کالعدم جماعتیں ، نئی حکومت اور سپریم کورٹ

980

حکومت کالعدم جماعتوں سے وابستہ افراد کو گرفتار کرتی ہے ، ان کا نام شیڈول فور میں شامل کر کے ان کے شناختی کارڈز کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ ان کے بینک اکاؤنٹس سیل کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ پولیس مقابلوں میں ان جماعتوں سے وابستہ افراد کے مارے جانے کی خبروں کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ قوم کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ریاست اب  ملک میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف انتہائی سخت اور سنجیدہ اقدامات کرنے جا رہی ہے ۔ پوری قوم  ان جماعتوں سے وابستہ افراد کو بری نظر سے دیکھتی ہے ۔ لوگ ان سے قطع تعلق کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان کے اپنے بیگانے بن جاتے ہیں ۔

میڈیا سے کہا جاتا ہے کہ یہ کالعدم جماعتیں ہیں ۔ ان کا موقف ٹی وی پر نہیں چلایا جا سکتا ۔ انہیں کسی پروگرام میں نہیں بلا یا جا سکتا ۔ اگر کبھی دباؤ کے تحت یا غلطی سے کوئی چینل ایسا کر بیٹھے تو پیمرا کی جانب سے فورا نوٹس آجاتا ہے اور چینل کی انتظامیہ صفائیاں دینا شروع ہو جاتی ہے ۔ اگر کبھی کوئی اینکر یا صحافی ان کالعدم جماعتوں کے بارے میں کچھ کہہ دے یا لکھ بیٹھے تو یہ پھر اس کے سوا کیا چارہ ہے آپ معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کریں . ایک دن اچانک پتا چلتا ہے کہ انہی کالعدم جماعتوں سے وابستہ افراد اور رہ نماؤں کا نام شیڈول فور سے نکال دیا جاتا ہے ۔ ان کے منجمد اثاثے بحال کر دیے جاتے ہیں ۔ انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی جاتی ہے ۔ عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات ختم ہونے لگتے ہیں یا کچھ مقدمات کو اس لیے چھیڑا نہیں جاتا تاکہ بعد میں ضرورت کے وقت دوبارہ “استعمال” میں لایا جا سکے ۔ انتخابی مہم کے ساتھ ہی پورے ملک میں جلسے جلوس شروع ہو جاتے ہیں ۔ نعروں اور تقاریر کا سلسلہ بھی پھر شروع ہو جاتا ہے ۔ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں ۔ جو پولیس ان کے گھروں پر چھاپے مارتی تھی ، وہی ان کو پروٹوکول دے رہی ہوتی ہے ۔ نوجوان طبقہ ان کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتا ہے ۔ ان کی تقاریر سنتا ہے اور متاثر ہوتا ہے ۔ ان کے بڑے بڑے جلسے ہو تے ہیں ۔ سیکڑوں افراد ان جلسوں میں شریک ہوتے ہیں ۔ میڈیا انتخابات کے لحاظ سے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے جلسوں کی کوریج کرتا ہے تاہم ان کالعدم جماعتوں کی کوریج نہیں کی جاتی ۔ میڈیا پر کوریج نہ ہونے کی وجہ سے یہ جماعتیں میڈیا کے خلاف احتجاج کرتی ہیں ۔ میڈیا کو یہودی لابی کا حصہ اور دجالی میڈیا کہا جاتا ہے ۔ کالم نگاروں کو دھمکیاں ملتی ہیں ۔ اینکرز کے فون نمبرز پورے ملک میں کالعدم جماعتیں اپنے کارکنان میں شئیر کر دیتی ہیں ۔ اینکرز کو کالز کر کے دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ واٹس ایپ پر گالم گلوچ کی جاتی ہے ۔ میسج پڑھو تو دنیا کا سب سے بڑا شیطان ثابت کرنے کی کوشش اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہوتی ہے ۔ مجبورا میڈیا کو بلیک میل کر کے کوریج حاصل کی جاتی ہے ۔ میڈیا کے اندر بھی ان فرقہ پرست جماعتوں کے پیروکار موجود ہوتے ہیں ۔ کئی فرقہ وارانہ جماعتوں کے سرکردہ لوگ بھی ان نشریاتی اداروں میں کام کرتے ہیں ۔ یہ ماضی میں انہی فرقہ پرست جماعتوں میں میڈیا سے متعلق اہم عہدوں پر کام کرتے رہے ۔ یہ خبروں کی اینگلنگ اپنے فرقہ وارانہ مزاج کے مطابق کرتے ہیں ۔ یہ اینکر ہوں تو اپنے مخصوص اسٹائل میں مخالفین پر برہم ہوتے ہیں . یہ پروڈیوسر ہوں تو مہمانوں کا انتخاب بھی بڑے “خاص اہتمام” سے کرتے ہیں ۔ یہ کیمرا مین ہوں تو شاٹس بناتے وقت اپنی کارروائی ڈال جاتے ہیں ۔ حیران کن طور پر میڈیا کے کسی ادارے میں اس بات کا اہتمام نہیں ہوتا کہ ایسے افراد پر ان کے کام کے حوالے سے نظر رکھی جائے یا ان کی تربیت کی جائے ۔ یوں میڈیا معاشرے میں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ مخاصمت کے خاتمے کے بجائے مزید انتشار کا سبب بنتا ہے ۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مذہب لوگوں کا ذاتی اور حساس مسئلہ ہے، لوگ مذہبی معاملات میں حد سے بڑھ کر حساسیت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں اور اپنی فرقہ ورانہ  شناخت کے لحاظ سے فکر مند ہو گئے ہیں اس لیے متنازعہ مذہبی موضوعات کو میڈیا سے دور ہی رکھنا چاہیے ۔ البتہ مذہب اور سماج سے متعلق گفتگو شاید معاشرے میں بہتری کے لیے کچھ کردار ادا کر سکے۔ میں بات کر رہا تھا کہ کیسے کالعدم جماعتوں کو خاموشی سے دوبارہ متحرک کر دیا گیا ہے ۔ اس سے بڑھ کر زیادہ حیرانی والی بات یہ ہے کہ لوگ ان جماعتوں کو ووٹ بھی دے دیتے ہیں اور کچھ حلقوں میں ان جماعتوں سے وابستہ افراد جیت بھی جاتے ہیں ۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ان جماعتوں کا حلقہ اثر معاشرے میں موجود ہے ۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کے خلاف پارلیمان میں قانون سازی کرنے والےہی حکومت سازی کے لیے ان سے ووٹ مانگنے بھی سر عام چلے جاتے ہیں ۔2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 18 قومی اسمبلی کے حلقوں میں اہلسنت والجماعت (سپاہ صحابہ ) سے اتحاد کیا ۔ حالیہ کشمیر کے الیکشن میں تحریک انصاف نے سپاہ صحابہ سے اتحاد کیا ۔ مسلم لیگ ن کے کئی امیدواروں نے سپاہ صحابہ کے ساتھ اتحاد کیا ۔اب تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لوگ کالعدم جماعتوں سے حکومت سازی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں ۔

پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور تحریک انصاف کے وفد کے ساتھ جھنگ میں علامہ معاویہ اعظم اور  محمد احمد لدھیانوی سے ملے اور ان سے تحریک انصاف کے لیےحکومت سازی میں تعاون طلب کیا ۔ معاویہ اعظم سابق رکن قومی اسمبلی اور سپاہ صحابہ کے مقتول رہ نما مولانا اعظم طارق کے بیٹے ہیں ۔ وہ اس بار حلقہ پی پی 126 سے بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیتے ہیں ۔ اگلے روز پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناٗ اللہ بھی  جھنگ میں ان دونوں  سے ملے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے تعاون طلب کیا ۔ ایک سابق گورنر اور ایک سابق وزیر قانون کا ایک کالعدم جماعت سے حکومت سازی کے لیے ووٹ مانگنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔  دو روز قبل اسلام آباد میں ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم کی رہائش گاہ پر آل پارٹیز کا نفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاست کی اہم شخصیات موجود تھیں ۔ ان شخصیات میں کالعدم تحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی بھی موجود تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایم ایم اے کو بطور جماعت کیسے رجسٹرڈ کیا جس میں ایک کالعدم جماعت شامل ہے .  اسی طرح کالعدم جماعتوں سے وابستہ افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کیسے دی گئی ۔ کیا وزارت داخلہ کی جان سے کوئی ایسا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے کہ ان کالعدم جماعتوں کو بحال کر دیا گیا ہے ؟۔

عالمی میڈیا نے کالعدم اور زیرنگرانی جماعتوں سے وابستہ افراد کے انتخابات میں حصہ لینے کے عمل کو نمایاں طور پر خبروں میں شائع کیا ہے۔ کیا ریاستیں اس طرز کے سنگین اور غیر سنجیدہ رویوں کی متحمل ہو سکتی ہیں ۔ پاکستان کانام پہلے ہی فئنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ہے اور ہمیں چھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ ان جماعتوں کے رہ نما کہتے ہیں کہ ان پر پابندی مشرف دور میں عالمی دباؤ کی وجہ سے لگائی گئی تھی اور انہوں نے اس پابندی کو عدالتوں میں چیلنج کر رکھا ہے ۔ ان جماعتوں کے رہ نماؤں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف کافی مواد اور قتل و قتال کے الزامات بھی ہیں ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اتنی مہربانیاں فرما رہے ہیں تو لگے ہاتھوں اس مسئلے پر بھی ایک از خود نوٹس لے کر قوم کو شکریے کا موقع فراہم کریں ۔

اسلام آباد میں گذشتہ برس پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں لانے سے متعلق اہم اجلاس ہوا . اس اجلاس میں سیکورٹی سے متعلق اہم شخصیات نے یہ تجویز دی تھی کہ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے فریم ورک بنانے کا اور فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار پارلیمان کے پاس ہے۔ شاید گذشتہ پارلیمان کے نزدیک یہ ایشو اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا کہ اس پر بحث کی جاتی تاہم نئی پارلیمان کو فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے . پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام ہونے سے بچانے اور قوم کو مزید کنفیوژ کرنے سے بہتر ہے کہ ان جماعتوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائےاور جلد کیا جائے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...