احسان اللہ احسان کی معافی کا معاملہ ،ریاست کہاں پر کھڑی ہے ؟

1,200

پاکستانی ریاست کے ادارے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں پرتقسیم نظرآتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی ریاست نے یکسوہوکرکوئی واضح حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا

طالبان وجماعت الااحرارکے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے خود کوپاکستانی فوج کے حوالے کرنے اورعام معافی کے خلاف ابھرنے والے ردعمل سے بہت متضاد قسم کی صورتحال نے جنم لیاہے۔بی بی سی کے مطابق لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان پاکستان میں دہشت گردی کے بدترین دورمیں طالبان اورجماعت الااحرارمیں کوئی دس سال تک مرکزی ترجمان رہے۔ اس نے ایک ترجمان کی حیثیت سے پاکستان میں بدترین حملوں جیسے ملالہ یوسفزئی اورآرمی پبلک اسکول پرحملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کااعلان بھی کیاتھا۔ ماضی کےترجمان احسان اللہ احسان (لیاقت علی) کاتعلق فاٹاکی ایجنسی مہمند سے ہے۔ وہ کالج میں کاطالبعلم تھاکہ اس دوران جہادی کاروائیوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے مطابق اس نے 2008میں مہمندایجنسی میں فوجی آپریشن کے بعد طالبان تحریک میں شمولیت اختیارکی تھی۔

احسان اللہ احسان کے حوالے سے جوسلوک سامنے آیاہے اس سے ریاست کے ایک اہم ادارے کی پالیسی میں تبدیلی کی بوکومحسوس کرتے ہوئے اور شدیدترین فوجی آپریشنوں جیسے ردالفساد اوراس سے قبل ضرب عضب کی آڑمیں جوپالیسی آگے بڑھائی جارہی تھیں، اس سے انحراف اورمتصادم گرداناجارہاہے۔

محمد حنیف، احسان اللہ احسان کے ساتھ پاکستانی فوج اوراوراس کے زیراثرمیڈیا کے سلوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے  ہیں ‘‘کل تک احسان اللہ احسان پاکستان کے جانی دشمن طالبان کے ترجمان تھے۔ آج پاکستان کا پورا میڈیا احسان اللہ احسان کا ترجمان بن گیا ہے۔ ان کی حب الوطنی کا دیوانہ ہے۔ ان کی قاتلانہ مسکراہٹ کے پیچھے اپنے بچوں کا خون معاف کرنے کو تیار ہے۔’’ نیشنل ایکشن پلان اورپچھلے چند سالوں سےمیڈیاکے سیلف سنسرشپ سے جوماحول بنااسے ضد کے دورپردیکھتے ہوئے اب احسان اللہ احسان کے ساتھ روارکھے گئے سلوک پرسوال اٹھ رہے ہیں۔ سابق دہشت گرد کوایک سیلبرٹی کے طورپرپیش کرنے کے خلاف سب سےبڑا احتجاج توصحافی خود بھی کررہے ہیں جن کواحسان اللہ احسان نے دھمکیاں دی تھیں۔ محمد عمران نے لکھا ہے کہ ‘‘نیشنل ایکشن پلان کے تحت کسی دہشت گرد کو ہیرو بنا کر پیش کرنے پر پابندی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ احسان اللہ احسان کو ایسا دکھا رہے ہیں کہ جیسے اس نے جرم کے بعد معافی مانگ لی ہے۔’’

ردعمل

فوجی حمایت کے باوجود احسان اللہ احسان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں اوراس کے ساتھ روارکھے گئے سلوک کے خلاف پریس میں بحث چھڑگئی ہے۔ ایک طرف اس کے انٹرویوکونشرکرنے پرپیمرا کی طرف سے پابندی اورپھر عدالت سے اس کونشرکرنے کی اجازت سے پتہ چلتاہے کہ ریاست کے ستون اس پرکس قدرمنقسم اورکنفیوژن کے شکارہیں۔ یہی نہیں بلکہ جہاں فوج اسے موجودہ فوجی آپریشن ردالفساد کے حوالے سے ایک بہت بڑی کامیابی کے طورپیش کرتی ہے،وہاں آرمی پبلک اسکول پشاورمیں دہشت گردحملہ میں جاں بحق بچوں کے والدین کی تنظیم اے پی سی شہداء فورم کی طرف سے پشاورہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی گئی ہے جس میں احسان اللہ احسان کوحملہ کےایک مجرم کے طورپرپکڑنے اورسزادینے کی استدعاکی گئی ہے۔ ان کامؤقف ہے کہ احسان نے سابق ترجمان کی حیثیت سے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورداخلہ نے وزرات داخلہ اورصوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت سے کہاکہ ملالہ یوسفزئی پر2012ءکئے گئے قاتلانہ حملے کے مقدمے میں احسان کانام شامل کرتے ہوئے جلدازجلد کارروائی کی جائے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے رکن سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے کہا:

‘‘اس (احسان اللہ احسان) کو کیوں ہیرو بنایا جا رہا ہے، اُسے کیوں خصوصی توجہ دی جا رہی ہے وہ ایک دہشت گردہے  اور اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ روا رکھا جائے۔۔۔ اس کا جلد از جلد فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔۔۔ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے، کوئی معافی نہیں ہونی چاہئے۔’’

وائس آف امریکہ کی ایک خبرسے پتہ چلتاہے کہ فوج شدید ردعمل کے بعد دفاعی پوزیشن پراگئی کیونکہ احسان اللہ احسان کے اعترافی بیان  کے بعد فوج کو بھی تنقید کا سامنا رہا۔فوج نے اپنے عمل کی یوں وضاحت کرنے کی کوشش کی:

‘‘احسان اللہ احسان کا جو اعترافی بیان جاری کیا گیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو یہ پتہ چلے وہ کس طریقے سے ہمارے خلاف استعمال ہوتے رہے اور کیا قوتیں ہیں جو اُن کو استعمال کر رہی ہیں۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔ جو بھی ملک کا قانون ہے وہ اس پر لاگو ہو گا’’۔

بیرونی ایجنٹ اورامداد

دہشت گردتنظیموں کے سابق ترجمان کاکہناتھاکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے کے بعد جب یہ دیگرافراد کے ساتھ افغانستان گئے تووہاں اس پرمنکشف ہواکہ طالبان اورالااحرار بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس نے کہاکہ وہاں اسے بھارتی خفیہ ایجنسی را اورافغان این ڈی ایس کے مشترکہ مشن کاپتہ چلا۔ احسان کوپاکستانی ریاست سے برسرپیرکاراسلامی تنظیمیں دراصل فنڈزکی خاطر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نظرآئیں۔ لیکن اس سے قبل پیپلزپارٹی کی دورحکومت میں 2012میں میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے احسان اللہ احسان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو بیس کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔ رحمان ملک نے کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کا تعلق تحریک طالبان سے نہیں بلکہ وہ ملک میں بیرونی عناصر کے لیے کام کر رہے تھے۔ یہ بہت ہی متضاد قسم کی صورتحال کوسامنالاتاہے۔ ایک طرف احسان اللہ احسان کاکہناہے کہ اس پرحالیہ دورمیں طالبان کا بیرونی عناصرکے لئے کام کرنے کاانکشاف ہواجس پراس نے دیگرسے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اخیتارکرنے اورخود کوفوج کے حوالے کرناکافیصلہ کیاجبکہ خود اس کے بارے میں وزیرداخلہ نے کوئی 5سال قبل انکشاف کیاتھاکہ وہ بیرونی ایجنٹ ہیں اورتحریک طالبان میں گھس گیاہے۔

احسان نے کہاکہ ‘‘ایک ہدف دیاجاتاہے کہ ٹارگٹ حاصل کرناہے اس کی جتنی ضروریات ہیں وہ فراہم کرتے ہیں۔ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد مقررہ قیمت وصول کی جاتی ہے۔’’ اس سے طالبان اورجماعت الااحراربالکل بیرونی ایجنٹ کے طورپرسامنے آتےہیں۔ اس دلیل میں بہت کم وزن نظرآتاہے۔ اس سے تویہی نظرآتاہے کہ اسلامی شدت پسندوں کے اپنے کوئی مقاصد نہیں۔بس رقم کے لئے بیرونی ایجنٹ کے طورپرکام کرتے ہیں۔ یہ پوری تحریک کودھندلا دیتی ہے۔ یہ دشمن کےدشمن کے دوست ہونے کے نظریہ کے بجائے محض کرائے  کے ایک سپاہی کے تصورکوپیش کرتاہے۔

حکمت عملی میں تبدیلی؟

روزنامہ جنگ کے مطابق فوجی ترجمان نے احسان اللہ احسان کی فوج کے آگے سرنڈرہونے کو ‘‘آپریشن ردالفساد کی بڑی کامیابی سے تعبیرکیابلکہ یہ بھی ان کاکہناتھاکہ اگراس طرح کے لوگ جوماضی میں ریاست،فوج اورحکومت سے لڑرہے تھے وہ اگرسرنڈرکرتے ہیں ریاست کے سامنے تویہ آپریشن کی کامیابی تصورہوگی’’۔

اس بیان کوکیاہم فوج کاشدت پسندوں کی طرف رویہ کی تبدیلی سے تعبیرکرسکتے ہیں؟ کیا ا سے فوجی حکمت عملی میں تبدیلی کہاجاسکتاہے؟ پاکستانی ریاست پہلے ہی فاٹا میں اصلاحات کے ایک ایجنڈے پرکام کررہی ہے۔ جس کامقصدیہاں سیاسی وانتظامی معاملات کے ساتھ عدالتی نظام میں تبدیلیاں کرنی ہے۔ ان کامقصدیہی ہے کہ ان سماجی طبقات اورگروہوں کوپیچھے کیاجائے جواب سماج میں اپنااثرکھوچکے ہیں اوران کوآگے لایاجائے جن کا سماج وسیاسی اثرزیادہ ہے۔یوں پرانے ملکوں اورپولیٹکل ایجنٹ جو ایف سی آرکے تحت کام کررہے تھے ان پرتعمیرکردہ پرانا سماجی وانتظامی ڈھانچہ نہ صرف گل سڑچکاہے بلکہ طالبان کے ہاتھوں برباد ہوچکاہے۔ طالبان نے چن چن کرقبائلی مشران اورملکوں کوقتل اوردربدرکیا۔ یہ اب بڑے شہروں کی طرف فرارہوچکے ہیں۔ لٰہذاء اب ریاست اصلاحات کے ذریعے سے ان کامتبادل تلاش کررہی ہے۔ لیکن یہ اتناآسان بھی نہیں۔ فاٹا ایک بہت ہی نازک اورشورش زدہ علاقہ ہے۔ یہ سرحدی پٹی ہے۔ لہذاء پاکستانی ریاست کوبہت دیکھ بھال اوراحتیاط سے کام کرناہے۔ کیونکہ افغانستان اورانڈیا یہاں آسانی سے شدت پسندوں کاتعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ تھوڑی بداحیتاطی یہاں علیحدگی کی تحریک کوجلا بخش سکتی ہے جوفی الحال موجود نہیں ہے۔ کیونکہ پشتون مڈل کلاس افغانستان کوایک بربادملک سمجھ کراس کےساتھ الحاق کےبجائے اپنے مفادات کوپاکستان میں زیادہ محفوظ دیکھتی ہے۔

لیکن احسان اللہ احسان کہتاہے کہ ‘‘را کامنصوبہ ہے کہ پاکستان کوقومی بنیادوں پریعنی لسانی بنیادوں پرتقسیم کردیاجائے،ان کی ترجیحات مین پختون اورپنجابیوں کے درمیان جھگڑاکرواناتھا۔’’یہ دراصل حال ہی میں پنجاب میں افغان اورپشتونوں کے ساتھ کئے گئے ردعمل کوسامنے رکھ کرکہاجارہاہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اوربلوچ طلبہ پربہانے بہانے سے اسلامی جمعیت طلبہ نے حملے کئے۔ یوں پشتون مڈل کلاس خود کوپنجاب میں بے آسرا محسوس کرنے لگی۔ شائد اسی کے پس منظرمیں بھارتی خفیہ ایجنسی را نے یہ حکمت عملی وضع کی کہ اس تنازعہ کوہوادے کرپشتونوں اورپنجابیوں میں بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھایاجائے۔ اس کے علاوہ پشتونوں میں چینی سرمایہ کاری اورسی پیک کے منصوبہ پربھی اعتراض سامنے آئے ہیں۔ یہ مسائل میڈیامیں کم اورسوشل میڈیا میں زیادہ اچھالے گئے۔ اسی کے تناظرمیں اس بات میں وزن ہے کہ پشتونوں اورپنجابیوں کے درمیان خلیج کووسیع کیاجاسکتاہے۔

غیرملکی طاقتیں اوراسلامی دہشت گرد

جب سے خطے میں نئی سرمایہ کاری، نئے فوجی اتحاد باالفاظ دیگر‘‘نئی  گریٹ گیم’’ کا آغازہواہے،پاکستانی فوج کا اسلامی شدت پسندوں کے لئے بھی بیرونی ایجنٹوں کے کردارکے حوالے سے دعووں میں اضافہ ہوتانظرآرہاہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے نزدیک احسان اللہ احسان کاکارنامہ یہ ہے کہ اس نے دشمن کے ایجنڈے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مزموم عزائم کو بے نقاب کردیا ہے۔ احسان کی اہمیت کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ سرتاج عزیز اورامورخارجہ کے ترجمان دونوں نےکہاکہ وہ را اوراین ڈی ایس کے اسلامی شدت پسندوں کی مدد اورتعاون کے مسئلہ کوانڈیا اورافغانستان کے ساتھ اٹھائیں گے۔ مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کے انکشافات انتہائی اہم ہیں اور اعترافی بیان میں کئے گئے انکشافات کے معاملہ کو افغان حکومت کے ساتھ اٹھایا جانے بارے جائزہ لیا جارہا ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ بھارتی جاسوس کلھبوشن یادیو اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے انکشافات نے بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرديا ہے۔

یہ دہشت گردی  کے خلاف جنگ میں پاکستان پرامریکی دباو کوکم کرنے کاباعث بھی ہے۔ کیونکہ اب پاکستان اپنے ملک میں دیگرممالک کی جانب سے  اسلامی دہشت گردوں کی مدد کاواویلاکرسکتاہے۔ امریکہ، انڈیا اورافغانستان ایک عرصہ سے پاکستان پربیرونی ممالک میں اسلامی دہشت گردی کوپس پردہ سپورٹ کرنے کاالزام لگاتے آئے ہیں۔

پنجاب کودہشت گردی سے محفوظ بنانا

احسان اللہ احسان کے ساتھ فوج کی طرف سے معاملات طے کرنے میں یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ یہ محض کوئی اتفاق نہیں کہ احسان کاپاکستانی فوج سے معاملہ طے کرنے میں پنجابی طالبان کے سابق سربراہ عصمت اللہ معاویہ نے اہم کردار ادا کیا۔ اورلگتا ایساہی ہے کہ اس نے ہی ذمہ داری لی ہوگی۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جماعت الااحرارنے حال ہی میں اپنی کارروائیوں کامرکزپنجاب کوبنایاجس نے پاکستانی ریاست کے لئے بہت مسائل پیدا کئے۔ سیاسی وعسکری قیادت پنجاب کوہرحال میں شدت پسندی سے پاک دیکھناچاہتے ہے کیونکہ یہ پاکستان کادل ہے۔ اسی وجہ سے پاک فوج کے لئے احسان اللہ احسان اہم ہیں۔ پشتون مڈل کلاس پرپنجاب میں پیداہونے والے حالات کے بعد سے بڑھتے ہوئے حملوں سے احسان اللہ احسان کے اس بات میں وزن نظرآتاہے کہ را کی کوشش ہے کہ پشتون پنجابی تنازعہ پیدا کیاجائے۔ شائد انھیں اس حوالے سے زمین زرخیزنظرآتی ہو۔ لیکن اس کومزید دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ قوم پرستی کی اس لہرسے جماعت الااحرارجیسی اسلامی تنظیم نے کیسے فائدہ اٹھایا؟ یہ واضح نہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ خالد خراسانی اسلامی شدت پسندی کی طرف آنے سے قبل ایک پشتون شاعرکے طورپراپنی پہچان رکھتے تھے۔

نئی بات نہیں

احسان اللہ احسان پہلے طالبان کمانڈرنہیں جوپاکستانی ریاست کے سامنے سرنڈرہوئے۔ یہ عمل 2004سے جاری ہے جب طالبان کے پہلے کمانڈرنیک محمد اور فوجی کمانڈرکے ساتھ قبائلیوں کے ایک معاہدہ طے پانے کے بعد امن بحال ہونے کی نویدسنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے طالبان اورپاکستانی ریاست کے درمیان معاہدوں کی لمبی فہرست ہے۔ معاہدے اورفوجی آپریشن مسلسل دیکھنے کونظرآتے ہیں۔ موجودہ فوجی آپریشنوں کی لہرسے قبل نوازحکومت اورطالبان دونوں نے باقاعدہ کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ۔

دراصل پاکستانی ریاست ایک طویل عرصہ تک فاٹامیں فوج نہیں رکھ سکتی۔ اس کوسماج کے کچھ حصوں کے ساتھ طالبان کے منحرف حصوں کوملاکرزیادہ ریڈیکل عناصرکی راہ روکنے کی حکمت عملی پرکام کرناہے۔ فوج ہمیشہ انتظامی معاملات نہیں چلاسکتی۔  اسے سویلین اداروں اوروہاں کے لوگوں کے درمیان ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے معاملات کو آگے لے کر جانا ہے ۔ البتہ فوجی چھاونیاں اس بات کی ضمانت ہوں گی کہ ایمرجنسی میں یہ متحرک ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی ریاست وہاں سماجی تبدیلی پیداکرنے کے لئے کوشاں ہے تاکہ ایسے طبقات سامنے آئیں جوسماج کی نماِئندگی کرنے کی اہلیت اوران پرکنڑول کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔

پاکستانی ریاست کے برعکس امریکہ اوراس کے اتحادی پاکستانی فوج کواپنے ہی عوام کے ساتھ مسلسل برسرپیکاررکھنے کے خواہش مندہیں۔ اس لئے پاکستانی فوج کی یہ خواہش ہوگی کہ یہ جلدازجلد یہاں سے نکلے۔ اس لئے یہ چاہتے ہیں کہ طالبان کوکمزورکرکے، اوران میں تقسیم پیدا کرکے معاملات آگے بڑھایاجائے۔ جبکہ انڈیا اورافغانستان کی کوشش ہے کہ اسلامی شدت پسندوں میں اگرتنظیمی لحاظ سے یکجائی ممکن نہ ہوتوکم ازکم کارروائی (آپریشنل) میں ہم آہنگی توضرورپیدا کی جائے۔ اسی وجہ سے بعض حملوں کی ذمہ داری ہمیں طالبان اورالاحراردونوں بیک وقت قبول کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ وہ آپریشنل اتحاد ہے جو اسلامی تنظیموں میں پیدا ہوگیاہے۔

قومی دھارے میں شمولیت کی راہ میں درپیش مسائل اوررکاوٹیں

پاکستان کے شدید ترین فوجی آپریشن نے ضرورطالبان مزاحمت کو متاثر کیا ہو گا۔ جہاں ان میں تقسیم پیدا ہوئی وہاں منگل باغ، حافظ گل بہادر، ملافضل اللہ (طالبان) اورجماعت الااحرارمیں مشترکہ لائحہ عمل پراتحادبھی پیدا ہواہے۔ البتہ طالبان امورپرماہرصحافی و معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف کاکہناہے کہ‘‘اب تحریک طالبان پاکستان کے کارکن تنگ آچکے ہیں اور وہ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان نے گرفتاری کے بعد پاک فوج کو بہت سی اہم معلومات فراہم کی ہیں جس کے ذریعے اب پاک فوج کو اہم کامیابیاں ملیں گی اور مستقبل میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف بڑی کارروائیاں کرے گی ۔میری معلومات کے مطابق اب تحریک طالبان پاکستان کے کارکن تنگ آ چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انہیں معافی مل جائے تاکہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو سکیں’’ ۔رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے بڑے رہنماہتھیار نہیں ڈالیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں معافی نہیں ملے گی لیکن عام کارکن چاہتے ہیں کہ انہیں معاف کیا جائے ۔سینئر صحافی نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ایسے کارکن جو معافی چاہتے ہیں انہیں ایک بار معاف کیا جانا چاہیے اور اگر کسی کو سزا دینا ضروری ہو تو اسے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزا بھی ملتی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان تحریک طالبان پاکستان کی مجلس شوریٰ کا اہم رکن تھا ،اس لیے اس کے پاس انتہائی اہم معلومات ہوں گی ،پاک فوج کو بھی یہ معلومات مل گئی ہو ں گی جس کے بعد اب پاک فوج بڑی کارروائی کر سکتی ہے ۔’’

یوں یہ ایک بہت ہی متضاد صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔ ایک طرف احسان اللہ احسان کہتاہے کہ طالبان کوبیرونی امداد وتعاون حاصل ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ وسائل اوررابطوں کے ذرائع پہلے سے وسیع ہوگئے ہوں گے۔ اوراب یہ شہروں میں زیادہ کارگراورموثربن کرسامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ نئے اتحادی جیسے انڈیا اورافغانستان ان کے پشت پرہیں۔ اس اتحاد کوامریکہ کی بھی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ یہ چینی، روسی اورپاکستانی اتحاد کوٹیڑھی نظرسے دیکھتے ہیں۔ البتہ پاکستانی طالبان کی مضبوطی کامطلب افغانستان میں امریکہ کےخلاف جدوجہد سے جدا کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔ افغان حکومت ایک عرصہ سے شاید اس منصوبہ پرعمل پیراہے کہ پاکستانی طالبان کومضبوط بناکراس کارخ افغانستان کے بجائے پاکستان کی طرف کردیاجائے۔ اورشاید کنڑمیں یہ تجربہ کسی حد تک کارگربھی رہا ہے۔ لیکن دیگرعلاقوں میں زیادہ مؤثرنہیں رہا۔ جبکہ دوسری رحیم اللہ یوسفزئی کا کہناہے کہ طالبان کی ایک بڑی تعداد قومی دھارے میں شامل ہونے کی متمنی ہے۔ شائد دونوں ہی درست ہوں۔ اس کاایک ہی مطلب ہے کہ پاکستان مخالف اسلامی شدت پسندی ایک بہت بڑے دوراہے پرکھڑی ہے۔ ان میں بڑی تقسیم نظرآتی ہے۔

ریاستی اداروں میں تقسیم

لیکن پاکستانی ریاست کے ادارے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں پرتقسیم نظرآتے ہیں۔ یہ ہمیں سب سے زیادہ احسان اللہ احسان کے معاملہ میں نظرآتاہے۔ میڈیا میں اس حوالے سے شورشرابہ اورسینٹ کی قائمہ کمیٹی سے لے کرعدالتی کاروائی سے یہی نظرآتاہے کہ ریاستی اداروں میں اس حوالے سے یکسوئی نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی ریاست نے یکسوہوکرکوئی واضح حکمت عملی کا اعلان بھی نہیں کیا۔ اس لئے کنفیوژن زیادہ ہے۔

احسان کے ساتھ کیا رویہ اختیارکیاجائے گا یہ ریاست کی نئی حکمت عملی کی طرف سے ایک اشارہ ہوگا۔ کہ آیااس پرریاست کا مکمل ردعمل کیاآتاہے۔ پارلیمان، عدالتیں، میڈیا اورفوج کے درمیان اگراس معاملہ پرکھینچاتانی جاری رہی توظاہر  ہے یہ اسلامی شدت پسندوں کےمزید افراد کی عام معافی اوران کومرکزی دھارے کی سیاست میں لانے میں رکاوٹ کاباعث بنے گی۔ اگرریاستی ادارےیکسوہوکرایک پالیسی پرگامزن نہیں رہیں گے تواس کافائدہ را اوراین ڈی ایس ضروراٹھائیں گے اورپاکستانی ریاست فاٹا اصلاحات کے بعدبھی شدت پسندی سے نمٹنے میں ناکام رہے گی۔ نئے چینی سرمایہ اورنئے گریٹ گیم کے تناظرمِیں بننے والے اتحادات کے پیش نظرپاکستانی ریاست چاہتی ہے کہ گھرکے حالات میں کچھ سدھار لایاجائے اس لئے یہ طالبان کمانڈرزکوعام معافی دینے جیسے اقدامات کوزیرغورلارہے ہیں۔

اگراحسان اللہ احسان کوسینٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارش پرملایوسفزئی حملہ کیس اورعدالتیں ،آرمی پبلک اسکول پرحملہ کیس میں ملوث کردیتی ہیں توبحالی امن کے لئے شدت پسندوں کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوششوں کودھچکا لگ سکتا ہے ۔ لیکن اس سے لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی جنہوں نے دہشت گردی  کے خلاف جنگ میں ریاست کی جنگ کاساتھ دے کرنقصان اٹھایاہے۔ ان لوگوں کی دلیل ہے کہ ریاست ان کی قیمت پرطالبان اورجماعت الااحرارسے معاہدے کرنے کی طرف جارہی ہے۔ یہ ایک بہت ہی متضاد صورتحال کی غمازی ہے۔ پاکستانی ریاست کو اس حوالے سے ایک کھٹن فیصلہ کرناہے۔ اس کوخطے میں نئی صورتحال کا سامناہے اوراس صورتحال میں پرانے حریفوں اورحلیفوں کی حیثیت میں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کونئی سرمایہ کاری اورجنگ کے بدلتے حالات کاسامناہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...