ایفی ڈرین کیس فیصلہ: راولپنڈی اور اسلام آباد کی سیاست پر اثرات

1,054

راولپنڈی اور اسلام اآباد کو جڑواں شہر بھی کہا جاتا ہے،یہ  دونوں شہر نہ صرف جغرافیائی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی سول حکومت  کے وفاقی ہیڈ کوارٹر اور عسکری قیادت کے جنرل  ہیڈکواٹرز بھی انہیں جڑواں شہروں میں  ہیں  جس کی وجہ سے  یہ دونوں شہر ملکی سیاست پر بھی یکساں اثرانداز ہوتے ہیں۔

2018 کے عام انتخابات میں صرف تین دن باقی ہیں اور ہر پارٹی  اپنی بھرپور توانائی  انتخابی مہم پر صرف کر رہی ہے تاکہ طاقت کے مراکز ان  دو شہروں    میں زیادہ سے زیادہ جگہ  حاصل کی جا سکے،نئی حلقہ بندیوں کے بعد  جڑواں شہروں میں   انتخابی حلقوں کی تعداد  دس  ہو گئی تھی ۔اسلام آباد کے اہم حلقوں میں53،54،جبکہ راولپنڈی  کے حلقہ59،63 اور60،62 انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور یہاں کانٹے کے مقابلوں کی توقع ہے۔اسلام آباد کا سب سے اہم حلقہ این اے53 ہے جہاں سے  چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے علاوہ   تین بڑی پارٹیوں کے سرکردہ رہنما بھی میدان میں ہیں، جن میں  تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما میاں اسلم  مدمقابل ہیں۔گزشتہ انتخابات میں یہ سیٹ پی ٹی آئی نے جیتی تھی اور اس مرتبہ خود پی ٹی آئی  سربراہ یہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس لیے توقع تھی کہ یہاں پی ٹی آئی  کو اچھا رسپانس ملے گا لیکن اس حلقے سے مستقبل کا سیاسی نقشہ    پی ٹی آئی  کے حق میں   بنتا دکھائی نہیں دیتا،جس کی ایک وجہ  تو سیاسی مہم  میں  دوسرے شہروں کی طرح جوش و خروش کا فقدان ہے،دوسری وجہ   گذشتہ انتخابات میں  عمران خان کا راولپنڈی میں حنیف عباسی کے حلقے سے فتح یاب  ہو کر  حلقے کی طرف دوبارہ مڑ کر نہ دیکھنا ہے جبکہ تیسری وجہ یہ ہے کہ  پی ٹی آئی کے سربراہ  پانچ مختلف حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں سے   انہیں ایک حلقہ  کے سوا باقی تمام حلقے چھوڑنا ہوں گے۔ اس لیے اسلام آباد کا ووٹر   ان کی بجائے میاں اسلم کو ترجیح  دے گا جو ہمیشہ ان میں موجود رہتے ہیں۔اس کے برعکس ن لیگی  کارنر میٹنگز اور جلوسوں میں بڑا جذباتی عنصر دکھائی دیتا ہے اور  شاہد خاقان عباسی کی پوزیشن انتہائی مستحکم   نظر آ رہی ہے جس کی وجہ   حلقے   میں نوازشریف  بیانیے کی عوامی مقبولیت ہے ،حنیف عباسی کی نااہلی کے بعد  اس حلقے  کے لیگی ووٹر میں پہلے سے زیادہ جوش خروش  نظر آنے لگا ہے۔تیسرے  اہم امیدوار ایم ایم اے کے میاں اسلم ہیں جو این اے54 سے بھی  میدان میں ہیں،انہوں نے ن لیگ کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ  کی پیشکش بھی کی تھی  لیکن   ن لیگ  نے  اپنی  مضبوط پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اس پیشکش کو درخوراعتنا نہیں سمجھا،اگر یہ ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی تو    یہ   دونوں سیٹیں  یقینی طور پر ن لیگ اور ایم ایم اے کے پاس آ جاتیں۔

این اے54 میں  میاں اسلم کے مقابلے میں تحریک انصاف کے اسد عمر  ہیں  جبکہ مسلم لیگ(ن) کے انجم عقیل بھی اسی حلقے سے میدان میں  ہیں،مقامی لیگی قیادت میں اختلافات  اور انجم  عقیل  کے رشتہ دار  زبیر فاروق جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے ن لیگ کی پوزیشن کو انتہائی کمزور کر دیا ہے اور اصل مقابلہ اسد عمر اور میاں اسلم کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔میاں اسلم  بھی عمران خان اور شاہد خاقان والے حلقے کی بنسبت  اس حلقے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ  این اے 53 کی بنسبت   یہ سیٹ   حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

اسلام آباد کا تیسرا حلقہ این اے 52 ہے  جہاں سے مسلم لیگ(ن) کے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز ہیں،طارق فضل کو  یہ مشکل درپیش ہے کہ نئی حلقہ بندی سے ان کے بہت سے پکے ووٹرز  دوسرے حلقے میں چلے گئے ہیں اور  کچھ لیگی ووٹرز ان سے ناراض بھی ہیں، جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچے گا اور  دونوں  امیدواروں میں  سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ البتہ   ایفی ڈرین  کیس کے فیصلے  سے اس حلقے کا ناراض لیگی رکن  بھی  طارق فضل کے کیمپ میں جا سکتا ہے جس   سے ظاہر ہے کہ  پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔

این اے57  مری ،کہوٹہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا آبائی حلقہ ہے جہاں سے انہیں پی ٹی آئی  کے صداقت علی عباسی  کی طرف سے ٹف ٹائم کا سامنا ہے،دونوں امیدواروں کی فتح اور شکست میں   ناراض لیگی ارکان  کا کردار اہم ہو گا، تازہ  عدالتی فیصلے نے کافی حد تک لیگی کارکنان کو یکسو کر دیا ہے کہ وہ  تمام اختلافات بھلا کر اپنے قائد میاں نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑے  ہو جائیں۔

این  اے58 گوجرخان میں  ن لیگ کے جاوید اخلاص کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے  امیدوار اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے ہے۔تحریک انصاف کے امیدوار بھی  میدان میں ہیں تاہم اس حلقے میں پیپلز پارٹی  کا ووٹر اپنے رہنما کے ساتھ کھڑا ہے، اس لیے پی ٹی آئی  مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔

این اے59  میں چوہدری نثار علی خان کے ن لیگ سے اختلافات سامنے  آنے کے بعد دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے  ،وہ خود جیپ کے نشان سے ٓزاد حیثیت  میں الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے سرور خان اور ن لیگ کے قمر الاسلام ہیں جن کی گرفتاری کے بعد ان کے نوعمر بیٹے سالار اسلام   الیکشن مہم چلا رہے ہیں،تحریک انصاف کا ووٹر اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ ن لیگ کا ووٹر دوحصوں میں تقسیم ہوا ہے، ایک چوہدری نثار کا ذاتی ووٹ بینک اور دوسرا  انتخابی نشان شیر کا ووٹر،اس طرح  اس حلقے میں  تحریک انصاف  بہتر پوزیشن میں ہے ۔ تاہم سیاسی مبصرین  یہاں سے چوہدری نثار کی فتح کی پیش گوئی کر رہے ہیں،اگر یہ پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے تو چوہدری نثار کی فتح میں  ان کےطلسماتی انتخابی نشان جیپ  کا کردار اہم ہو گا۔

این اے 60 اور62  عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے حلقے ہیں جہاں سے انہیں بالترتیب  ن لیگ کے حنیف عباسی اور بیرسٹر دانیال کا سامنا تھا،حنیف عباسی   کی پوزیشن انتہائی مستحکم تھی  لیکن ان کی بدقسمتی کہ  الیکشن سے صرف تین روز قبل ایٖفی ڈرین  کیس کا فیصلہ  ان کے خلا ف آگیا جس میں  انہیں عمر قید  کی سزا  کے ساتھ ساتھ انتخابات کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح  شیخ رشید کے لیے یہ میدان خالی ہو گیا ہے،ہو سکتا ہے کہ ن لیگ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے مختار عباس کے ساتھ کھڑی ہو جائے  اور اینٹی شیخ رشید   کارڈ استعمال کر ے لیکن اس کے امکانات کم ہیں اور لیگی ووٹر گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا۔یوں  اس عدالتی فیصلے سے شیخ رشید کے لیے بلامقابلہ اسمبلی  میں پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔البتہ این اے62 میں  ان کے مدمقابل  ن لیگ کے مضبوط امیدوار بیرسٹردانیال چوہدری   ہیں۔یہاں بھی  مقامی لیگی قیادت دو حصوں میں منقسم نظر آئی اور ضیاءاللہ شاہ کو پی پی18 سے ٹکٹ نہ ملنے پر  ایک بڑی تعداد میں لیگی کارکنان  نے احتجاج کیا لیکن مذکورہ عدالتی فیصلے میں  ضیاءاللہ شاہ  بھی حنیف عباسی کے ساتھ کھڑے نظر آئے  ہیں جس سے   یہ  واضح ہو رہا ہے کہ  اس حلقے کا  ناراض لیگی ووٹر بھی  اپنے انتخابی نشان  شیر پر ہی مہر لگائے گا۔ اس طرح اس فیصلے نے این اے 62 میں شیخ رشید کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔

این اے  61 میں ن لیگ کے ملک ابرار،پیپلز پارٹی کے گلزار اعوان اور تحریک انصاف  کے عامر محمود کیانی  کے درمیان  ٹاکرا ہے۔2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف  آٹھ ہزار کے ووٹ سے یہ سیٹ ہار گئی تھی،اگر ان کے امیدوار  ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے تحریک لبیک میں نہ چلے جاتے تو اس دفعہ  تحریک انصاف کو یہاں سے بہتر رزلٹ ملتا،لیکن ٹکٹ پر ہونے والے اختلافات نے یہاں سے پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور کر دی ہے۔

ضلع راولپنڈی کا آخری حلقہ  این اے 63 ہے جوکہ واہ کینٹ اور ٹیکسلا کے علاقے پر مشتمل ہے،یہاں   پر اصل  مقابلہ  چوہدری نثار اور سرور خان  کے درمیان ہے اور مسلم لیگ ایک کمزور امیدوار کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔یہاں   سے بھی سخت مقابلے کا امکان ہے  تاہم  تحریک انصاف کے سرور خان  کا پلڑا  نسبتاً بھاری بتایا جاتا ہے۔مجموعی طور پر راولپنڈی اور اسلام  آباد کے ان دس حلقوں میں سے دو   دو حلقوں پر مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف  اچھی پوزیشن میں ہیں جبکہ ایک ایک  حلقے سے ایم ایم اے اور پی پی پی مقابلے کی پوزیشن میں ہیں اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ  حنیف عباسی کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد کافی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ ایفی ڈرین   کیس کا فیصلہ  مسلم لیگ(ن) کے امیدوار حنیف عباسی  کے خلاف  آنے کے بعد   حلقے کے عوام میں  نوازشریف کے  بیانیے کی مقبولیت  میں اضافہ ہونے کا امکان  ہے، جس کا براہ راست  اثر  ان تین حلقوں پر پڑے گا جہاں سے  مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم  ملنے کی توقع  تھی ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...