کینہ پروری ایک اخلاقی مرض
کینہ پروری ایسی اخلاقی مرض ہے جس کے اثرات معاشرتی سطح پہ بڑے بڑے فساد وخرابی کا موجب ہیں۔ کسی کے لیے بلا وجہ دل میں نفرت اور دشمنی کو پالے رکھنا ”کینہ پروری”ہے۔یہ مرض انسان کے دل میں پرورش پاتی اور بڑھتی ہے ۔انسان کے جذبات، ارادے اور خیال پہ دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کا قانون اس پہ سزا دے سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان سے سرزد ہونے والے اعمال پہ جزاء و سزا ہے ۔اگر انسان کوئی انتہائی قدم اٹھا تا ہے تو اس انتہائی قدم (جرم)اٹھانے کی وجہ یہی نفرت اور دشمنی کے جذبات ہوتے ہیں اس لیے مذہب کا مقصود انسان کا تزکیہ وطہارت ہے ۔تزکیہ و طہارت ہو جانے کے نتیجے میں انسان سے اچھے ا عمال کا ظہورہوتا ہے اور بُرے اعمال پیدا کر نے والے جذبات واوصاف ختم نہیں ہو تے لیکن دب کر رہ جاتے ہیں۔کینہ پروری یا ایسی اخلاقی برائیوں سے فساد کیسے پیداہو تا ہے؟اس کی نشاندہی ایک روایت میں رسو ل اللہ نے خود فر مائی ہے کہ غیبت کرنا ،تکبر کر نا ،اترانا،کینہ رکھنا ،بخل کر نا، یہ ظلم میں بدل جاتے ہیں اور اس کے بعد فتنہ وفساد بن جاتے ہیں۔ایک مقام پر کینہ وحسد کے بارے میں فرمایا ”یہ مونڈھ دینے والی برائیاں ہیں پھر خود ہی وضاحت فر مادی کہ ”اس سے مراد بالوں کا مو نڈھنا نہیں ہے بلکہ یہ دین کو مونڈھ دینے والی ہیں”۔اس روایت سے کینہ پروری کی شدت گناہ اورروحانی ضیاع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ برائی دین کے معاملے میں ایک مسلمان کا کتنا نقصان کر سکتی ہےگو یاکہ ”دین”اس کے جذبہ و عمل سے ایسے ختم ہو جا تا ہے جیسے بال سر سے غائب ہو جاتے ہیں اس لیے ایک اور روایت میں فرمایا:” کینہ پروری مسلمان کے دل میں نہیں ہو سکتی” یعنی مو من کا دل ایسے قبیح اور نا پسندیدہ جذبات سے پاک ہو تا ہے۔
اگر اس کے نتائج پہ غور کریں تو ایک نتیجہ جو کینسر کی طر ح معاشرے میں عام ہو تا ہے اس کی چھوٹی شکل یہ ہے کہ دوسروں کے اچھے کامو ں پہ تعریف نہ کر نا، نقص اورعیب کے پہلو تلاش کر نا ۔یہ ایک عام بیماری ہے جو کینہ پروری اوربغض کے باعث معاشرے میں عام ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ کینہ پرور تعریف کر نہیں سکتا بلکہ جن جذبات کی آگ میں وہ جل رہا ہو تا ہے ،وہ اس کے لیے کسی اچھے کام میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اسی لیے امام شافعی فرماتےہیں:”کینہ پرور اور حاسد کے لیئے اس دنیامیں سکون نہیں ہے ۔وہ مرتے دم تک بے سکون اور غیض و غضب کی آگ میں جلتارہتا ہے ”۔کینہ پرور جس آگ میں خود جلتا ہے ، دوسروں کوبھی اسی آگ میں جلا نا چا ہتا ہے۔حقیقت ہے جس کے پاس جو کچھ ہو تا ہے وہ وہی کچھ دوسرے کو لوٹاتا ہے۔
کسی کے اچھے کام کی تعریف نہ کرنا کسی کی ترقی وخوشحالی سے جل جا نا اور کسی کے ثمرِمحنت کو بددیانتی اور بد عنوانی کانتیجہ قرار دینا،اس سے آگے بڑھ کر اس کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر نا،یہ سو سائٹی کا ایک عام چلن بنتا جا رہا ہے ۔
اس بیماری سے نجات کا ایک راستہ یہ ہے کہ اس تصور کو واضح کیا جاناچا ہیئے بلکہ ہمارا ایمان ہونا چاہئیےکہ یہ دنیا ”مر کز امتحان”ہے جس کے پاس جو کچھ اور جتنا ہے،اللہ کی بارگاہ میں، وہ اس کا جواب دہ ہو گا ۔ہر انسان کو اس جواب دہی کی تیاری مذہب کی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر کرنی ہے ۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہر شخص محنت کر ے,مشکل سے مشکل چوٹی محنت و کوشش کے ذریعے سر کی جا سکتی ہے ۔دنیا میں کامیاب ترین افراد کی کہانی محنت ومشقت سے بھر پور ہے ۔تیسراحل یہ ہے کہ ہمیں انفرادی طور پر اپنی شخصیت کی تعمیروتزکیہ کااہتمام کرنا چاہیئے۔
دنیا و آخرت کی کامیابی کینہ پروری اور بغض جیسی اخلاقی اور روحانی امراض سے آزادی میں ہے ۔جب پیغمبراسلام نے ایک صحابی کو جنت کا حقدار قرار دیا تو تحقیق و تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ وہ صحابی اپنے دوسرے بھائی کے لیے اپنے دل کو ہر طرح کی کینہ ،دشمنی ،نفرت اور عداوت سے پاک کر کے سوتےہیں۔ اقوامِ عالم نے اپنے محنت وعمل سے کم از کم دنیا کی حد تک اس حقیقت کو یقین سے ثابت کر دیا ہے کہ جو قوم اخلاقی برتری رکھتی ہے ،وہی قوم عروج و کمال بھی حاصل کر تی ہے ۔
فیس بک پر تبصرے