داری کا معاملہ ہے کہ یہ کس کے ذمہ ہے ۔ اسے ایک آزاد ادارہ ہونا چاہیئے ۔ جیسا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ہے ۔ یہ ہونے جارہا ہے مگر ابھی تک بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ ہونا ابھی تک بھی باقی ہے ۔ دوسرا نکتہ نیکٹا کی اہلیت کا ہے ۔ تیسرا نکتہ اس کے فوکس کا ہے ۔ اسے صرف نیشنل ایکشن پلان پر فوکس ہونا چاہیئے۔
فیس بک پر تبصرے