عسکریت پسندوں کی واپسی کے ساتھ کھلواڑ
پارلیمنٹ بحالی کا ایک جامع پلان وضع کرے ۔ قومی سطح پرحقائق کی جانکاری کرتے ہوئے مفاہمتی کمیشن truth and reconciliation commission بنائے جو ان پالیسیوں کا جائزہ لے جو عسکریت پسندی کی وجہ بن رہی ہیں
شدت پسندی کا عمل دنیا کے بارے میں نہ صرف کسی بھی شخص کا نظریہ بدل دیتا ہے بلکہ زندگی کے بارے میں اس کی ذاتی فکر میں بھی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے ۔میں نے ایک بار ایک شدت پسند سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی عمومی زندگی میں واپس آنا چاہتا ہے ؟ میں نے کئی بار سوال بدل بدل کر اس سے پوچھا مگر اس نے اسے در خور اعتنانہیں جانا۔ جب اس کے اپنی لیڈرشپ اور ساتھیوں کے ساتھ اختلاف ہو گئے اور وہ یہ سوچ کر مخمصے میں پڑ جاتا کہ عسکریت پسندی کے بغیر وہ زندگی کیسے گزار سکے گا ۔بالآخر جب اسے میری بات سمجھ آ گئی تووہ مسکرایا ،اپنے آپ پر نہیں بلکہ ہم جیسے عام لوگوں کی زندگیوں پر ۔
میرے لئے یہ بات ہمیشہ حیرانی کی ہوتی ہے کہ جب میں سنتا ہوں کہ ایک سخت گیر عسکریت پسند واپس آ کر صف اوّل میں شریک ہونا چاہتا ہے ۔ اس بات پر بھی یقین کرنا مشکل تھا کہ تحریک طالبان پنجاب چیپٹر کی سربراہ عصمت اللہ معاویہ کو ایمنسٹی دے دی گئی ہے ۔جماعت الحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ہتھیار پھینکنا مزید حیران کن بات لگتی ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ شدت پسندی کا انسداد ممکن نہیں دنیا بھر میں اور پاکستان میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جب عسکریت پسندوں نے تشدد کو خیر آباد کہہ دیا۔مگر عموماً اس کے پیچھے تین وجوہات ہوتی ہیں۔
پہلی وجہ سیکورٹی ایجنسیوں کی سختی یا پھر کچھ شدت پسندوں کو مراعات کا لالچ دے کرانہیں مین سٹریم میں لایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے سابقین یاغیر ریاستی عناصر کے خلاف مرضی کا پراپیگنڈا کر سکیں۔دوسرا سیاسی اور دینی امور پر وہ اندرونی بحث مباحثہ بھی ہے بالخصوص جب وہ جیلوں کے اندر ہوتے ہیں اس سے شاید کچھ عسکریت پسندوں کے اذہان بدل جائیں جوشاید اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئےپر متشدد راستے اپنانے پر راضی ہو جائیں۔مثال کے طور پرقاہرہ کی جیل میں الغامہ الاسلامیہ کے عسکریت پسندوں نے اپنے طریقے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تشدد کا رستہ ترک کر دیا اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ ایک ہی سیل میں ایسے عسکریت پسندوں کو رکھنے سے وہ انسداد شدت پسندی کی طرف جاتے ہیں بلکہ کئی کیسوں میں وہ مزید شدت پسند ہو کر نکلتے ہیں۔ایساپاکستان کی جیلوں اور عراق کے کیمپ بکاف میں ہو چکا ہے جہاں دولت اسلامیہ کے شدت پسند ،انسداد شدت پسندی کی بجائے اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے ۔
تیسرا، عدم شدت پسندی اس وقت ہوتی ہے جب نظریاتی ، سیاسی ، سماجی و معاشی حالات بدل جائیں اور غیر ریاستی عناصر کواپسی کا راستہ خوش کن معلوم ہو ۔افریقہ سے لاطینی امریکہ تک اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
فلپائن کی مینڈانوMindanao جسے اب Bangsamoro کہا جاتا ہے ایک حالیہ مثال ہے اگرچہ اس میں کئی نشیب و فراز آئے تاہم حکومت اور مرو Moro حریت پسند اس کام میں لگے رہے اس میں جو چیز یاد رکھنے کی ہے کہ مورو کوئی نظریاتی ، علاقائی یا عالمی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ علیحدگی پسند ی کی تحریک تھی ۔لبنان کی حزب اللہ اس کی ایک اور مثال ہے جو نظریاتی اور مذہبی طور پر ایک بھرپور تحریک ہے لیکن اس کے کوئی عالمی اہداف نہیں ہیں ۔اگرچہ یہ سیاسی طور پر صفِ اوّل میں کھڑی ہے مگر اس کی شناخت غیر ریاستی عناصر کے طور پر ہے ۔اس کی شاید علاقائی تناظر میں کوئی خاص وجہ بھی ہو کیونکہ نظریاتی تحریکیں حتمی فتح پر ایمان رکھتی ہیں ۔
ایک بار میں نے ناصر عباس سے کچے ایسے سوال کئے جو کہ اس کی عمومی زندگی میں واپسی سے متعلق تھے ۔ناصر جو کہ انڈونیشیا کے سابق عسکری گروپ جماع الاسلامیہ Jemaah Islamiyah سے منسلک رہا وہ اب حکومت کے پاس قید دہشت گردوں کی بحالی کے لئے حکومت کی مدد کر رہا ہے ۔وہ اس کی کئی وجوہات بیان کرتا ہے جس میں انسداد شدت پسندی کے کچھ عام مروجہ نظریات بھی ہیں ۔وہ بمباری سے عام شہریوں کے جانی نقصان پر خوش نہیں تھا مگر اس کے ساتھی کئی سیاسی اور نظریاتی توجیحات بیان کرتے لیکن سب سے اہم وجہ جو اس کی تحریک سے علیحدگی کی وجہ بنی وہ اس کے ساتھیوں کااس پر عدم اعتماد تھا۔
جہاں تک احسان اللہ احسان کا معاملہ ہے اس کے بارے میں بہت کم معلومات آئی ہیں کہ اس کی واپسی کا محرک کیابنا ؟ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اس کے قریبی دوست عصمت اللہ معاویہ نے اسے جماعت الاحرار چھوڑنے پر قائل کیا۔ابھی تک جو بات بہت واضح ہے وہ یہ کہ اس کی واپسی عسکریت پسندوں کی بحالی کی کسی پالیسی کا حصہ نہیں ہے ۔
میڈیا اور پالیسی امور کے کچھ حلقوں میں یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مذہبی طور پر کارفرما عسکریت پسندوں کے بارے میں بھی ویسی ہی پالیسی لائی جائے جو بلوچ علیحدگی پسندوں کے بارے میں ہے لیکن حکومت نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو مکمل ایمنسٹی نہیں دی یہ ایک غلط مفروضہ ہے ۔اگرچہ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو ہے لیکن اشرافیہ نے اس جانب کچھ نہیں کیا ۔ماسوائے یہ دعویٰ کرنے کے کہ بلوچ علیحدگی پسندی کمزور ہو چکی ہے ۔ایسی خبریں آتی رہیں کہ بلوچ گروہوں کے مطالبات مذہبی طور پر برسرپیکار گروہوں کے مطالبات کے مقابلے پر بہت کم تھے ۔بلوچ اپنے قیدیوں کی رہائی اور نوکریاں مانگ رہے تھے ۔اس لئے بلوچ علیحدگی پسندوں اور مذہبی طور پر متحرک عسکریت پسندوں کے درمیان پھیلاؤ اور دائرہ اثر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔تاہم یہ واضح ہے کہ جو ریاست کے خلاف ہو گا اس کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں کی جائے گی ۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ قطع تعلق ہونا، غیر مسلح ہونا ، غیر متحرک ہونا اور غیر شدت پسند ہو کر عام زندگی میں واپس آنے کے تصور کا معاملہ ہر ملک اور وہاں کے زمینی حقائق کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ ہر ریاست کے اپنے تجربات اور کام کرنے کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔پاکستان کا معاملہ سب سے الگ ہے یہاں پر کئی طرح کے پر تشدد اور غیر تشدد پسند انتہا پسند گروہ متحرک ہیں کچھ کے فرقہ وارانہ مقاصد ہیں کچھ عالمی حالات کی پیداوار ہیں اور کچھ اپنے حالات کی پیداوار ہیں ۔ان میں سے کئی ریاست کے جہاد پراجیکٹ کی پیداوار ہیں ۔اس لئے ملک میں جب بھی یہ بحث ہوتی ہے کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے لئے کیا کیا جائے تو یہ معاملہ ہمیشہ درپیش ہوتا کہ آغاز کہاں سے کیا جائے ۔
حال ہی میں اسلام آباد میں سیکورٹی امور کے ایک ورکنگ گروپ نے کالعدم تنظیموں کی بحالی کے امکانات پر گفت و شنید کی ۔اس گروپ نے دو کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کا مؤقف بھی سنا۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دائرہ کار پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ بحالی کا ایک جامع پلان وضع کرے ۔گروپ نے تجویز کیا کہ پارلیمنٹ قومی سطح پرحقائق کی جانکاری کرتے ہوئے مفاہمتی کمیشن truth and reconciliation commission بنائے جو ان پالیسیوں کا جائزہ لے جو عسکریت پسندی کی وجہ بن رہی ہیں۔اور یہ گروپ ان گروہوں کو جو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوں ان کی قومی دھارے میں شمولیت کے لئے اقدامات کرے ۔یہ کمیشن چاہے تو ماضی میں ان کی کار گزاریوں کو معاف کر سکتا ہے ۔
لیکن سب سے اہم بات یہ کہ یہ سہولت صرف ان کے لئے ہو جن کی حیثیت واجبی ہو اور جو کسی اور کی نیابت میں مصروف کار ہوں ۔جماعت الاحرار کے ترجمان کی جانب سے ہتھیار پھینکنے اور ان کے اعترافات کے بعد ساری بحث شروع ہوئی ہے ۔ریاست نے ابھی بحالی کے حوالےسے اپنی پالیسی کے خدو خال وضع کرنے ہیں ۔اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ایک عسکریت پسند کے ہتھیار پھینکنے سے کوئی سلسلہ چل نکلے گا جیسا کہ اگست 2005 میں الجیریا میں امن اور قومی مفاہمت کے چارٹر کے لاگو ہونے کے بعد ہوا تھا ۔تاہم یہ بھی عام معافی نہیں تھی اوراس کا اعلان ریفرنڈم کے نتیجے میں ہوا تھا۔
اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اس معاملے پر بحث و تمیص کرے ۔بصورت دیگر انسداد شدت پسندی اور بحالی کے تصورات کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہے گا ۔
(بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے