الیکشن نتائج میں کیا خامیاں واقع ہوتی ہیں

1,169

1970 سے اب تک انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب وز یراعظم پاکستا ن اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔ الیکشن کمشنر غیر جانب دار ہوتا ہے۔اس پر فرض ہے کہ وہ کسی ایک شخص ، پارٹی یا قائد کی جانبداری نہ کرےلیکن ہمارے انتخابی عمل میں بہت سی مشکلات اور بے ضابطگیاں  پائی جاتی ہیں۔پاکستان میں انتخابات کے نتائج کے تین طریقے ہیں۔  ایک پرائیویٹ ، دوسرا گورنمنٹ اور تیسرا میڈیا کے توسط سے۔ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والے نتائج کی گنتی میں  فرق ہوتا ہے اور یہ صورتحال عوام میں الجھن اور تذبذب کا سبب بنتی ہے۔ہمارے پاس دوسرے ممالک کی طرح جدید ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ انڈیا میں گزشتہ الیکشن پراسس 36دنوں کا رہاتو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 1دن میں انتخابی نتائج درست اور بغیر کسی دھاندلی کے موصول ہونگے۔ ہم 9گھنٹوں میں چار صوبوں کی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے272 حلقوں کے “شفاف” نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چاہے ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، ہم پاکستان میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کروا سکتے۔ پہلے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں الیکشن کا عمل الیکشن کمیشن سے شروع ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن کا انتخاب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں اور یہ دونوں چونکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ تویہ صرف وہ شخص منتخب کرتے ہیں جو انکو “سُوٹ” کرتا ہے اور یہ الیکشن پراسس کی شفافیت پر سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔الیکشن کمیشن کے باقی چار ارکان کا فیصلہ چار صوبائی حکومتیں کرتی ہیں اور یہ حکومتیں چونکہ خود الیکشن کا حصہ ہوتی ہیں ، تو یہ غیر جانبدار لوگوں کا انتخاب کیسے کریں گی۔
اب بات کرتے ہیں ریٹرننگ آفیسرز کی ،جس پر الیکشن والے دن کی تمام تر عملی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ ریٹرننگ آفیسرز ایڈیشنل سیشن جج ہوتے ہیں۔یہ قانون کے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں، ریاست انکو ساری زندگی وکلاء کی بحث سننے اور قانون پڑھنے اور فیصلے کرنے کی ٹریننگ دیتی ہے،تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ یہ صرف الیکشن کے دن کورٹ روم سے نکلیں گے ، الیکشن آفس میں بیٹھیں گے اور آزاد، شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن کرواکر واپس کورٹ روم چلے جائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ ہم نے انہیں ایک اہم کام کی برائے نام ٹریننگ ہی نہیں دی۔ تو ہم ان سے بہتر اور شفاف نتائج برآمد کرنے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔ریٹرننگ آفیسرز کے بعد ، اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز آتے ہیں  جو کہ سول جج، اسسٹنٹ کمشنر اور ایجوکیشن آفیسرز ہوتے ہیں۔ ان کے نیچے پریذائڈنگ اور اسسٹنٹ پریذائڈنگ آفیسرز آتے ہیں ، انکا تعلق محکمہ تعلیم سے ہوتا ہے۔ انکا کام تعلیم و تربیت کرنا ہے تو یہ کیسے اچانک اُٹھ کر ایک دن ایسا نظام سنبھالنے چل پڑتے ہیں، جس کی ان کو تربیت ہی نہیں دی گئی ، یا جس کے حوالے سے انہوں نے کبھی کوئی امتحان پاس ہی نہیں کیا۔تو اب تک کی گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن کے نظام میں جوبڑے مسئلے ہیں ، ایک  عملہ غیر جانبدار نہیں ہوتا، دوسرا نتائج کے اعلان کا کوئی باضابطہ نظام نہیں، اور تیسرا عملہ باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ نہیں۔اس قسم کی بد انتظامی اور افراتفری کے ماحول سے نکل کر جب الیکشن نتائج سامنے آتے ہیں تو وہ کسی الیکشن ٹریبونل  کا قیام ہوتا ہے۔ الیکشن ٹریبونل  کے فیصلے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کتنے ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی،کتنے  شناختی کارڈ نمبر غلط تھے،کتنی  کاؤنٹر فائلز پہ مہر نہیں لگی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بتانا الیکشن ٹریبیونل کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ان مشکوک ووٹوں میں سے کتنے کس امیدوار کوکاسٹ ہوئے۔ مثلاًگر کسی حلقے کے جن 30,000ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی، تو کیا وہ سارے کے سارے کسی ایک امید وار کو کاسٹ ہوئے یا اس سمیت تمام امیدواروں کے تھیلے سے نکلے؟ اگر ان تمام مشکوک ووٹوں کا تعلق کسی جیتنے والے امیدوار سے ہو، تو اسکا مطلب اس نے دھاندلی کی، لیکن اگر یہ بے ضابطگی سب کے حصے میں آئی، تو عملہ قصور وار ہے۔ اگر اس پر تفصیلی بات کی جائے تو ایسی کئی مثالیں سامنے آئیں گی ،جو ہمارے انتخابی نظام کوناکام ثابت کرتی ہیں ۔چونکہ ہمارے انتخابی نظام کی یہ خرابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ 1970سے 2013تک ہر انتخاب کے بعد انہی خرابیوں اور ان کی وجہ سے سامنے آنے والے بوگس نتائج پر بحث ہوتی ہے۔ لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کی بہتری پر توجہ دی جائے ،کوئی بہترین اور جدید نظام ترتیب دیا جائے۔ ورنہ کسی نہ کسی امیدوار کے الیکشن جیتنے ، اپنے عہدے منصب سے تمام مراعات سے لطف اندوز ہونے کے2،3 سال بعد پتہ چلتا رہے گا کہ یہ شخص تو نا اہل تھا۔ یہ عہدہ جو انتخابات جیتنے کے بعد اس کو حاصل ہو ا ،وہ تو اسکا تھا ہی نہیں اور اسکا حق دار تو اصل میں کوئی اور تھا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...