سیاست میں مذہب کا استعمال

محمد ضیاء الحق نقشبندی

1,315

سیاسی جماعتیں  ہوں یا مذہبی جماعتیں  دونوں ہی  ضرورت کے مطابق خصوصاًانتخابات سے پہلے مذہب کو بطور ہتھیار  استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایک دوسرے کو ذریعہ  بنا کر مذہب کا کارڈ استعمال کیاجاتا ہے۔لیکن جہاں ایک دوسرے کو ذریعہ بنایا جاتا ہے، وہیں ایک دوسرے کو فوائد بھی پہنچائے جاتے ہیں۔ سیاست میں عوام کے مذہبی جذبات سے کھیل کر سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کا سودا بازی کرنا انتخابی مہم کا حصہ رہا ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ، جیسا کہ آپکو جنوری 2018میں ضلع چکوال سے ضمنی  الیکشن یاد ہوں گے۔ اس میں پی ٹی آئی کے راجہ طارق محمود افضل اور پی ایم ایل این کے چوہدری حیدر سلطان کے درمیان مقابلہ تھا۔جس میں راجہ طارق محمود افضل کے 46,025ووٹوں کے مقابلے میں چوہدری حیدر سلطان نے 75,934ووٹ حاصل کر کے برتری حاصل کی۔

اب پی ایم ایل ن کی چکوال میں اس غیر معمولی فتح کے پیچھے کا احوال جانیے۔ چکوال کے دیوبندی فرقہ کی جماعت تحریک خدام اہل سنت  چکوال میں پی ایم ایل ن کی بنیادی سپورٹر تھی۔ یہ تنظیم جلسے سجاتی تھی، جس میں پی ایم ایل ن کے لیڈر بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے تھے۔اس تنظیم کے پیروکاروں کی تعدادہر جگہ موجود ہے۔ جیسا کہ اُن دنوں پی ایم ایل ن ختم نبوت  کے حوالے سے  بریلوی مسلک کی تحریک لبیک یارسول اللہ  کے  نشانے پر تھی۔ تحریک خدام اہل سنت  نے ہر بار کی طرح اس بار بھی پی ایم ایل  ن کو سپورٹ کرنے کا عزم کیا ۔ لہذا ایک محفل سجائی گئی ، عقیدت مندوں اور پیروکاروں کو مدعو کیا گیا اور پی ایم ایل ن کے چوہدری حیدر سلطان نے قادیانیوں کے خلاف تقریر کی اور کہا کہ ختم نبوت بل کے حوالے سے حکومت کا غلط ارادہ نہیں تھا ،لیکن وہ منتخب ہونے کے بعد پارلیمان میں اس مسئلے پر عوامی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے آواز ضرور اٹھائیں  گے۔  یوں وہ دیوبندی  ووٹ بینک اپنے لیے محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئے،جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کے چوہدری حیدر سلطان کو پی ٹی ا ٓئی امیدوار کے مقابلے میں29,909اضافی ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی۔

نہ صرف مسلم لیگ ن نے بلکہ پی ٹی آئی نے بھی ختم نبوت بل کا فائدہ اٹھایا اور چکوال کی  شیعہ کمیونٹی کی حمایت حاصل کر لی ،جن کے ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سابقہ لیڈر سردار غلام عباس کو جاتے تھے۔ یہاں سے تو پتہ چلتا ہےکہ کیسے سیاسی جماعتیں مذہبی تنظیموں اور مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ خود مذہبی جماعتیں کس طرح مذہب کو استعمال کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرتی آئی ہیں۔

1956میں پاکستان کے ساتھ “اسلامی جمہوریہ” کا لفظ لگنے کے بعد سے مذہب کے نام پر جو بھی جماعتیں بنائی گئیں ،وہ کبھی قومی و صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں کر سکیں۔ جس کی وجہ سے انکو کچھ نہ کچھ ایسا کرنا پڑتا رہاہے ،جس سے وہ طاقت ور اداروں کی حمایت حاصل کرسکیں اور بعدمیں کامیاب سیاسی جماعتوں یا پھر آپس میں الحاق کرکے اپنا ایک خصوصی ووٹ بنک بنا لیں، جو صرف انکو ووٹ دے۔ لہٰذا مذہبی جماعتوں کے ووٹر زیادہ مذہبی گھرانے کے کم تعلیم یافتہ وہ لوگ ہیں جو زیادہ تر فاٹا کے قبائلی علاقوں میں بستے ہیں ،مدرسوں کے طلباءہوتے ہیں ،یا پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ جن کو شریعت کے نفاذ کے نام پرباآسانی ورغلایاجاسکتا ہے اور انہیں اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتیں اس خاص طبقے کوووٹ حاصل کرنے کے لیے جو جو لالچ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں وہ سب یہ  ہیں کہ  منتخب ہوکر اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی اور شرعی احکامات کے مطابق معاشرے کی تشکیل، مدرسوں اور مسجدوں کا قیام، توہین رسالت اورختم نبوت کے حوالے سے قوانین کی حفاظت  کریں گے۔

دوسری طرف ممتاز قادری کی گرفتاری اورپھانسی کے بعد توجہ حاصل کرنے والے مولاناخادم حسین رضوی  نے تحریک لبیک یارسول اللہ  بنائی اور اس کے بعد الیکشن میں آنے کا اعلان بھی کر دیا۔تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے امیدار اظہرحسین رضوی نے 2017میں میاں نواز شریف کی نا اہلی ثابت ہونے کے بعد NA120سے الیکشن لڑااور اس وقت6فیصد ووٹ حاصل کر لیے، جب کوئی شخص اس مذہبی جماعت کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ان کی انتخابی مہم میں نہ صرف آئین پاکستان  کے آرٹیکل 295C  کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی جاتی تھی، بلکہ تمام انبیاءکرام کی توہین کے انسدادپر زور دیا جاتااورممتاز قادری کے نظریے کی حمایت کی جاتی تھی۔ کالعدم جماعت الدعوة کی نئی تنظیم سیاسی  جماعت ملی مسلم لیگ جو اس وقت اللہ اکبر تحریک کے نام سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے ، نے اور خادم حسین رضوی کی جماعت لبیک یا رسول اﷲ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے مساجد کو اپنے بیس کیمپوں کے طور پر استعمال کیا۔

ستمبر 2017میں این اے کے حلقہ 120کے ضمنی انتخاب میں مذہبی جماعتوں نے علاقے کے کم پڑھے لکھے اورکچی آبادی کے مذہبی لوگوں کو ٹارگٹ کیا۔ انتخابی مہم کے بینر زمساجد اور درباروں میں لگائے گئے، جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات ووٹ بنک میں بدل گئے اور دونئی جماعتوں، ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک نے اجتماعی طور پر 11فیصد ووٹ حاصل کر لیے۔ ملی مسلم لیگ نے علاقے میں موجود جہادی نظریات کی حامل اپنی کمیونٹی، جبکہ جماعت اسلامی نے اپنے اور تحریک لبیک نے سنی بریلوی مسلک کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا۔ تحریک لبیک نے اپنے ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے علامہ اقبال کے اشعار کو بھی  اپنے سیاسی نعروں میں استعمال کیا۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں  ملتی ہیں،جن سے پتہ چلتا ہےکہ مذہب بھی ایک سیاسی ہتھیار ہے، جسے مذہبی جماعتوں اور تنظیموںسمیت ہر سیاسی جماعت بوقت ضرورت استعمال کرتی ہے، کیونکہ  سیاست میں طاقت کا حصول سب سے اہم چیز ہے،اور وہ  چاہے جیسے بھی حاصل ہو۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...