نوازشریف اور باغی

1,010

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف آج جمعہ کے دن احتساب عدالت میں داخل ہوئے توپہلے کی نسبت  زیادہ ہشاش بشاش نظر آئے۔ ن لیگی حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد آج عدالت میں ان کا پہلا دن تھا۔ کچھ سیکورٹی انتظامات میں ردوبدل نظر آیا لیکن عدالت میں ان کی آمد پر معمول کے انتظامات ہی کیے گئے تھے۔ سابق وزیراعظم جیسے ہی نشست پر براجمان ہوئے تو ایک پارٹی رہنما نے ان کے ہاتھ پراخبارات کا پورا بنڈل رکھ دیا۔ اخبارات کی طرف دیکھنے سے قبل صحافیوں سے محو گفتگو ہوتے ہوئے سوال کیا کہ انتخابات وقت پرہورہے ہیں یا ملتوی کرارہے ہیں؟صحافی نے سوال کیا آپ کی اطلاعات کیا ہیں، اپنی معلومات سے کچھ ہمیں بھی بتا دیں۔ تھوڑی دیر طنزومزاح کے انداز میں اپنے سوال کو دہراتے رہے اور پھر بولے کچھ لوگ انتخابات ملتوی کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہر الیکشن سے پہلے یہی کچھ ہوتا  ہے۔ تھوڑا توقف کے بعد بولے اس دفعہ کچھ زیادہ ہوتا دیکھ رہاہوں۔

نوازشریف انتخابات کے بروقت انعقاد کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر لے رہے ہیں۔اس پر بات  کرتے ہیں، اس سے متعلق سوچتے بھی  ہیں اور اب تو وہ اپنا کیس عوامی عدالت میں لے جانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر ہنس رہے ہوتے ہیں جو اب انتخابات سے ڈر رہے ہیں اورصحافیوں سے پوچھتے ہیں  کہ وہ کون لوگ ہیں جو اب عوام  کا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں؟

انتخابات کو ملتوی کرنے کی  کی بات کرنے والے پاکستان کی جمہوریت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں

غیر رسمی گفتگو کے دوران ایکسپریس نیوز کے رپورٹرضیغم نقوی نے کہا کہ   آج آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں۔نوازشریف نے جواباًکہا کہ یہ اللہ تعالی کا شکر ہے ،زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، Ups and down زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ انہیں normal side پر بھی لینا چاہیے، زندگی نام ہی اسی چیز کا ہے۔ تھوڑے توقف کے بعد گفتگو کا سلسلہ پھر جاری کیا جس میں انداز گفتگو ایسا تھا جیسے وہ خود اپنے آپ سے مخاطب ہوں۔ اپنے اندر کو مضبوط کرنے کی غرض سے یہ سب کچھ کہہ رہے ہوں۔  پہلے ادا کیے گئے الفاظ کو دہراتے ہوئے دوبارہ کہاکہ  اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہوتا ہے ،ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کمرہ عدالت میں احتساب عدالت کے  جج محمد بشیر کا انتظار ہورہا تھا۔جج صاحب کی آمد سے قبل میں نے سوال پوچھا کہ انتخابات ملتوی ہونے کی صورت میں آپ کا  کیا لائحہ عمل ہوگا؟ کیا احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آئیں گے؟ اس سوال پر کچھ دیر خاموش رہے،پھر اپنے بائیں طرف  بیٹھے پرویز رشید سے مخاطب ہوئے اور  مسکراتے ہوئے پوچھا پرویز رشید صاحب آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ پرویز رشید صاحب نے بھی ہنسنے پر ہی اکتفا کیا اور جواب دینے کے دورانیہ میں پلکوں کو نیچے کر کے زیر لب ایسے مسکرائے جیسے خود  اپنا چہرہ دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔ نواز شریف نے اپنا رخ دائیں طرف بیٹھے مشکل وقت کے ساتھی جاوید ہاشمی کی طرف کرتے ہوئے انہیں انتخابات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بولنے کی درخواست کر ڈالی۔ اپنی حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد آج  پہلے دن سابق وزیراعظم جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ پہلی بار جاوید ہاشمی بھی نظر آئے۔ سماء ٹی وی کے رپورٹر فیاض محمود نے کہا آج تو “باغی”   کو بھی ساتھ لے کر آئے ہیں۔ نواز شریف نے مسکراتے ہوئے کہا اگر یہ باغی ہیں تو پھر محب وطن کون ہے؟ جاوید ہاشمی نے کہا کہ آج حکومت کے خاتمے کا پہلا دن ہے اور میرا بھی یہاں آج نواز شریف کے ساتھ آنے کا پہلا دن ہے۔

میں حکومتوں اور وزارتوں کے مزے لوٹنے سے زیادہ مشکل دورمیں  کھڑے رہنے والوں میں سے ہوں۔

فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں طویل جیل کاٹنے والے اور دوران قید وحشت ناک ٹارچر کا سامنا کرنے والے بزرگ سیاستدان گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ میں حکومتوں اور وزارتوں کے مزے لوٹنے سے زیادہ مشکل دورمیں  کھڑے رہنے والوں میں سے ہوں۔میں ان میں سے ہوں  جو شدید کسمپرسی کی حالت میں بھی اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ ان قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں جو ہروقت طاقت کے نشے میں دھت اپنے ہی ملک اور جمہوری نظام کو فتح کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ جاوید ہاشمی زباں نہ بھی کھولیں اور صرف اپنی قمیض اتار دیں تو ایسے بھیانک چہرے بے نقاب ہو جائیں، جنہیں اپنے آپ پر صاحب فہم و فراست  اور معزز ہونے کا بڑا زعم ہے۔ جاوید ہاشمی بولتے چلے گئے جیسے پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہوں۔ ان کا طرز بیان ویسا ہی پرجوش  تھا جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے نوازشریف کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا آج آپ نے قوم کو پارلیمنٹ کے لیے کھڑا کردیا ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا انتخابات کو ملتوی کرنے کی  کی بات کرنے والے پاکستان کی جمہوریت کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، یہ جمہورت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اگر اس کو derail  کرنے کی کوشش کی گئی تو جو جنگ جمہوریت پسندوں نے لڑی ہے، وہ جنگ اب بھی لڑی جائے گی۔ فیاض محمود نے نواز شریف سے ایک اور سوال کیا کہ  خبریں سنائی دے رہی  ہیں کہ مسلم لیگ نواز کو ٹکٹ کے لیے درخواستیں موصول نہیں ہورہی ،کیا آپ اب  تک کوئی موصول  ہونے والی درخواستوں کی تعداد بتاسکتے ہیں؟ اس سوال پر نواز شریف مسکرائے اور اس خبر کا ذریعہ  جاننے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پرویز رشید کی طرف دیکھا تو وہ اشارہ سمجھ گئے اور فوری طور پر بولے  کہ کیا اب  درخواستیں مسلم  لیگ نواز کو موصول نہیں ہونگی؟ کیا ٹکٹ کے لیے درخواستیں انہیں  موصول ہونگی  جو الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ چوہدری نثار سے متعلق ڈان ٹی وی کے رپورٹر محمد عمران کی طر ف سے پوچھے گئے سوال پر مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ مجھ سے کس طرح کے سوالات پوچھ رہے ہیں ۔

واجد ضیاء پر جرح کے دوران احتساب عدالت کے جج کا فون بجنے لگا

آج معمول سے ہٹ کر جج کے آنے سے پہلے ہی نواز شریف نے کہا ابھی جج صاحب کے آنے کا ارادہ بن رہا ہے، اب آپ ادھر توجہ دیں تو بہتر ہوگا۔ پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءجب  اپنے اسٹیل کے صندوقوں کے ساتھ عدالت میں داخل ہوئے  تو نوازشریف نے  مسکراتے ہوئے معنیٰ  خیز انداز میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ  صندوق آگئے ہیں۔ اس پر عدالت میں موجود سب ہنس پڑے ۔اسی دوران  کمرہ عدالت کے ایک کونے سے احتساب عدالت کے جج محمد بشیرداخل ہوئے تو صحافیوں کی مکمل توجہ اس طرف چلی گئی۔  وکیل صفائی خواجہ حارث کی  جے آئی ٹی کے سربراہ  واجد ضیاء پرالعزیزیہ مل ریفرنس میں جرح  کے دوران  ٹھیک 10 بج کر 6 منٹ پر جج  صاحب کا فون بجنے لگا ۔ جج صاحب نے فوری طور پر  اپنے  کالے کوٹ کی دائیں طرف سے اپنا سمارٹ فون نکالا اور اسے Silent mode پر کرکے دوبارہ جیب میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے سماعت کے دوران جج کو خاموشی کے ساتھ فون استعمال کرتے ضرور دیکھاگیا  ہے لیکن ان کے فون کی رنگ پہلی بار سننے کا اتفاق ہوا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...