شوبز انڈسٹری اور ہمارا رویہ

895

پاکستان میں فلم اور ڈرامہ انڈسٹری روز بروز ترقی کے مرا حل طے کر تے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے،فلم انڈسٹری پہ عروج و زوال کا دور آ تا رہتا ہے لیکن ڈرامہ انڈسٹری کافی عر صہ سے عروج اور کمال کی ہما لیہ پہ قائم و دائم ہے ۔ایک دور تھا جب وحید مراد ،ندیم اور محمد علی ہماری اردو فلموں کے نامور ہیرو تھے۔اسی دور میں ہندو ستان ہماری فلموں اور گانوں کی نقل کر تا تھا ،صرف فلموں اور گانوں کی ہی نہیں بلکہ ڈائیلاگ کی بھی نقل کر تا تھا۔اس کے بعد پنجابی فلموں کا دور شروع ہوا اور سلطان راہی نے اکیلے اس انڈسٹری کو سہارا دیئے رکھا، اس کے بعد نو جوان ہیروز نے بھی کچھ اچھا کام کیا لیکن وہ اتنا قابل ذکر نہیں ہے ۔مو جو دہ فلم انڈسٹری سے متعلق میرے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن پاکستان ڈرامہ نگاری میں ایک بے مثال مقام رکھتا ہے ۔آغا حشر،اشفاق احمد،سید امتیاز علی تاج ،بانو قدسیہ ،فاطمہ ثریا بجیا،امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی ،کمال احمد رضوی وغیرہ،کہانی نویسوں ،ڈرامہ نگاروں ،ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی یہ ایک طویل فہرست ہے ۔
تقریباً 15سالوں سے ،انڈین ڈراموں اور خاص طور پر سوپ ڈراموں نے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کواس حد تک متاثر کیا کہ چند سالوں سے انڈین ڈرامہ،لباس،رومانس اور منظر کشی کی وجہ سے گھر گھر میں دیکھا جانے لگا ۔ناظرین کی انڈین ڈراموں سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ سب کچھ پاکستانی ڈراموں میں بھی کچھ ضرورت سے زیادہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے ۔اس کے باوجود بہت سے ڈرامے سماجی اور خاندانی زندگی کے مسائل پہ بھی تشکیل دیئے جا رہے ہیں اور وہ سکرین کی زینت بن رہے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک ڈرامہ اختتام پذیر ہوا تھا جس میں گھریلو مسائل کو ہلکے پھلکے مزاح کے انداز میں پیش کیا گیا ۔ایک طرف مشرقی روایت کودکھا یا گیا کہ کس طرح بڑوں کا احترام اور چھو ٹو ں سے شفقت کا کلچر ہے ۔یہ بھی دکھا یا گیا کہ جب انسان مل جُل کر رہتے ہیں تو کچھ شکایتیں اور الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کا نتیجہ یہ نہیں ہو نا چا ہیئے کہ آنگن ہی منتشر ہو جائے اور ٹوٹ جائے۔ مغربی معاشرے میں رہنے والے پاکستانی کا رویہ اور سوچ کا انداز کیسے بدل جا تا ہے اس کی عکس بندی بھی اس ڈرامے میں ہے۔
آج کل ایک ڈرامہ دکھا یا جا رہا ہے جس میں ایک مو لوی صاحب کی بچی فلمی اور فیشن کے میگزین پڑھنے کے بعد کس طرح سوچتی اور خواب دیکھتی ہے ۔آخر کار اس کی شادی مولوی صاحب کے شاگرد سے ہوتی ہے جو عمر میں اس سے کافی بڑا ہے ۔ایسے بہت سے اچھے ڈرامے ہیں جن کے لکھنے والے معاشرے کی نبض پہ ہاتھ رکھتے اور واقعی اس کا حق ادا کر تے ہیں کہ ہماری اقدار اور اخلاقیات کیا ہیں اور ہم کس طرف جا ر ہے ہیں؟ عام طور پر ہمارے معاشرے میں لکھنے والوں اور بولنے والوں کا رویہ یہ ہو تا ہے کہ وہ بات کومعاشرے میں مو جو دمنفیت سے شروع کر تے ہیں گو یا کہ وہ پڑھنے والے کو راغب کر رہے ہوتے ہیں کہ معاشرے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے, جبکہ بات مثبت اور تعمیر سے ہو تو اس کے اچھے اثرات معاشرے پہ مر تب ہو تے ہیں۔
زمانہ جا ہلیت میں شاعر اور شاعری کو جیسے لوگ glameriseکر تے تھے آج اسی طرح نو جوان نسل ڈرامہ اور فلم کے فنکاروں اوراداکاروں کو دیکھتے ہیں۔اگر اس میڈیم کو سماج کی آگہی اور شعور کے لیے استعمال کیا جائے تو اچھے نتائج مر تب ہو سکتے ہیں یا جتنا بھی اچھا کام ہو رہا ہے اسے اجا گر کیا جائے اور لو گو ں کو اس بارے بتا یاجائے تو یہ بھی ایک انسانی خدمت ہے ۔بد قسمتی سے، ہمارے ہاں لو گ فلم اور ڈرامہ جتنے شوق سے دیکھتے ہیں اتنے ہی شوق سے مخالفت بھی کر تے ہیں۔
اس کا سبب ہمارا منا فقانہ رویہ ہے جو ہم نے مذہبی بنیاد پہ اس انڈسٹری کے حوالے سے قائم کر لیا ہے جبکہ عملاً ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔اس حوالے سے، ہمارا رویہ متوازن ہو نا چا ہیئے کہ ہم سماجی اور معاشرتی مسائل پہ تیار ہو نے والے ڈراموں کی حو صلہ افزائی کریں اور سطحی خیال پہ تیار ہونے والے ڈراموں کو نظر انداز کریں اور انہیں اپنے بچوں اور اپنی پہنچ سے دور رکھیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...