نوازشریف نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

1,923

سابق وزیر اعظم  نواز شریف نے موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کوبےبس قرار دیتے ہوئے دعا کی ہے  کہ خدا نہ کرے آئندہ اس طرح کی حکومت کسی کو ملے۔  انہوں نے شاہد خاقان عباسی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ  ان کی ہمت ہے جو  انہوں نے دس ماہ مکمل کرلیے۔ نوازشریف نے صاف صاف بتایا ہے کہ ملک میں دو اور تین حکومتیں  چل رہی ہیں۔ اپنے بیان کی  وضاحت  میں ان کا کہنا تھا کہ اس طرح حکومت   چل سکتی ہے نہ ملک  چل سکتاہے۔دو گھنٹے کے توقف کے بعد انہوں نے کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کو  قریب بلایا اور کہا  کہ میں کوئی بات کرنا چاہتا ہوں کیا میڈیا اتنا مضبوط ہے کہ وہ یہ سب چلا سکے۔ ڈان نیوز کے رپورٹر محمد عمران نے کہا آپ اپنی بات کردیں اگر میڈیا پر نہ چل سکا تو پھر سوشل میڈیا پر چلادیں گے۔ نواز شریف نے کہا میڈیا کیوں نہیں چلاسکتا؟ کچھ سوچ بچار کے بعد نواز شریف نے کہا  کیا  آ پ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی کتاب پڑھی ہے؟  جواب ملا کہ پڑھ رہے ہیں۔ پھر بولے اس پر بھی ایک قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور اس کو اسی طرح زیر بحث لایا جائے جس طرح  ڈان  اخبار میں ممبئی حملوں سے متعلق  پبلش ہونے والے میرے بیان پر  اجلاس ہوا۔ نوازشریف نے قابل اعتبار قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو  ملک کے ساتھ پیش آنےوالے  سانحات  کی تحقیقات کرے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ    ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کیوں  عام نہیں کی اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ  کمیشن بننے کے بعد اس کی رپورٹ سامنے آجائے گی تو  نوازشریف نے براہ راست جواب نہیں دیا بلکہ  انہوں نے  روزنامہ جنگ میں شائع  ہونے والے انصار عباسی کے ایک کالم کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ اس سے متفق ہیں۔ انصارعباسی کا کالم پڑھا تو وہ کمرہ عدالت میں ایک دن قبل نوازشریف سے پوچھے گئے دو سوالات سے متعلق تھا۔ اتفاق سےدونوں سوالات میں نے ہی پوچھے تھے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ جس ماتحت ادارے کے سربراہ نے آپ کو وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا پیغام بھیجا تھا اس کو برطرف کیوں نہیں کیا؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر  سر جھکا کر نوکری نہیں کی تو پرویز رشید اور مشاہداللہ خان سےا ستعفےکیوں لیے تھے؟ نوازشریف نے جواب میں کہا یہ سب انہوں نے ملکی مفاد میں بردباری اور درگزر سے کام لیتے ہوئے کیا۔ انصار عباسی کے کالم میں  درج تھا کہ درست ہے کہ یہ نواز شریف کی کمزوری تھی  وہ ایسا کرلیتے تو آج افسوس نہ کرتے لیکن اب جو انکشافات انہوں نے کیے  ہیں وہ غور طلب ہیں۔ پھر انصار عباسی نے تجویز دی کہ  ان معامالات کی تحقیقات موجودہ چیف جسٹس اور آرمی چیف  کرائیں۔  اس کا صاف مطلب ہے یہ کہ نوازشریف نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ انہوں نے نوکری بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کی۔اب دوسروں سے  وہ امید رکھ رہے ہیں جو وہ خود نہیں کرسکے۔

نواز شریف نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا کہ سی پیک  جیسے اہم منصوبے میں  بھی رکاوٹ آگئی ہے۔ منصوبے سست رفتار ہوگئے ہیں۔ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن رک گئے۔ میں نے دریافت کیا یہ رکاوٹ چین کی طرف سے ہے یا ہم اس کے ذمہ دار ہیں؟ نوازشریف نے کہا کچھ آپ خود تحقیقات کرلیں، سب معلوم ہوجائے گا۔

صرف سیاسی معاملات  پرہی نہیں شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی سےمتعلق بات کرنا  بھی میرا فرض ہے،میڈیا اگر ڈرتا ہے توڈرے  میں نہیں ڈرتا الحمداللہ۔ نواز شریف

سابق وزیر اعظم  نےسپریم کورٹ کے  28 جولائی 2017 کے  فیصلے کو مسائل کی بنیاد قراردیاہے۔ کہتے ہیں پانامہ فیصلے کے بعد ملک میں معاشی عدم استحکام آیا۔ ملک درست سمت میں آگے بڑھ رہا تھا لیکن اس رفتار کواس فیصلے نے روک دیا۔ سما ء ٹی وی کے سینیر رپورٹر فیاض محمود نے پوچھا کہ کیاوزیراعظم کو قومی کمیشن بنانے کی  تجویز دینگے؟  نواز شریف نے کہا حکومت  کی مدت میں صرف 4یا5دن رہ گئے ہیں ، کمیشن اب نہ بنا تو کچھ عرصے بعد بن جائیگا،  انہوں نے کہا اب حساب کتاب کا وقت ہے ،  پتہ چلنا چاہیےبلوچستان میں کیسے حکومت کا تختہ اُلٹا گیا؟  کیسے ہارس ٹریڈنگ سے   چیئرمین سینیٹ بنایاگیا؟ کون ہے جو بندے توڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل کرتاہے؟کون ہے جو فون کرکے کہتا ہے پارلیمنٹ نہ جاؤ، ووٹ نہ دو؟ کون ہے جو میڈیا پر ضربیں لگا تاہے اور اس کی  طاقت گھٹاتاہے ؟ ؟ کون ہے جو ٹی وی چینلزکی آواز دبارہاہے؟  نواز شریف نے کہا  صرف سیاسی معاملات  پرہی نہیں شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی سےمتعلق بات کرنا  بھی میرا فرض ہے،میڈیا اگر ڈرتا ہے توڈرے  میں نہیں ڈرتا الحمداللہ ۔

پرویز مشرف  کے خلاف سنگین غدرای کیس  سے متعلق کہا یہ آسانی سے ثابت کیا جانے والا مقدمہ ہے ، اسی لیے موصوف پاکستان نہیں آرہے۔ایک وزیراعظم 70،70پیشیاں بھگت رہاہے اور ڈکٹیٹر مفرور ہے۔ مشرف مکے دکھاتا تھا، کہتا تھا یہ ہے طاقت ، کہاں گیا وہ مُکا؟ بزدلی سے جو باہر بیٹھا ہے بہتر ہے وہ مُکا اپنے منہ پر مارلے۔ عمران خان کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا جس پارلیمنٹ  پر لعنت بھیجی اسی سے مراعات بھی لے لیں۔ مشورے کے بعد کہا اگر یہ غیر پارلیمانی نہیں ہے تو تھوک کرچاٹنا اسے ہی کہتے ہیں۔  نوازشریف سے غیر رسمی گفگتگو کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف نے عندیہ دیا ہے کہ ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے۔ کہتے ہیں یہ 21 ویں صدی ہے اور اب کوئی بچ نہیں سکتا۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...