مذہبی سیاست اور سیاست میں مذہب کا استعمال
مذہب ووٹرز کی رائے پر کافی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ کسی امیدوار کے مذہبی یا اخلاقی کردار سے لے کر نظامِ شریعت کے نفاذ کی خواہش تک، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جہاں مذہبی سیاسی جماعتیں ووٹرز کی مذہبی حساسیت کے اطمینان کے لیے اپنے مذہبی ایجنڈے اورساکھ کو نمایاں رکھتی ہیں وہاں دیگر سیاسی جماعتیں اپنے منشورکو مذہبی رنگ دینے یا کم از کم اہم معاملات پر رائج مذہبی نقطہِ نظر کی مخالف سمت کھڑی نہیں ہوتیں۔
سو مذہب محض پاکستانی ووٹرز کی اکثریت کی رائے کی تعیین تک محدود ہے۔ اگر مذہب عوام کی اولیں ترجیح ہوتا تو مذہبی سیاسی جماعتیں ان کا پہلا انتخاب ہوتیں۔ لیکن پاکستانی انتخابات کی تاریخ بتا تی ہے کہ یہ جماعتیں قابلِ ذکر حد تک عوام کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔تاہم مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لیے وسیع ایجنڈا ہوتا ہے جو اتنا ہی مذہبی ہوتا ہے جتنا ان کے انتخاب دہندگان تقاضا کرتے ہیں۔
ہاں البتہ ان جماعتوں کے منشور میں مذہبی اثرات کی حد کسی بھی جماعت کے سیاسی میلان کی عکاسی ضرور کرتی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں قومی سیاسی جماعتوں کا جھکاؤ دائیں جانب یا پھر معتدل نظریات کی طرف رہا ہے ،ماسوائے 1990 اور 2008 کے پیپلز پارٹی کے ادوار میں، جہاں یہ رجحان قدرے بائیں طرف جھکتا دکھائی دیا ہے۔دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی نمود ووٹرز کو دائیں طرف یا اعتدال کی جانب دھکیل رہی ہے۔
انتہائی دائیں بازو سے دائیں بازو کے رجحانات کی دعویدار روایتی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں، دائیں سے اعتدال پسند پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف جبکہ اعتدال پسند سے بائیں بازو کا دعویٰ پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام عام انتخابات میں یہ جماعتیں کچھ استثناء کے ساتھ اسی پہچان کے ساتھ باہم اتحاد بناتی اور ایک دوسرے کی حمایت کرتی آئی ہیں۔ کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ 2018 میں بھی حالات یہی رہیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کے سبب ایک نئی بحث کی تشکیل سے اعتدال پسند سیاست اس وقت تیزی سے بدلتی نظر آرہی ہے۔دوسری جانب ریاست کی انسداد دہشت گردی کے لائحہِ عمل کے نتیجے میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں میں نئے عناصر داخل ہو چکے ہیں۔ان میں سے چندقومی دھارے میں واپس لانے اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مبینہ حکمتِ عملی کے تحت سامنے لائے جارہے ہیں جبکہ دیگر عسکریت پسند گروہوں کے پیدا شدہ خلا کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں جوبالکل اسی طرح بنیاد پرستانہ رجحانات اور سماج میں موجود مذہبی و فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے کی روش پر انحصار کرتے ہیں۔
ان انتہائی دائیں بازو کے عناصر میں تحریکِ لبیک یا رسول اللہ، ملی مسلم لیگ( جو اللہ اکبر تحریک کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے) اور اہلِ سنت والجماعت، سنی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین جیسے پرانے فرقہ وارانہ گروہ شامل ہیں۔بیشتر چھوٹے گروہ بھی اس دائرے میں شامل ہیں۔ان میں سے بیشتر عناصر بگاڑ پیدا کرتے نظر آتے ہیں، مثلاً یہ مرکزی سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کچھ حلقوں میں انتخابی نتائج پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔انتہائی دائیں بازو کے ان عناصر نے جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق) اور جمعیت علمائے پاکستان کے دھڑوں جیسی چھوٹی مذہبی جماعتوں کے سیاسی جوڑ توڑ کے امکانات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔
جہاں تک سیاست کے ذریعے ملی مسلم لیگ اور اہلسنت والجماعت کی قومی دھارے میں واپسی کی بات ہے تو یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد کالعدم گروہ دباؤ کا شکار ہو گئے تھےلیکن انتخابی عمل میں ان کی شمولیت نے انہیں ایک نئی زندگی دے دی ہے۔مثال کے طور پر اس عمل کو ملی مسلم لیگ اندرونی و بیرونی، ہر دو سطح پر اپنا نرم تاثر پیش کرنے کے موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ مذکورہ جماعت نے 13 خواتین کو اپنے ٹکٹس دیے ہیں اور اقلیتوں کو ساتھ ملا کر اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ جہاں تک اہلِ سنت والجماعت کا تعلق ہے ، یہ جماعت پاکستان راہِ حق پارٹی کے پلیٹ فارم سے جبکہ اس کے سربراہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہےہیں اور اپنی کھوئی ہوئی جگہ واپس حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ ان کا انتخابات میں حصہ لینا کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اسے انتہا پسندی سے واپسی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی مذہبی سیاسی جماعتیں متحدہ مجلسِ عمل کے نام سے دوبارہ متحد ہوئی ہیں اور وہ ایک طرف اپنے آپ کو انتہا ئی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش میں ہیں تو دوسری جانب وہ ملک میں موجود لبرل اور سیکولر قوتوں کی راہ میں اپنے آپ کو واحد رکاوٹ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں اپنے قدامت پسند ووٹ بنک کو محفوظ کرنے اوراپنی سیاسی حریف مرکزی سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ ایک سیاسی حربہ ہے۔تاہم متحدہ مجلسِ عمل آئندہ حکومت میں شراکت پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جو اس اتحادکے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عملیت پسندی کے فن پر دسترس کا مظہر ہے۔
2013 کے انتخابات میں معتدل دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں (بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف) تحریکِ طالبان پاکستان کے بارے فکر مند تھیں اور دونوں نے اپنی انتخابی مہمات میں اس گروہ سے امن مذاکرات شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس موقف نے ان جماعتوں کو ملک بھر میں بلا خوف و خطر اپنی انتخابی مہم چلانے کی آزادی فراہم کیے رکھی۔ دوسری جانب عسکریت پسندوں کے خلاف بر سرِ پیکار پیپلز پارٹی اور اے این پی پر طالبان کی جانب سے خوفناک حملے کیے گئے۔ تاہم 2018 کے انتخابات میں مرکزی سیاسی جماعتوں کو تحریکِ لبیک پاکستان سے معاملہ درپیش ہے۔ پاکستان کی مرکزی جماعتوں کی جانب سے مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے ، تاہم عمران خان میں حالیہ روحانی تغیرات سیاسی حوالے سے سود مند ہو سکتے ہیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کو ووٹ بینک کے ٹوٹنےکا اندازہ ہے اور ایک روحانی طور پر بدلا ہوا شخص اپنے ووٹ کو ٹوٹنے سے بچا کر اپنی جماعت کی جانب کھینچ لا سکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) حالیہ انتخابات میں مختلف انتخابی منشور کے ساتھ سامنے آئی ہے جو دو نکاتی بیانیے پر مشتمل ہے، اولاً اسٹیبلشمنٹ مخالف اور ثانیاً ترقی۔ مذہبی بنیادوں پر مسلم لیگ متحدہ مجلسِ عمل کو اپنے حلیف کے طور پر دیکھ رہی ہے مگر ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی جماعت کی بجائے نسبتاً زیادہ معتدل جماعت کے طور پر پنپ رہی ہے۔
اگرچہ سیاسی جماعتیں مذہب اور مذہبی عوامل کو اپنی انتخابی کامیابی کے لیے استعمال کررہی ہیں تاہم صرف چند ایک ایسی ہیں جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔ کسی ایک جماعت نے بھی انتہا پسندی سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پیش نہیں کی۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں دو انتخابی امیدواروں سمیت 170 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبروں سے اس بات کا پتہ ملتا ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کا خطرہ باقی ہے۔ اس اہم ترین مسئلے پر خاموشی سے محض انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور ان کے ایجنڈوں کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر ہوگا۔
ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان
فیس بک پر تبصرے