پاکستان میں سیاحت اور ترجمہ کا مستقبل
27 ستمبر کو دنیا بھر میں سیاحت جبکہ30 ستمبر کو ترجمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے،سیاحت کا یہ دن اقوام متحدہ کی تنظیم برائے سیاحت ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی جانب سے1970 سے منایا جا رہا ہے۔اسی طرح ترجمہ کا دن بھی مترجمین کی عالمی تنظیم فیڈریشن آف انٹرنیشنل ٹرانسلیٹرز1991 سے مناتی چلی آ رہی ہے اور گزشتہ برس 24 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی30 ستمبر کو عالمی یوم ترجمہ قرار دے چکی ہے۔
سیاحت اور ترجمہ کو ایک کالم میں جمع کرنے کی وجہ یہ قطعا نہیں ہے کہ دونوں کے ایام محض دو دن کے فرق سے منائے جاتے ہیں۔ بظاہر الگ الگ اہداف کے حامل ان دو شعبوں میں بہت سی ایسی مشترک قدریں ہیں جو ان کے آپس کے تعلق کو گہرا کرتی ہیں۔
سیاحت اور ترجمہ مادی اور علمی ترقی کے دو استعارے ہیں ،جو ملک مادی اعتبار سے ترقی یافتہ ہو گا وہاں سیاحت کی انڈسٹری بھی عروج پر ہو گی،اور علمی ترقی جو کہ ہر قسم کی ترقی کی بنیاد ہے اس کی اساس علم ترجمہ ہے۔اس لیے جس طرح روح اور مادہ کا آپس میں تلازم ہے اسی طرح سیاحت اور ترجمہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگر سیاحت کا مقصد تفریح،راحت و اطمینان کا حصول،اور صحت بخش قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونا ہے تو ترجمہ کا مقصد مختلف زبانوں اور تہذیبوں کی حامل اقوام کے علوم و فنون کو کسی ایک ملک یا قوم تک محدود رکھنے کے بجائے انہیں عالمی سطح پر متعارف کروانا ہےتاکہ اس پھیلے ہوئے جہاں میں بکھری ہوئی مختلف اقوام بھی ان علوم و فنون سے بہرہ مند ہوں اور وہ بھی علم و مادے میں ترقی کا متوازی سفر طے کرنے والی اقوام کے ساتھ چل سکیں۔
اگر پہاڑوں، ریگستانوں،شہروں اور ملکوں میں اعضا و جوارح کے ساتھ گھومنا پھرنا سیاحت کہلاتاہے تو ترجمہ ذہنی اور فکری طور پر مختلف اقوام،روایات،سیاسیات ،علوم و فنون اور زبانوں سے واقفیت حاصل کرنے کا نام ہے۔
سیاحت سے اگر مختلف ثقافتوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے تو ترجمہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے شاہ کلید ہے، بلکہ ترجمہ اس بابت سیاحت کی بھرپور مدد کرتا ہے ۔مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے جب زبان رکاوٹ بنتی ہے تو یہ ترجمہ ہی ہے جو اس مشکل کو دور کر کے دو مختلف پس منظر،تہذیبیں اور زبانیں رکھنے والوں کو شیر و شکر کر دیتا ہے۔اگر سیاحت ایک معاشرے کی اچھی اقدار و روایات کو دوسرے معاشرے میں رائج کرنے کا سبب بنتی ہے تو اس کی پشت پر بھی ترجمہ اپنا کام دکھا رہا ہوتا ہے۔
جس طرح سیاحت کی مختلف اقسام ہیں جیسا کہ قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کی سیاحت، مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے مذہبی سیاحت اور علمی ،تجارتی و طبی سیاحت، اسی طرح فن ترجمہ میں بھی تجارتی ترجمہ،طبی ترجمہ،علمی ترجمہ اور مذہبی ترجمہ جیسی اصناف پائی جاتی ہیں۔
دونوں شعبوں میں پائی جانے والی مماثلت اور قربت کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کو یکساں اہمیت دی جائے، لیکن عملا ایسا نہیں ہو رہا،جس طرح ہماری حکومت،ادارے اور عوام کا رجحان سیر وسیاحت کی جانب بڑھ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ترجمہ کی طرف توجہ دی جائے کیونکہ ترجمہ سیاحت کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔جب تک سیاحت کو ترجمہ کی آکسیجن نہیں ملے گی تب تک ہماری سیاحت بھی کھوکھلی اور نیم مردہ رہے گی۔
مغربی اقوام کی مادی ترقی اور ان میں ٹورازم کے فروغ کو دیکھتے ہوئے ہم دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ ہم بھی سیاحتی ریزارٹ کھول کر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں گے،ہمیں ان ترقی یافتہ اقوام کی اس مادی برتری کی اساس کو سمجھنا ہو گا جس کے اوپر ان کے تقدم و ترقی کی عمارت کھڑی ہے اور وہ بلاشبہ علمی و سائنسی ترقی ہے۔ہمیں علم ترجمہ کو بنیاد بنا کر ان سے جدید علوم کو اخذ کرنا ہو گا کہ اچھی بات مومن کی گمشدہ میراث ہے،جہاں سے بھی ملے انا کا مسئلہ بنائے بغیر لے لینی چاہیے۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاحت کے حوالے سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور جناب وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں ہی سیاحت فروغ کے لیے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا،اسی طرح ۳۰ ستمبر کو عالمی یوم سیاحت کے موقع پر بھی وزیراعظم عمران خان نے صوبوں کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ چار ریزارٹ کھولے جائیں۔مری سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی صداقت علی عباسی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ مری میں سیاحتی مراکز کی ترقی کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے جو کہ ٹورازم انڈسٹری کے لیے انتہائی خوش آئند ہے۔
دوسری طرف ترجمہ کے حوالے سے سرکاری سطح پر کسی قسم کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا،نہ پہلی تقریر میں اور نہ ہی یوم ترجمہ کے موقع پر۔ تاہم حکومتی سطح پر ایک اقدام ایسا اٹھایا گیا ہے جس سے اردو سے ترجمہ کو عالمی سطح پر اہمیت ملنے کی توقع ہے اور وہ ہے وزیرخارجہ شامہ محمود قریشی کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اسے اردو میں خطاب۔عالمی یوم ترجمہ سے ایک دن قبل وزیرخارجہ کے اس خطاب کا ترجمہ دیگر مندوبین کے لیے یقینا متعدد زبانوں میں ہوا ہوگا جو کہ اردو سے ترجمہ کرنے والوں کے لیے یقینا حوصلہ افزا ہے۔
ترجمہ کی طرف رجحان نہ ہونے کی وجہ سے علمی،تحقیقی اور سائنسی کتابوں اور ان میں پائے جانے والے علمی ذخیروں سے ناواقفیت اپنی جگہ،معلومات کے تبادلے کے اس جدید ترین دور میں بسا اوقات خبریں بھی پاکستان میں تیسرے اور چوتھےدن پہنچتی ہیں،کہ وہ خبریں پہلے دن ان ملکوں کی قومی زبان میں سامنے آتی ہیں نہیں انٹرنیشنل میڈیا اگلے دن انگریزی زبان میں رپورٹ کرتا ہے اور پھر تیسرے مرحلے میں انگریزی سے ترجمہ ہو کر وہ خبر اردو قارئین تک پہنچتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں چھپنے والی کتابوں کے تراجم میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
سابقہ حکومت نے ترجمہ سینٹر کے قیام کا اعلان کیا تھا لیکن یہ اعلان حکومت کی مدت کے مکمل ہونے تک محض اعلان ہی رہا اور کسی قسم کی کوئی عملی پیش رفت نہ ہو سکی، ملک بھر کےتعلیمی اداروں اور جامعات میں سے بھی صرف اسلامی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی کے ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ اس دن کی مناسبت سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں،دیگر تعلیمی اداروں کو بھی ان دو جامعات کی تقلید کرنی چاہیے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹورازم انڈسٹری کی طرح علم ترجمہ کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کرے،معاشی استحکام کو اولین ترجیح دینے والی حکومت کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ معاشی استحکام تب ہی میسر آئے گا جبکہ کوئی بھی منصوبہ علم و تحقیق کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے گا، ترجمہ ایک ایسا شعبہ ہے جو علمی بنیادیں بھی مضبوط کرے گا اور معاشی بھی،کہ ترجمہ صرف علم یا فن ہی نہیں انڈسٹری بھی ہے۔
فیس بک پر تبصرے