نوازشریف کا بند کمرہ ٹرائل

1,270

نوازشریف کو بند کمرہ ٹرائل کے لیے اڈیالہ جیل سے بکتربند گاڑی میں سخت سیکیورٹی حصار میں احتساب عدالت لایا گیا۔ کریم رنگ کی شلوار قمیض اور نیلی واسکوٹ میں ملبوس نوازشریف قدرے غصے میں لگ رہے تھے لیکن انہوں نے صحافیوں کو بکتربند کی قریب دیکھ تو ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔

نوازشریف کی گاڑی ایک باوردی پولیس اہلکار ہی چلا رہا تھا۔ نوازشریف کو جوڈیشل کمپلیکس کے عقبی دروازے سے اندر لایا گیا اور کمرہ عدالت ایسے لے جایا گیا کہ اڈیالہ جیل کے قیدی سابق وزیراعظم کی کسی کو بھی کوئی جھلک دکھائی نہ دی۔ یوم آزادی سے ایک دن پہلے کمرہ عدالت میں وکیل صفائی خواجہ حارث تھے اور نہ ہی العزیزیہ ریفرنس میں نیب کے پراسیکیوٹر موجود تھے۔ عدالت کے دروازے صحافیوں پر بند کردیے گئے۔ دو گھنٹے کی سماعت کے دوران ایک بار جج ارشد ملک کی طرف سے صحافیوں کی فہرست مانگی گئی۔ اس فہرست سے جج نے صرف 5 صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت دی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ٹرائل کوریج پر ماموردیگرمیڈیا ہاوسز کے صحافیوں کوبھی اجازت دی جائے۔ جو فہرست جج کو دی گئی تھی اس میں پہلے ہی بہت اختصار سے کام لیا گیا تھا۔

اس سماعت کے دوران کچھ لیگی رہنماوں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ صحافیوں کو کبھی بتایا جاتا کہ ان کو سیکیورٹی وجوہات سے روگا گیا کبھی کہا جاتا کہ ضلعی انتظامیہ نے پابندی عائد کررکھی ہے۔ تاہم جب یہ سماعت ختم ہوئی اور نوازشریف کو دوبارہ اڈیالہ جیل لے جایا گیا تو تقریبا بیس کے قریب صحافی جج ارشد ملک کے چیمبر چلے گئے۔ جج بولے اگر اتنے صحافی اندر آگئے ہیں تو پھر وہ باہر چلے جاتے ہیں۔ احترام سے عرض کی کہ جناب ہمیں بھی یہی ڈر ہے کہ ہماری طرح سے آپ کو بھی کہیں اس عدالت سے باہر نہ نکال دیا جائے۔ چینل 24 کے سینیئر رپورٹر صغیر چوہدری نے جج کو بریفنگ دی کہ پہلے کیسے صحافی اس ٹرائل کی کوریج کرتے تھے۔ جج اپنے چیمبر میں اے آروائی نیوز دیکھ رہے تھے۔ ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تمام چینلز کے صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک بار پھر احترام سے جج کے گوش گزار کیا کہ حضور یہ ممکن ہے کہ اے آر وائی یا ایک دو اور چینل پسند ہوں لیکن باقی میڈیا کا کیا قصور ہے جسے اس ٹرائل کی کوریج نہیں دی جارہی ہے۔

جج نے کہا “میں تو سمجھ رہا تھا کہ سماعت کے بعد جو میں تحریری حکمنامہ جاری کرونگا وہ آپ کے لیے کافی ہوگا۔” ایکسپریس ٹریبون کے رضوان شہزاد نے کہا اگر آپ ایسا بھی کردیں توآپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ جج سے ایک بار پھر احترام سے مخاطب ہوکراستدعا کی کہ مہربانی ہوگی اگر ایک تحریری حکمنامہ جاری کردیں جس میں یہ واضح لکھا ہو کہ یہ ایک بند کمرہ ٹرائل ہے تاکہ صحافی اندر آنے کی ضد نہ کریں۔ جج نے فوری جواب دیا کہ یہ اوپن ٹرائل ہے لیکن اگر کہتے ہیں تو پھر میاں صاحب کا جیل ٹرائل کرلیتے ہیں۔ کچھ صحافیوں نے اس تجویز کو سراہا لیکن اس دفعہ گستاخی کرتے ہوئے جج کو بتایا کہ جو ٹرائل یہاں ہورہا ہے اسے جیل ٹرائل سے کسی طور کم نہیں ہے۔ ملاقات کے بعد جج نے چیمبر سے پیغام بھیجا کہ صحافیوں پرضلعی انتظامیہ نے پابندی عائد کررکھی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوازشریف کی سزا معطلی درخواست پر سماعت

ٹرائل کورٹ سے خالی ہاتھ صحافیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا جہاں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کرنی تھی۔ احتساب عدالت کے برعکس یہاں پر صحافیوں کے داخلے پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں۔ ہرایک اس سماعت کا حصہ بن سکتا ہے۔ جب اس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو دو گھنٹے تک سب ٹھیک جارہا تھا کہ ججز نے سماعت میں پانچ منٹ وقفے کا اعلان کیا۔ وقفے کے بعد ججز میڈیا کوریج سے تھوڑے نالاں نظر آئے اور کہا کہ اگر میڈیا نے ایسی کوریج کی تو عدالت پابندی عائد کرسکتی ہے۔ گویا آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔ اب یہ کون ہے جو یہاں بھی ہر صورت صحافیوں پرپابندی عائد کرنے کے درپے تھا؟ کسی کوکچھ سمجھ نہ آرہی تھی کہ جب سماعت ختم ہوئی تو ہر صحافی کو دفتر سے فون کالزآنا شروع ہوگئیں اور کچھ ٹکرز سے متعلق پوچھ گچھ ہورہی تھی۔ عدالت میں موجود تمام صحافی ججز کے ریمارکس سے پریشان تھے لیکن سب کو اب ایک نئی پریشانی کا سامنا تھا کہ وہ ججز کےکچھ اہم ریمارکس کیوں نہ سن سکے؟ تھوڑی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ فرضی ٹکرز بنا کر میڈیا ہاوسز کو بھیجے گئے اور ججز کے فرضی ریمارکس بھیجنے والے نامعلوم افراد تھے۔ اب یہ بھی دلچسپ پہلو ہے کہ ججز کو پانچ منٹ کے وقفے کے دوران یہ ریمارکس کس نے دکھائے جس کے بعد ججز نے صحافیوں کے داخلےپر پابندی تک کی بات کر دی۔ ان سوالات کے جوابات آنا ابھی باقی ہیں تاہم عدالت میں موجود تمام صحافیوں نے اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو ججز سےمنسوب فرضی خبروں سے متعلق خبردار کردیا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...