روح ِ عصر فگار ہے

941

ہماری افغان پالیسی کیا ہے ؟ میں کبھی سمجھ نہیں سکا لیکن یار دوست کہتے ہیں کہ ہماری افغان پالیسی ہے ہی نہیں اصل میں ہماری انڈیاکی پالیسی ہے جو انڈیا کا دوست ہو وہ ہمارا دشمن ہوتا ہے ۔اس لئے ہم افغانیوں کو دشمن سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے

کبھی ایک سرحد  ،کبھی دوسری  اور کبھی تیسری سرحد ،جس طرف دیکھیں معاملات حد سے نکلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک روز لائن آف کنٹرول خبروں میں رہتی ہے ۔فائرنگ اُدھر سے ہو یا اِدھر سے  گولیاں بھی چلتی ہیں اور لاشیں بھی گرتی ہیں ۔ڈیورنڈ لائن کےاُس پارسے طالبان اور اتحادی افواج پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بناتے رہے اب افغان فورسز  نے بھی گولہ بارہ شروع کر دی ہے ۔ ایران کی سرحد پر بھی حالات کشیدہ ہیں ۔اِس جانب سے فائرنگ ہو تو الزام جنداللہ پر اُدھر سے ہو تو پاسداران ِ انقلاب ذمہ دار ، خاموش صرف دو سرحدیں ہیں ایک جانب نیلگوں سمندر جس میں کبھی طغیانی بھی نہیں آئی اور دوسری جانب ہمالیہ کے پار چین ، جہاں سے تاحال ہماری دوستی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے ۔

انسان کے ہمسائے اگر اچھے نہ ہوں تووہ خود کو بدقسمت سمجھتا ہے ۔باپ دادا کی زمین چھوڑی نہیں جاتی ا س لئے ہمسایوں کے ساتھ  کو ئی چپقلش ہو جائے اور نوبت تھانے کچہریوں تک جا پہنچے تو پھر پہلے زمینیں رہن رکھی جاتی ہیں اور اگر معاملات تصفیئے تک نہ پہنچیں تو پھرزمینیں بکنے لگتی ہیں ۔بندہ کنگال ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے کھیت کھلیانوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے شہر چلاجاتا ہے جہاں باقی زندگی وہ مزدوری کرتے گمنامی کی زندگی گزار دیتا ہے ۔

لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوتا ۔بلکہ ایک مسلسل عمل ہوتا ہے جس کے دوران کئی لوگ بیچ بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں  ۔فریقین کوسمجھایا جاتا ہے کہ کیوں اپنے اجداد کی زمینوں کو پولیس اور وکیلوں کی فیسوں میں اڑاتے ہو ؟ کسی پنچائیت میں معاملات حل کرواور زندگی گزارو۔لیکن جن کو سمجھنا نہیں ہوتا ان کے ساتھ سب کچھ ہو کر رہتا ہے ۔

اور پھر میں سوچتا ہوں کہ ہم بھی شاید انہی حالات سے دوچار ہیں ۔ مشرق کی طرف ہمارا وہ ہمسایہ جس کے ساتھ ہمارے صحن اور ہمارا رہن سہن سانجھا تھا لیکن تقسیم کے بعد کشمیر وجہ تنازعہ بن گیا ۔ہم نے تین جنگیں لڑیں ۔آدھا ملک گنوایا ۔جنگیں کوئی  مسئلہ تو حل نہیں کر سکیں البتہ کشمیر جو اقوام متحدہ میں ایک حل طلب مسئلے پر موجود تھا اسے  شملہ معاہدے کے تحت  دو طرفہ مسئلہ قرار دلوا بیٹھے ۔اب اس میں  امریکہ مداخلت کرے چین ،سعودی عرب یا ترکی ،اُدھر سے جواب آتا ہے کہ یہ ہمارا دوطرفہ مسئلہ ہے اور ہم اسے دوطرفہ طریقے سے ہی حل کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن دو طرفہ حل کی کوششیں جس حکمران نے بھی  کیں وہ فوجی تھا یا سولین اسے اٹک قلعے جانا پڑا یا پھر ملک سے بھاگنا پڑا ۔نوازشریف کو مودی اور جندل کے دوروں کے بعد ایک بار پھر یہ حقیقت  بخوبی معلوم ہو چکی ہو گی !

مغرب میں فغانستان کے ساتھ برِ صغیر کی مخاصمت صدیوں پرانی ہے اس سرحد کو کبھی چین نصیب نہیں ہوا اور لگتا نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں بھی یہاں کبھی امن ہو گا۔‘‘پراکسی وارز’’ جاری ہیں ۔ہم انہیں اپنی تزویراتی لڑائی سمجھتے ہیں اور افغانی اسے اپنی بقا کی جنگ ۔ہم افغان طالبان کو اپنا اثاثہ بنائے بیٹھے ہیں اور افغانی، پاکستانی طالبان کو ،بھارت اور ایران بھی اس صورتحال میں اپنا اپنا مفاد پورا کر رہے ہیں ۔ہماری افغان پالیسی کیا ہے ؟ میں کبھی سمجھ نہیں سکا لیکن یار دوست کہتے ہیں کہ ہماری افغان پالیسی ہے ہی نہیں اصل میں ہماری انڈیاکی پالیسی ہے جو انڈیا کا دوست ہو وہ ہمارا دشمن ہوتا ہے ۔اس لئے  ہم افغانیوں کو دشمن سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے ۔

ایران تو ایک زمانے میں وہ ملک تھا جس نے پہلی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کو اپنے فوجی اڈے اور اسلحہ تک دے دیا تھا مگر اب ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں بھارت آ کر بیٹھ گیا ہے ۔کیا ایران سے ہمارے تعلقات دو قوموں ، دو اسلامی ممالک کے ہیں یا پھر دو فرقوں کے ہیں ؟ ایران کا باغی گروپ جنداللہ بلوچستان میں بیٹھا ہے ۔ہمارے باغی گروپ جیسا کہ عزیر بلوچ نے کہا کہ اسے ایران میں پناہ دی گئی ۔یہ سب کیا ہے ؟ ایران کے خلاف پینتیس اسلامی ممالک کے اتحاد کی سربراہی  جب سے ایک  پاکستانی فوجی جرنیل کے ہاتھ آئی ہے  معاملات اور بھی  گھمبیر لگتے ہیں ۔ایران اسے اسی طرح سمجھتا ہے جیسے اسے سمجھنا چاہئے مگر ہم بضد ہیں کہ ہماری اس اتحاد میں شمولیت    نہ صرف عالم اسلام کے اتحاد کی جانب ایک قدم ہے  بلکہ ہم سعودیہ اور ایران کے تعلقات بہتر کروانے کی پوزیشن میں بھی آ جائیں گے  ۔ جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ ستر سال کے جھگڑے نہیں نمٹا سکے وہ چودہ سو سالہ مسلکی مسئلہ  یا ہزاروں سال کی عرب و عجم کی چپقلش حل کروانے چلے ہیں ۔

چین تادم ِتحریر ہمارا دوست ہے ۔اس نے نئی منڈیوں کی تلاش میں ‘‘ون بیلٹ ون روڈ ’’کے جس منصوبے کا علان کیا تھا ، چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی اس کا ایک حصہ ہے ۔چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں ۔ایک جنگ ہو چکی ہے تبت کے دلائی لامہ کو انڈیا نے پناہ دے رکھی ہے ۔ امریکہ چین کے خلاف بھارت کو اپنا علاقائی پارٹنر سمجھتا ہے اس لئے اس لئے چین ہماری اور ہم چین کی کمزوری ہیں ۔ مگر اس کے باوجود چین بھی کشمیر کو دو طرفہ مسئلہ سمجھتا ہے ابھی کل ہی چین کے وزیر خارجہ نے ایسا ہی بیان دیا ہے ۔چین ہماری دوستی میں  کالعدم  جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بارے میں بھارتی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے  مگر ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ جہادیوں سے متعلق اپنی پالیسی واضح کریں وہ مزید ایسی قراردادیں ویٹو نہیں کر سکتا ۔کیونکہ ماضی میں  وہ طالبان جو ہمارے پروردہ تھے انہوں نے چینی باغیوں کو پناہ دے رکھی تھی اس لئے چین ہماری جہادی پالیسیوں پر شدید تحفظات میں مبتلا ہے ۔

ٹرمپ کا نمائندہ خصوصی بھی پاکستانی قیادت کو خاص پیغام دے گیا ہے ۔پیغام تو معلوم نہیں لیکن  کابل میں انہوں نے ایک طرح سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ پاکستان  پراکسی وار بند کرے ۔

ان حالات میں ہمارے گھر کے اندر کیا صورتحال ہے ؟ ایک طرح کی خانہ جنگی ہے ۔جنہوں نے سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے وہ ملک کے گلی کوچوں میں الجھ چکے ہیں ۔ جو وسائل عوام کی فلاح پر خرچ ہونے چاہئیں ان کا بڑا حصہ سرحدوں کی حفاظت پر  توصرف ہوتا  ہی تھا مگر  اب سرحدوں کے اندر داخلی سلامتی کے نام پر  بھی کھربوں روپے لگ رہے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل زیادہ ہیں اور وسائل محدود ، صوبوں میں کبھی پانی پر جھگڑا رہتا ہے کبھی گیس پر ، کبھی لسانی مسئلہ اٹھتا ہے تو کبھی نسلی ۔روز قوم تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہی ہے  پہلے مسلکوں کے درمیان لڑائیاں تھیں اب مسلکوں کے اندر بھی شروع ہو چکی ہیں ۔

کبھی کبھی مجھے بالکل ایسے ہی لگتا ہے کہ ہماری صورتحال بھی ان ہمسایوں جیسی ہے جن کا سب کچھ تھانے کچہریوں کی نظر ہو جاتا ہے اور آخر میں ان کی پاس سوائے پچھتانے کو کچھ نہیں بچتا ۔مشہور تاریخ دان ٹائن بی جس نے تاریخ انسانی میں ابھرتی اور ڈوبتی قوموں کا عمیق مطالعہ کیا اس نے جو کہا ہے اس کو گزشتہ دنوں رحلت پانے والے مختار مسعود نے ان لفظوں میں بیان کیا کہ جب معاشرہ ٹکڑے ٹکڑے اور روح عصر فگار ہو تو جان لیجئے کہ انتشار مکمل ہو چکا ہے.معاشرے کے تین ٹکڑے ہوجاتے ہیں ‘‘جابر اقلیت، بیزار عوام اور نامہرباں ہمسائے’’۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...