آئینی استقرار ،سچائی کی تلاش
اندرونی مخاصمت،سیاسی آ ویزش،تقسیم در تقسیم اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کی بقا کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔سلامتی کا مکمل انحصار سیاسی معاشی استحکام پر مبنی ہے۔ منتخب حکومتوں کی موجودگی میں ہی الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کی باضابطہ منظوری کے بعد اعلامیہ جاری کردیا تھا جسے عجلت پسند رویے کے طور پر دیکھنا بہتر طرز عمل ہوگا۔جبکہ بلوچستان اسمبلی نے اپنی آئینی مدت کے آخری لمحات میں انتخابات کے التوا کی قرارداد منظور کرکے انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقادکو مشکوک بنانے میں پہل کی۔دیگر مسائل بھی انتخاب کے التوا کے خدشات بڑھا رہے ہیں۔تمام واقعات کی قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب ایک مخصوص حلقے کی جانب سے سامنے آرہا ہے۔ اس سیاسی حلقے کا پس منظر بھی بہت واضح ہے۔ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا نے ماضی کی دہائیوں کی اٹی دھندلاہٹ کو ختم کرکے منظر نامہ شفاف بنا دیا ہے۔
آئین میں انتخابات کے التوا کی صرف درج ذیل صورتیں ہیں۔
اولاًمعروضی حالات کی ناہمواری یا کچھ غیر متوقع ایسے حالات جن سے صرف نظر ممکن نہ ہو تو پارلیمان از خود ایک سال کی توسیع کرسکتی ہے۔ثانیاًآئینی مدت پوری کرنے کی صورت میں60روز میں انتخابات ہونگے جبکہ قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں انتخابات منعقد کرانے کی مدت90روز پر محیط و محدود ہے۔
انتخابی عمل کے آغاز،شیڈول کے اعلان کے بعد،جنگ یا ارضی وسماوی آفات کی صورت میں بھلے انتظامی ڈھانچہ ہی منتشر ہو جائے،انتخابات کے التوا کی کوئی دیگر آئینی راہ کتاب دستور کے مطابق موجود نہیں۔معروضی حالات کی مخدوشی کی صورت میں بھی سول انتظامیہ ملک بھر میں یا کسی مخصوص علاقے میں،جیسی بھی صورتحال ہو، انتخابی عمل ملتوی کرنے کی استدعا کرسکتی ہے ۔لیکن
کسی بھی قانون ساز ادارے(پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں)پر آئینی پابندی ہے کہ وہ بالخصوص صوبائی اسمبلیاں آئینی حدود سے متجاوز کسی قسم کی قانون سازی بل کی منظوری یا قرارداد منظور نہیں کرسکتی۔اختصاص کے ساتھ اس نکتے کا تعلق آئین کے منافی کسی بھی اقدام کی سفارش/قرارداد پیش کرنے کی مجاز ہرگز نہیں۔میری دلیل یہ ہے کہ کیا کوئی اسمبلی آئینی اعتبار سے اپنے صوبے کی آزادی و خود مختاری کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی؟اگر جواب نفی میں ہے تو اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیوں؟سیاسی مکتبہ فکر کے برعکس ایسے اقدام کو آئین سے انحراف قرار دیا جائے گا۔آئین شکنی کا زمرہ آئین توڑنے کے ہر اقدام پر محیط ہے بذریعہ طاقت یا شعوری انحراف و عدم تعمیل،ہر اعتبار سے مذکورہ اقدام آئین کی خلاف ورزی قرار پائے گا۔کیونکہ اراکین اسمبلی ملک کی بقا،سالمیت اور آئین کی پاسداری اور بالادستی کو یقینی بنانے کا حلف اٹھاتے ہیں۔چنانچہ میرا استدلال یہ ہے کہ انتخابات کے التوا کی قرارداد کے براہ راست اقدام اور ذیلی طور پر حلف کی خلاف ورزی کے ارتکاب کے بعد وہ تمام سابقہ اراکین اسمبلی جنہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔آئین کی دفعات62 اور63 کے تحت صادق و امین نہیں رہے۔ نیز وہ اس ذہنی اہلیت و استعداد کا مظاہرہ کرنے سے بھی معذور نظر آتے ہیں جو کسی بھی شہری کو قانون،اسمبلی کے رکن بننے کی اہلیت عطا کرتا ہے۔ کوئی ہے جو ان وجوہات کی بنیاد پر بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو آنے والے انتخاب میں امیدوار بننے سے روک سکے۔
پارلیمان کی بالادستی کے خلاف برسر پیکار منفی رجحان کی موجودگی کے کئی عملی بظاہر ہماری تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں۔اس رجحان کا فروغ اور عملی اطلاق عسکری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتا رہا ہے،تاہم ہر ایسے مرحلے میں عدلیہ ایسے اقدامات کی معاون ہی رہی ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں صورتحال میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا گیا کہ معزز عدلیہ براہ راست حکومت و پارلیمان کی اتھارٹی کیلئے سدراہ بن رہی ہے۔پانامہ کیس کے اولین فیصلے میں پانچ رکنی بنچ نے واشگاف الفاظ میں62ایف(1) میں موجود نااہلی کی مدت بارے خاموشی کے ابہام کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمان سے اس ابہام یا سقم کو دور کرنے کی استدعا کی تھی لیکن چند ماہ بعد اچانک معزز عدلیہ نے ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے آئین کی62ایف(1) میں نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دے دیا۔پارلیمان نے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد جو ترمیم کی اسے بھی منسوخ کرکے پارلیمانی بالادستی اور آئین کی تابع داری متنازع بنادی گئی۔مذکورہ ترمیم بارے کسی بھی شخص کو آزا دانہ طور پر مختلف رائے کا حق ہے
سوال یہ ہے کہ کیا معزز عدلیہ کے محترم ججز کو فیصلے کرتے ہوئے ذاتی رائے کوفوقیت دینا ہے یا کتاب آئین کے مندرجات کو؟
قانون سازی پر عدالتی نظرثانی کا اختیارقانون میں موجود مختلف دفعات کے تضاد یا کسی ایک ہی نقطے پر دو مختلف آرا میں سے کسی ایک کو ترجیحاً قبول کرنے تک محدود ہے۔اس صورت میں بھی ماضی کے بعض عدالتی فیصلوں میں پارلیمان کو ہی تضاد و ابہام دور کرنے کیلئے متعلقہ قانون پر نظرثانی کیلئے رجوع کرنے کے فیصلے موجود ہیں۔پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ اس رجحان کی وضاحت کرتا ہے جس کی نشاندہی سطور بالا میں کی گئی ہے۔حالانکہ سینیٹ کے مارچ2018 میں ہوئے انتخابات میں ترمیم شدہ کاغذات نامزدگی ہی استعمال ہوئے تھے۔حالانکہ فیصلہ قانونی موشگافیوں اور عدالتی الجھنوں کے ایسے عمل کا باعث بن رہا ہے جو حتمی طور پر انتخابات کے اعلانیہ شیڈول پر عملدرآمد شکوک بنا رہا ہے۔
مردم شماری کے بعد اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے اور اس کے نتیجے میں نئی حلقہ بندیوں کے پیچیدہ و طویل عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے راقم نے اپنی بساط کے مطابق مشورہ دیا تھا کہ پارلیمان طے کردے کہ2018 کے انتخابات پر نئی مردم شماری کے لازمی تقاضوں کا اعلان نہیں ہوگا وگرنہ انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد مشکل ہوگا۔وفاق اور سندھ کے علاوہ(آج تین جون دوپہر تک)نگران حکومتوں کے قیام کے فیصلے نہیں ہو پائے۔کے پی کے اور پنجاب میں اس عمل کے دوران جس طرح کی سیاسی عدم بلوغت اور بچگانہ پن کا تماشہ دیکھنے میں آیا ہے، اس نے سیاسی قیادت کے ایک مخصوص حلقے کی ساکھ پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ایسا سب کچھ عجلت اور غیر سنجیدہ پن سے ہوا ہے یا بالارادہ؟ اس کا حتمی فیصلہ انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد اور اس کے نتائج کے بعد ہی ہوگا۔
سینیٹ انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور باہمی اختلافات کی خلیج میں گہرائی سے جو فضا بنی تھی، لگتا تھا کہ سیاسی جماعتیں انا پرستی کے تنگ خول میں محدود ہورہی ہیں لیکن اس ہفتے میں جو فیصلے(جن کا سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے)سامنے آئے ہیں، ان کے بطن سے سیاسی صف بندی ایک عجلت طرز کے سہی مگر باہمی تعاون و اتفاق رائے کی صورت سامنے آئی ہے۔پیپلز پارٹی اور نواز لیگ،اے این پی،نیشنل پارٹی، بی این پی،جمعیت علمائے اسلام سمیت چیدہ چیدہ اہم جماعتوں نے غیر مبہم طور پر انتخابی شیڈول میں ترمیم یا مدت میں ایک دن کے اضافے کو یکسر مسترد کیا ہے۔پی ٹی آئی بھی اس موقف کی حامی نظر آئی مگر کچھ اگر مگرکی پالیسی کے ساتھ۔تاہم یہ طے ہے کہ انتخابات کے التوا کی خواہشمند قوت کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے تو کیا یہ یقین کرلیا جائے کہ انتخابات جیسا کہ نگران وزیراعظم نے عزم کا اعادہ کیا ہے،25جولائی کو ہی ہونگے؟ کیا ان انتخابات کی شفافیت کسی شک و شبہ سے بالا ہوگی؟
اس سوال کا جواب مثبت ہوسکتا ہے مگر میرے ذہن میں البتہ بدگمانی و تحفظات موجود ہیں کہ اگر اس راہ پر چلتے ہوئے نواز لیگ اپنے اتحادیوں سمیت قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو کیا اسے اقتدار بمع اختیارات منتقل کردیے جائیں گے؟
اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر گزشتہ دو سال سے پانامہ کے ذریعے کون سے مقاصد پورے کیے گئے ہیں؟ اس عرصہ میں ملک میں سیاسی استحکام پر نیز معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس کے لیے ایک سچائی کمیشن جو حتمی طور پر مفاہمت پر ہو، کے قیام کا سوال زیادہ بامعنیٰ مطالبہ نہیں ہوگا؟
تصادم اور آئین سے گریز کا رستہ یہی ہے کہ آئین کی بالادستی تسلیم کرلی جائے اور ماضی قریب و بعید کے ان تمام واقعات و تنازعات کے تصفیہ کے لیے مفاہمت پیدا کرنے والے سچائی کمیشن کو قائم کرکے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی راہیں تراشی جائیں۔
فیس بک پر تبصرے