جیل میں نوازشریف کی پہلی رات کیسی گزری
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ دیواریں کھردری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی مرمت کئی دہائیوں سے نہیں ہوئی۔ اس کمرے کے ساتھ ایک واش روم ہے جس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کمرے میں ایک پرانے دورکا پنکھا ہے جو اپنی مرضی سے اپنا سرکل پورا کرتا ہے۔ اے سی اور ٹی وی جیسی سہولیات کا کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے۔ اس کمرے میں زمین پر پڑے گدے پر ملک کے تین بار بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف گہری سوچ میں بیٹھے ہیں، نیند انکی آنکھوں سے کوسوں دور ہے جبکہ ان کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ صبح جیل مینوئل کے مطابق انہیں ناشتہ ضرور ملا لیکن خواہش کے برعکس آج ان کو اخبارات نہیں دیے گئے اورباہر کسی سے کوئی رابطے کی صورت بھی موجود نہیں ہے۔ اس جیل میں قیدیوں کو کچھ لودو کے اصول کے تحت فون کی غیراعلانیہ اجازت حاصل ہے۔ جیل سپریٹینڈنٹ نے آکر کہا آپ سے کچھ وکلاء ملنے آئے ہیں۔ نوازشریف کو یہ پولیس افسرملاقات کے لیے ایک مختص کمرے میں لے گئے جہاں ان کے وکلاء بیرسٹر سعد ہاشمی اور ظافرخان ان کا انتظار کررہے تھے۔ دونوں نے خیریت دریافت کی اور اپیل دائر کرنے کے لیے ان کے دستخط حاصل کیے۔ ابھی سابق وزیراعظم جیل میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے متعلق آگاہ کر ہی رہے تھے کہ پولیس افسرجو خود بھی اس ملاقات میں شامل رہے، نے کہا کہ سر آپ کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ پانچ منٹ کا ہی وقت ہوتا ہے۔ وکلاء نے مریم نوازسے ملنے کی استدعا کی تو یہ کہہ کر اس کو رد کردیا گیا کہ صرف سہی ملاقات کرسکتے ہیں جن کے مریم نواز کا وکالت نامہ ہوگا۔
مریم نواز کے وکلاء کو یہ خبر کردی گئی جس کے بعد انہوں نے دستخط حاصل کرنے کی تیاری کی اور ایک وکلاء کی ایک دوسری ٹیم جیل کی طرف روانہ کی گئی۔ مریم نواز نےبھی عام خواتین قیدیوں کےساتھ علیک سلیک کی۔ ابھی نوازشریف اور مریم نواز جیل کا لباس نہیں پہن رہے ہیں۔ انہیں اپنے ساتھ ضروری استعال کی اشیاء رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
نوازشریف کے وکلاء نے اے کلاس کے لیے اعلیٰ حکام سے رابطے کیا ہے جبکہ مریم نوازنے کسی قسم کی درخواست تک دینے سے انکارکردیاہے۔ ان کی طرف سے ہاتھ سے سادہ کاغذ پر لکھے گئے خط کو ان کی سوشل میڈیا ٹیم تک بھی پہنچایا گیا جس کے مطابق انہوں نے خصوصی سلوک کی آفرٹھکرادی ہے اوراب وہ جیل میں ایک عام قیدی کی طرح وقت گزار رہی ہیں۔ “جیل تو پھر جیل ہی ہوتی ہے، اتنا آسان تو نہیں ہوتا وہاں رہنا” یہ الفاظ تھے ایک ملاقاتی کے جو سابق وزیراعظم سے مل کرواپس آرہے تھے۔ ملاقاتی کے بقول نوازشریف کے ساتھ کوئی بدسلوکی بھی نہیں کی گئی تاہم اگر جیل حکام ابھی تک ان کو وہ سہولیات ہی مہیانہیں کرسکے جو ایک سابق وزیراعظم کو ملنی چاہیں تو اس کا مطلب ہے کوئی یہ سب کچھ سبق سکھانے کے لیے ہی کررہا ہے۔ نوازشریف نے اپنے وکلاء سے باہرکے حالات معلوم کیے۔ نوازشریف نے میڈیا پر چلنے والی خبروں سے متعلق بھی دریافت کیا۔
یاد رہے کہ نوازشریف اورمریم نواز کی فلائیٹ ہیتھرو ائیرپورٹ سے ابوظہبی ائیرپورٹ اور پھر لاہور پہنچی جہاں سے دونوں کو اسلام آباد کے نیو انٹرنیشل ائیرپورٹ پر اسپیشل طیارے سے لایا گیا۔ ہفتے کی رات نوازشریف اورمریم نواز کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیرسے رات 10 بجے کے قریب گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیاگیا۔ نیوائیرپورٹ سے باپ بیٹی کو گاڑیوں کے قافلے میں لایا گیا۔ اس قافلے میں بکتر بند گاڑیاں بھی شامل تھیں۔ ٹریفک پولیس نے روٹ لگایا تو یہ اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا نورخان ائیربیس کے قریب سے گزرکر اڈیالہ جیل پہنچا۔ میڈیا پر ایک ایسا نوٹیفیکیشن بھی سامنے آیا جس کے مطابق انتظامیہ نے سہالہ ریسٹ ہاوس کو مریم نواز کے لیے سب جیل قراردیا اور اب میڈیا کی بڑی تعداد پولیس کے اس ریسٹ ہاوس کے باہر پہنچ گئی۔ لیکن یہ نوٹیفیکشن شاید میڈیا کی توجہ بانٹنے کے لیے تھا۔ شریف خاندان کی اب میڈیا سے مکمل دوری کا منصوبہ بن چکاہے۔ وزارت قانون نے رات کو یہ نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا کہ نوازشریف کے خلاف باقی دوریفرنسزپرٹرائل اب جیل کے اندر ہی ہوگا۔ جج محمد بشیر، پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء اورنیب کے تفتیشی افسران بھی جیل جاکرعدالتی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ جمعہ کو نوازشریف کے خلاف فیصلہ آیا اور پھر جمعہ کو ہی نوازشریف ملک واپس پہنچے۔ نوازشریف اور مریم نوازکی بیگم کلثوم نواز کے ساتھ وینٹیلیٹر پرآخری ملاقات کا میڈیا اورخاص طور پرسوشل میڈیا پر خوب چرچا ہوا۔ اس تصویرمیں نوازشریف انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اپنی اہلیہ کے سرہانے کھڑے اپنی اہلیہ کے سر کوپکڑکر کچھ پڑھ رہے ہیں جبکہ مریم نواز نوازشریف کے دائیں کھڑی ہو کر اپنی ماں کو دیکھ کرروتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس تصویر کا بہت اثرہوا۔ لاہورمیں بڑی تعداد استقبال کے لیے باہر نکل آئی لیکن میڈیا نے ان مناظر کو بلیک آوٹ کیے رکھا۔ سینئر اینکر طلعت حسین نے اس حوالے سے ریکارڈ کیے گئے اپنے ایک پروگرام کو ٹی وی پر نشر نہ ہونے کی شکایت ٹویٹر پربھی کی۔
جعمہ کے دن بلوچستان میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا جس میں 100 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے لیکن میڈیا نے اس واقعے کو زیادہ کوریج نہیں دی۔ جمعہ کے دن ہی بنوں میں سابق وفاقی وزیر محمد اکرم درانی کے جلسے میں خودکش حملہ ہوا اور متعدد افراد قتل ہوئے لیکن میڈیا نے اس واقعہ کو بھی زیادہ کوریج نہیں دی۔ نواشریف کی کوئی تقریر میڈیا پر نہیں چل سکی۔ سیکیورٹی کے پش نظرمیڈیا نمائندوں کےموبائل فونز سے جہاز میں لی گئی نوازشریف اور مریم نواز کی ویڈیوز بھی ڈیلیٹ کردی گئیں۔ اس کے باوجود طیارے کے اندر کی تصاویراورویڈیوز منظرعام پر آئیں۔
فیس بک پر تبصرے