نوازشریف کا  احتساب عدالت کے جج،عملے اور واجد ضیاء کو تحفہ

1,000

ہاتھ میں اردور اور انگریزی اخبارات تھامے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف احتساب عدالت میں داخل ہوئے تو چہرے پر ایک گہری سنجیدگی اور غصے کے آثارنمایاں تھے۔ یہ ایک غیر معمولی دن لگتا تھا۔ آج ان کے ساتھ مریم نواز بھی نہیں تھیں۔ عدالت میں موجود سب کو سلام اورمصافحہ کرنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھتے ہی سابق وزیر اعظم نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت شروع کردی۔ ہر طرح کے سوالات ہوئے اور  نوازشریف نے تفصیل کے ساتھ جوابات بھی دیے۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جمہوری حکومت کے پانچ سال کی آئینی مدت مکمل ہونے اور الیکشن کمیشن کے انتخابی شیڈول جاری ہونے کے  باوجود ابھی بھی انتخابات کا وقت پر ہونا ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی مرکزی قیادت اس حوالے سے زیادہ پریشان نظر آرہی ہے کہ پس منظر میں  وہی قوتیں ایک دفعہ پھر متحرک ہیں جنہوں نے کچھ ہفتے قبل مسلم لیگ نواز کی بلوچستان میں صوبائی حکومت کا تختہ دھڑم کیا تھا اور  اندرونی تبدیلی کے نام پر  اپنی مرضی کی حکومت بنائی۔ انتخابات میں التواء سے متعلق قرارداد پاس کر کے سب سے پہلا قدم بلوچستان حکومت کی طرف سے ہی اٹھایا گیا۔ خبر یہ بھی ہےکہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی انتخابات میں التواء کا مطالبہ کردیا ہے۔بلوچستان اسمبلی اس سے پہلے ہی انتخابات کے التواء کا مطالبہ کرچکی ہے۔ باقی سب کے پاس بھی فاٹا انضمام کے علاوہ کون سا رستہ ہے؟ ایک قدم پیچھے ہی سہی لیکن لڑکھڑاتے ہوئے قدم ایک ہی سمت میں آگے بڑھیں گے۔ نواز شریف اس دوڑ میں بھی اکیلے رہ جائیں گے بلکہ دنیا سے تنگ آکر جیل ہی چلے جائیں گے۔  رسمی اور غیر رسمی سلسلے بھی کچھ عرصے کے لیے ٹوٹ جائیں گے۔ پھر امن ہی امن ہوگا اسے کہتے ہیں نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔

آج نواز شریف جب کمرہ عدالت سے نکلنے لگے تو ایک صحافی انعام اللہ خٹک نے ان سے پوچھا آج آپ کی حکومت نے پانچ سال مکمل کرلیے ہیں اور یہ دوسری جمہوری حکومت ہے جس کو یہ تاریخی دن نصیب ہوا۔ نوازشریف سوال سن کر مسکرائے اور کہا آج ہر کچھ ہی تاریخی ہے۔ پھر کہا ایسا ہوتا ہے تاریخی دن؟ اس کے بعد بتایا آج میں 80 کے قریب بار احتساب عدالت میں پیش ہوچکا ہوں۔ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے اردگرد پارٹی رہنماوں نے ان کو تسلی دینا شروع کردی اور کہا آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جیت آپ کا مقدر بنے گی۔ یہ آپ کے حوصلے کو شکست نہیں دے سکتے۔ نواز شریف کے دائیں بائیں مشاہد حسین سید، پرویز رشید اور طارق فاطمی موجود تھے۔ مشاہد حسین سید نے نوازشریف کے ساتھ مل کر اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ احتساب عدالت میں ہی کیا۔

جج محمد بشیر کے دائیں طرف جب واجد ضیاء پر جرح ہو رہی ہوتی ہے تو سامنے روسٹرم پر وکلاء، پراسیکیوٹرز، صحافی، سیکورٹی اہلکار اور عدالتی عملے کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے،جس کی وجہ سے نوازشریف کو عدالت کے اندر مطالعہ اور موبائل فون کے استعمال کے ساتھ اپنے رفقاء کے ساتھ طویل مشاورت کا موقع بھی میسررہتا ہے۔ گفتگو کے دوران کبھی کبھار آواز بلند ہوجاتی ہے لیکن عدالت میں صرف اس آواز کو ہی استثنیٰ حاصل ہے۔ واجد ضیاء کی گواہی میں اب نواز شریف کی دلچسپی ختم ہوچکی ہے۔ اب ان سےمتعلق بات بھی نہیں کرتے۔ اسٹیل کے صندوق  نواز شریف کی اسٹیل ملز کے خلاف جرح کا سامنا کرکے سیدھا سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں اور صندوق رجسٹرار کے حوالے کرکے اگلی پیشی پر صبح پھر سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے وہ صندوق لے کر احتساب عدالت حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان صندوقوں میں جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ موجود ہوتی ہے لہٰذا یہ لازم ہے کہ وہ واپس بھی جمع کرادی جائے۔ یہ قانونی تقاضا ہے کہ ملزمان کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ بھی روزانہ سفر کرتی رہے۔

عدالت ہی کیوں نہ ہو، مشاہد حسین سیداگر وہاں موجود ہوں تو پھر مشکل سے ہی کسی اور کو کوئی اور بات کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔ نوازشریف ،مشاہد حسین سید کےاس وجہ سے بھی قدر دان ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور کسی پالیسی  اختلاف کو بہانہ بنا کر اس مرتبہ دائیں بائیں بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ نوازشریف سے جب اس بارے  پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ماضی میں جو بھی دوری رہی لیکن آج مشاہد حسین سید ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوران سماعت دی نیوز میں شائع ہونے والی اعزاز سید کی خبر سے متعلق جب نواز شریف کو بتایا گیا کہ براہم داغ بگٹی نے بھی نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کی ہے تو ان کے چہرے پہ خوشی بکھر گئی اور  کہا کیا یہ خبر وہ پڑھ سکتے ہیں؟ مشاہدحسین  سید نے یقین دلایا کہ ان کے پاس یہ خبر موجود ہےاور وہ  ان کو پڑھا دیں گے۔

یاد رہے کہ یہ خبر دی نیوز کی ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی تھی،تجزیات آن لائن کے مذکورہ صفحے پر اس خبر کو مزید تفصیل کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے https://www.tajziat.com/article/5071

اسی اثناء میں بائیں طرف سے پرویز رشید نے کہا براہم داغ سےقبل منظور پشتین نے بھی آپ کی جہدوجہد کی حمایت کی ہے اور اس  سےمتعلق نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ نوازشریف اخبارات کے اندرونی صفحات تک پہنچ گئے۔ مجھے دن کے تمام اخبارات کھنگالنے  کا اشتیاق اور بھی بڑھ چکا تھا۔ جنگ اور دی نیوز کے صفحہ اول پر انتخابات  کےالتواء کے علاوہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ بیان بھی نظر سےگزرا جس میں کہا گیا کہ جدید دور میں اشاعتی اور نشریاتی پابندیوں کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اب مجھے کچھ شک ہونا شروع ہوگیا تھا کہ ان اخبارات کو اتنی سنجیدگی سے کیوں لیا جارہا تھا اور اندرونی صفحات تک بھی کیوں کنگھالے جارہے تھے۔

احتساب عدالت میں موجود مسلم لیگی رہنماوں سے جو بات چیت ہوئی ،اس سے یہ نتیجہ نکالا  جاسکتا ہے کہ اگر انتخابات میں کسی طرح کی بھی تاخیر ہوئی تو مسلم لیگ نواز  کےعلاوہ پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر ہوگی اور انتخابات ہونےچاہیں کے بجائے الیکشن ہونگے کے نعرے بلند کرتےنظر آئیں گے۔

آج نوازشریف  کی طرف سے عدالت میں موجود صحافیوں، سیکورٹی  و عدالتی عملہ، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، پراسیکیوشن ٹیم اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو رمضان کی مناسبت سے وظائف پر مشتمل کتاب کا تحفہ  پیش کیاگیا۔ نوازشریف نے تحفے کے ساتھ یہ  شرط  عائد کی کہ ان وظائف کو پڑھا بھی جائے۔احتساب عدالت میں آج ہونے والی بات چیت سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ نواز شریف کا غصہ اور لہجےمیں تلخی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ کسی نے پوچھا کہ آج مریم  نوازہمراہ نہیں ہیں توبولے مریم ساتھ آنا  چاہتی تھیں مگر انہوں نے منع کردیا کیونکہ اس ریفرنس میں اس کی حاضری ضروری نہیں ہے۔ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدرآج نوازشریف کےزیادہ قریب تھےاوران کی ہدایات پر دیگرپارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کرتے نظر آئے۔ رمضان میں نواز شریف کے افطار شیڈول میں بھی مشاورت سے ردوبدل عدالت کے اندر ہی کیا گیا۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نوازشریف جلد اہم لائحہ عمل کا اعلان بھی  کریں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...