نوازشریف الیکشن جیل میں گزاریں گے
آج کی سماعت کی خاص بات یہ ہے کہ جس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نوازشریف کی اپیلوں پرسماعت کررہی تھی ،احتساب عدالت کے جج محمد بشیر احتساب عدالت میں عام مقدمات نبٹارہے تھے۔ وہ آج العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے سلسلے میں جیل نہیں گئے اور نہ ہی انہوں نے آج اپنی عدالت میں نوازشریف کی حاضری کو یقینی بنایا۔ سینیٹر پرویزرشید نے جج کے اس رویے پر تعجب کا اظہار کیاہے۔ جبکہ جج صاحب پہلے ہی نوازشریف کے خلاف دیگر دو مقدمات سے علحیدگی سے متعلق خط لکھ چکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں ان مقدمات سے علیحدہ کردیاجائے یا نہیں۔ کمرہ عدالت میں جج نے صحافیوں کی درخواست پر کہا کہ جیل میں ٹرائل ہونے کی صورت میں صحافیوں کو پاسز جاری کیے جائیں گے۔ زیر لب ایک سیکیورٹی اہلکاربولا یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ شاید اس اہلکار کو معلوم تھا کہ جب اس عدالت کے دروازے صحافیوں پر بند کردیے گئے ہیں تو اڈیالہ جیل کے فولادی دروازے کیسے کھل سکتے ہیں۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا موقف ہے کہ جج نے ایک ریفرنس پر اپنی رائے دے دی ہے اب ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ جج نے پہلے یہ فیصلہ دیا تھا کہ نوازشریف کے خلاف تینوں ریفرنسز پر ایک ساتھ فیصلہ سنایا جائے گا لیکن اس کے بعد جج اپنے کیے گئے وعدے کی ایک نئی تشریح کردی کہ میرا مطلب تھا کہ اگر دفاع میں گواہ لائے گئے تو اس صورت میں ایک ساتھ فیصلہ ہوگا۔ خواجہ حارث نے جج کو کہا جناب دفاع کا مطلب صرف گواہ نہیں ہوتا بلکہ ملزم کا موقف دفاع کہلاتا ہے۔
25 جولائی کے الیکشن سے پہلے اب میدان خالی ہے۔ عمران خان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ نوازشریف ان کے خلاف انتخابی مہم چلاسکتے ہیں نہ ہی مریم نواز اب ان کے لیے خطرہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک دورکنی بنچ نے نوازشریف، مریم نوازاور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی اپیلوں پرنیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت جولائی کے آخری ہفتے یعنی الیکشن تک ملتوی کردی۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو ٹرائل سے متعلق بتایا۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے متعدد سوالات بھی کیے جن کا خواجہ حارث اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے تفصیل سےجواب دیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ chain of evidence is missing in this case? جس پر خواجہ حارث نے کہا جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ نوازشریف کا نام کہیں بھی کسی بھی دستاویز میں آیا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کسی گواہ نے بھی ایسی گواہی نہیں دی۔ پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بھی دوران جرح تسلیم کیا کہ دوران تفتیش یہ ثبوت نہیں ملے کہ بچے نوازشریف کے زیرکفالت رہے۔ سابق وزیراعظم کو اس حوالے سے کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا اورسزا سنادی گئی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےسوال کیا کہ کیا نوازشریف کے معلوم ذرائع عدالتی ریکارڈ پر لائے گئے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سر یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس بارے میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔ یہ بھی پتا نہیں چلایا گیا کہ لندن فلیٹس کی قیمت کتنی ہے اورپھر جب یہ سب معلوم ہی نہیں تو کیسے پتا چلا کہ اثاثے ذرائع آمدن سے متضاد ہیں۔ عدالت نے مریم نواز سے متعلق پوچھا تو خواجہ حارث نے کہا ان کے وکیل امجد پرویز اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ مریم نوازکو بینیفیشل آنر 2012 کے دوخطوط کی بنیاد پر قراردیاجاتا ہے ،لیکن دوران ٹرائل ان خطوط کے متن کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ کیلیبری فونٹ سے متعلق صرف رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ پر انحصار کیا گیاہے۔ ماہر کی رپورٹ ایک کمزورثبوت ہوتا ہے تاہم دوران جرح ریڈلے نے تسلیم کیا کہ اس نے کیلیبری فونٹ خود 2006 سے پہلے ڈاون لوڈ کرکے استعمال کیا۔ اس کے بعدعدالت نے کیپٹن صفدر سے متعلق پوچھا کہ ان کو سزا کیوں دی گئی۔ امجد پرویز نے کہا احتساب عدالت کے 174 صفحات کے فیصلے میں کیپٹن صفدر کو سزادینے کی وجہ صرف ایک لائن میں لکھی گئی ہے۔ ججز نے حیرانگی سے پھر پوچھا just on the basis of uncorroborated testimony یہ دومختلف دفعات کے تحت سزا سنائی گئی؟ وکیل بولے جی سر ایسا ہی ہے۔
آج کی ابتدائی سماعت پر ہی دو رکنی بنچ مطمئن ہوگیا ہے کہ یہ اپیلیں قابل سماعت ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فریق مخالف نیب کو نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں ۔آج ہونے والی ابتدائی سماعت میں عدالت عالیہ کے دونوں ججز بہت تسلی سے ہردرخواست پر غور کرتے،سوالات پوچھتے اور بحث سنتے رہے۔یہ بنچ صرف اس ہفتے کے لیے جس کی وجہ سے ان اپیلوں پر سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کردی گئی۔جس کے بعد یہ چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ نوازشریف اور مریم نواز انتخابی مہم نہیں چلاسکیں گے۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ دوبارہ ان اپیلوں کو سننے کے لیے یہ بنچ تشکیل دیں گے یا پھر کوئی نیا بنچ بنے گا۔ عدالتی تعطیلات کی وجہ سے مزید کچھ ججز اگلے ہفتے سے چھٹی پر چلے جائیں گے۔
فیس بک پر تبصرے