مذہب اور شاعری

1,462

حضرت داﺅد علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کو قرآن حکیم نے زبور کا نام دیا ہے، اسے مزامیر بھی کہتے ہیں۔ حضرت داﺅد علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے تھے اور زبور عبرانی زبان میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کی زبان میں تھی

‘‘ میں جہالت کے گہرے اندھیرے میں پیدا ہوا اور میرے روحانی گرو نے گیان کی روشنی سے میری آنکھیں کھولیں۔میں ان کو عقیدت و احترام کے ساتھ نمسکار پیش کرتا ہوں’’۔

‘‘ اے میرے پیارے کرشن، آپ بیکسوں کے دوست ہیں اور تخلیق کا سرچشمہ ہیں۔ آپ گوپیوں کے سوامی اور رادھارانی کے پیارے ہیں۔ میں آپ کو عقیدت و احترام کے ساتھ نمسکار پیش کرتا ہوں۔’’

یہ بھگود گیتا کے چند شعروں کا ترجمہ ہے جو دھنن جے داس نے کیا ہے۔ اگر کوئی انھیں آج کی رسا اردو میں ترجمہ کرتا تو ہمارے اردو قارئین کے لیے ان کی روح تک پہنچنا آسان ہو جاتا۔ آئیے پہلے پیرے کو نئے سرے سے پڑھتے ہیں:

‘‘ میں جہالت کے گہرے اندھیرے میں پیدا ہوا اور میرے روحانی مرشد نے معرفت کی روشنی سے میری آنکھیں کھولیں۔میں ان کو عقیدت و احترام کے ساتھ سلام پیش کرتا ہوں۔’’

ہمارے ہاں کی مذہبی زبان کے جاننے والے اب اس شعر کی روح کے یقینی طور پر قریب ہو گئے ہوں گے۔

قدیم مذہبی کتابوں میں سے بعض سراسر عرفانی شاعری پر مشتمل ہیں۔ ان میں حضرت داﺅد علیہ السلام کی زبور بھی شامل ہے۔ بھگود گیتا کب متشکل ہوئی اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے، اس سے قطع نظر جب اس کے متن اور مطالب پر راقم کی نگاہ پڑی تو اس نے اپنی طرف جذب کر لیا۔ یہ ایک عارف کے سینے سے پھوٹنے والے گیتوں پر مشتمل معلوم ہوتی ہے۔

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داﺅد علیہ السلام جب اللہ کا ذکر کرتے تھے اور جب اسے پکارتے تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہم نوا ہو جاتے تھے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:

(ص: ۱۸اور ۱۹)

‘‘ہم نے پہاڑوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھاجو رات دن اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے، پرندے بھی سمٹ آتے تھے اور سب اس کی تسبیح کرتے تھے۔ ’’

حضرت داﺅد علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کو قرآن حکیم نے زبور کا نام دیا ہے، اسے مزامیر بھی کہتے ہیں۔ حضرت داﺅد علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے تھے اور زبور عبرانی زبان میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شاعری کی زبان میں تھی اور مناجات پر مشتمل تھی اور تورات کے بعد نازل ہوئی۔ اس میں موسیقی کے کئی قدیمی آلات کا بھی ذکر آیا ہے اور جیسے صوفیانہ اور عرفانی شاعری کی زبان میں ہوتا ہے، اس میں اللہ کی ستائش کے لیے موسیقی اور رقص کی اہمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

شیخ سعدی کہتے ہیں:

آتشی از سوز دل در دل داﺅد بود

تا بہ فلک می رسد بانگ مزامیر او

سوز دل کی آگ داﺅد کے دل میں تھی۔ اسی لیے ان کے مزامیر کی آواز آسمان تک جا پہنچی۔

قرآن حکیم نے اگرچہ سورہ شعراءمیں شاعروں کی خاص صفات بیان کرتے ہوئے ایسے شاعروں کی مذمت کی ہے جو ان صفات کے حامل ہیں لیکن اس کے بعد ایمان والوں کے لیے استثناءبھی موجود ہے۔ دوسری طرف نبی پاکؐ کے لیے فرمایا گیا ہے:

(یٰس: ۶۹)

‘‘اور ہم نے انھیں شعر نہیں سکھایا اور نہ ان کے لیے یہ مناسب ہے۔ ’’

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی خدمت میں حضرت حسان ؓبن ثابت موجود رہتے تھے اور بوقت ضرورت آپ انھیں شعر کی زبان میں جواب دینے یا کسی امر پر اظہار کرنے کے لیے کہتے تھے۔ اسی طرح سے آپ کے چچا حضرت ابو طالب ؑسے منسوب ایک دیوان موجود ہے جس میں خود آنحضرت کی مدحت میں اشعار موجود ہیں اور ان میں بعض اشعار کا آپ ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت علی ؑسے منسوب بھی ایک دیوان موجود ہے۔ آپ کے صحابہ کرامؓ میں اور بھی بلند پایہ شعرا تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شاعری کی قرآن حکیم میں مذمت کی گئی ہے وہ کچھ اور ہے، نہ یہ کہ کلام موزوں کی ممانعت کی گئی ہے۔ البتہ یہ موضوع پہلو دار ہے اوروسعت رکھتا ہے اور یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

صدر اسلام کے بعد پھر اگلی صدیوں میں تو اعلیٰ مذہبی شاعری معرض وجود میں آئی ہے۔ مذہبی شاعری کے بھی بہت سے رخ ہیں لیکن ہم یہاں زیادہ تر مزامیر داﺅد کے ہم افق شاعری کا تذکرہ کررہے ہیں۔ مولانا روم کی شاعری ایسی ہی شاعری کا ایک نادر اور اعلیٰ نمونہ ہے۔

میں نہیں کہتا کہ وہ عالی جناب یعنی مولانا رومی پیغمبر ہیں لیکن وہ حامل کتاب ضرور ہیں۔

ان کی مثنوی قرآن کی طرح بادلیل ہے، بعض اس سے ہدایت پاتے ہیں اور بعض گمراہ ہو جاتے ہیں۔

شیخ بہائی کا آخری شعر قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتا ہے:

(بقرہ:۲۶)

‘‘بہت سے لوگ اس سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور بہت سے ہدایت پاتے ہیں اور اس سے گمراہ ہونے والے فقط فاسق ہی ہیں۔ ’’

علامہ اقبال نے بھی تھوڑے سے تصرف کے ساتھ شیخ بہائی ہی کا شعر ایک اور انداز سے کہا ہے:

شاعری کو ھمچو آن عالی جناب

نیست پیغمبر ولی دارد کتاب

برصغیر کے صوفی شعراءنے تو ایسے ایسے مضامین باندھے ہیں اور اس انداز سے عارفانہ مطالب بیان کیے ہیں کہ جن کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ چنانچہ حضرت سلطان باہو کہتے ہیں:

جے رب نہاتیاں دھوتیاں ملدا ملدا ڈڈواں مچھیاں ہو

جے رب ملدا مون منایاں ملدا بھیڈاں سسیاں ہو

جے رب جتیاں ستیاں ملدا ملدا ڈانڈاں خصیاں ہو

رب اوہناں نوں ملدا باہو نیتاں جنہاں اچھیاں ہو

تزکیہ نفس کے حوالے سے عرفاءکی یہ تعلیم نہایت گہرائی کی حامل ہے۔ اسی طرح عشق الٰہی میں استغراق کی حقیقت حضرت بابا بلھے شاہ کے اس کلام میں جھلکتی ہے:

رانجھا رانجھا کردی ہن میں آپے رانجھا ہوئی

سدو مینوں ”دہیدو رانجھا“ ”ہیر“ نہ آکھو کوئی

رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ، ہور خیال نہ کوئی

میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی

ہو سکتا ہے بعض ماہرین اسے وحدت الوجود کے فلسفے کی طرف اشارہ سمجھیں بہرحال ہمارے نزدیک یہ استغراق کی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔

حضرت خواجہ غلام فرید توحید کی حقیقت اور کثرت میں توحید کے جلووں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وہ حضرت عشق مجازی

سب راز رموز دی بازی

سبھو شاہد اصلی جانی

ہے واحد پرم کہانی

ہے وحدت سمجھ سنجانی

وچ پردے کثرت سازی

پروفیسر حمید اللہ ہاشمی نے ان ابیات کا اردو ترجمہ یوں کیا ہے:

سبحان اللہ یہ عشق مجازی بھی کیا عجیب چیز ہے جس میں تمام تر راز رموز کا کھیل ہے۔

سب کو محبوب سمجھنا اور اسے اس وحدہ لا شریک کی پریم کہانی تصور کرنا، کثرت تو ایک پردہ ہے، اصل میں تو وحدت ہے جو ہر جگہ نورافشاں ہے۔(دیوان خواجہ غلام فرید، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر،ص ۵۸۴،۵۸۵)

عصر حاضر میں ایسی شاعری خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اردو زبان چونکہ عربی، فارسی، پنجابی اور سرائیکی جیسی قدیم زبانوں کی نسبت بہت نئی ہے اور اعلیٰ عارفانہ کلام اور روحانی عاشقانہ واردات کو بیان کرنے کے لیے زبانوں کو بہت طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود بعض جدید صوفیاءکے ہاں بھی ایسی شاعری کا سراغ مل جاتا ہے چنانچہ ذہین شاہ تاجی کی یہ معروف غزل جسے عابدہ پروین نے گایا ہے، اس کے ایک نمونے کے طور پر ذکر کرکے آج کی گفتگو کو ختم کیا جاتا ہے:

جی چاہے تو شیشہ بن جا، جی چاہے پیمانہ بن جا

شیشہ پیمانہ کیا بننا، مے بن جا، مےخانہ بن جا

مے بن کر، مےخانہ بن کر، مستی کا افسانہ بن جا

مستی کا افسانہ بن کر، ہستی سے بیگانہ بن جا

ہستی سے بیگانہ ہونا، مستی کا افسانہ بننا

اس ہونے سے، اس بننے سے، اچھا ہے دیوانہ بن جا

دیوانہ بن جانے سے بھی، دیوانہ ہونا اچھا ہے

دیوانہ ہونے سے اچھا، خاکِ درِ جاناناں بن جا

خاکِ درِ جاناناں کیا ہے، اہلِ دل کی آنکھ کا سرمہ

شمع کے دل کی ٹھنڈک بن جا، نورِ دلِ پروانہ بن جا

سیکھ ذہین کے دل سے جلنا، کاہے کو ہر شمع پہ جلنا

اپنی آگ میں خود جل جائے، تو ایسا پروانہ بن جا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...