گلگت بلتستان بھی غیر ملکیوں کے لئے ممنوعہ علاقوں میں شامل

834

حکومت نے اب غیرملکی سیاحوں کو گلگت بلتستان میں آنے کے لئے این او سی کو ضروری قرار دیا ہے۔یہ این اوسی پہلے سے موجود متعلقہ اداروں سے حاصل کئے جانے والےپرمٹ کے علاوہ ہے۔

قدرت نے گلگت بلتستان کو ایسا جغرافیہ اور آب و ہوا سے نوازا ہے جس کے باعث یہ خطہ سیاحت کے لئے بہت ہی موزون ہے۔ سیاحت کا شعبہ گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ ملک کی معیشت کے لئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا میں موجو د آٹھ ہزار میٹر سے بلند تیرہ چوٹیوں میں سے پانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں ہیں ۔ جس کے باعث ہر سال ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی کوہ پیماہ مہم جُوئی کے لئے اس خطے کا رُخ کرتے ہیں ۔دنیا کے عظیم سلسلہ ہائے گلیشرز ، خوبصورت جھیلیں ،میٹھے پانی کے چشمے اور صاف و شفاف پانی کے ندی نالے بھی اس خطے کی خصوصیات میں سے ہیں۔گلگت بلتستان اپنی دلکش اور دلفریب مناظر و الی وادیوں کے باعث دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا باعث ہیں۔گرمیوں میں جب ملک بھر میں سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے اور گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت حدتک پہنچ جا تی ہے تو گلگت بلتستان میں موسم بہت ہی خوشگوار ہوتا ہے بالخصوص گرمیوں میں گلگت بلتستان میں راتیں موسم کے اعتبار سے بہت ہی خوشگوار ہوتی ہیں ۔ گلگت بلتستان کی اِن خوُبیوں کے پیشِ نظر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر ملکی کوہ پیماوں اورٹریکرز کی بڑی تعداد ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔

 گلگت بلتستان کے لوگوں کو شروع سے یہ شکایت رہی کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے اتنے سارے مواقع ہونے کے باوجود ماضی سے اب تک کی حکومتوں نے گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ اب بھی گلگت بلتستان سے متعلق ضروری معلومات سیاحوں کی دسترس میں نہیں۔ملک کے دیگر حصوّں سے گلگت بلتستان تک پہنچنے اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں موجود اہم سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے ذرائع آج بھی آسان نہیں۔ ویزہ اور پھر پرمٹ کے حصول اور پھر گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں جاتے ہوئے سکیورٹی چکینگ کے طریقے سہل نہیں۔جس کے باعث یہاں وسیع مواقع کے باوجود سیاحت کا شعبہ ابھی تک صنعت کا درجہ حاصل نہیں کرسکا۔لیکن اس پرمذید ستم یہ ہے کہ حکومت نے اب غیرملکی سیاحوں کو گلگت بلتستان میں آنے کے لئے این او سی کو ضروری قرار دیا ہے۔یہ این اوسی پہلے سے موجود متعلقہ اداروں سے حاصل کی جانے والی پرمٹ کے علاوہ ہے۔

وزارت خارجہ نے اسی سال مارچ میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو غیرملکی گلگت بلتستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے آتے ہیں وزارت داخلہ سے این او سی لے کر گلگت بلتستان آئیں گے۔پھر وزارتِ داخلہ نے تین اپریل 2017 ء کو ایک اور نوٹیفیکشن جاری کیا جس میں ھوم ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان کو یہ ہدایت کی گئی کہ کسی بھی غیر ملکی کو وزارتِ داخلہ سے پیشگی این او سی لئے بغیر گلگت بلتستان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔جس کے بعد اب کوئی بھی غیر ملکی سیاح ویزہ اور پرمٹ حاصل کرنے کے باوجود بھی گلگت بلتستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔جس سے اب گلگت بلتستان میں پہلے سے مسائل کا شکار سیاحت کا شعبہ اب تباہی کے دھانے پر پہنچ جائے گاکیونکہ اس پابندی کا بظاہرکوئی جواز نہیں ۔ گلگت بلتستان میں بغرض سیاحت آنے والے غیر ملکی سیاح کئی مراحل سے گزر کر ان علاقوں میں پہنچ پاتے ہیں۔ ویسے بھی گلگت بلتستان کے تمام علاقے غیر ملکی سیاحوں کے لئے یکساں طور پر اوپن نہیں ہیں۔اس حوالے سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کوتین مختلف حیثیتوں میں ابتدا ہی سے تقسیم کیا ہوا ہے۔جو اوپن زون، پرمٹ زون اور ممنوعہ زون سے موسوم ہیں ۔ غیرملکی سیاح ویزہ کی بنیاد پر صرف اوپن زون میں جاسکتے ہیں۔ پرمٹ زون میں جانے کے لئے اُنھیں علیحدہ سے پرمٹ حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ ممنوعہ زون میں غیر سیاحوں کا داخلہ ممکن ہی نہیں۔

 اس صورتِحال میں مذید کسی این او سی کی شرط کا عاید کیا جانا مناسب نہیں ۔اس سے گلگت بلتستان میں سیاحت کا شعبہ بُری طرح متاثر ہوگا۔کیونکہ اس نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے ۔ اور گزشتہ دنوں شاہراہِ قرارقرم کے ذریعے سفر کر کے گلگت بلتستان آنے والی تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والی سیاحوں کی ایک ٹیم کو گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے بصری پولیس چیک پوسٹ پر روک لیا گیا اوراُن کے پاس این او سی نہ ہونے کی بنیاد پر وہی سے اُن کو واپس کردیا گیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو گلگت بلتستان کی معیشت تباہ ہو کررہ جائے گی۔ کیونکہ یہ غیر ملکی باشندے کثیر زرِمبادلہ حکومت کے خزانے میں جمع کرنے کے بعد یہاں تک پہنچتے ہیں۔ سال ۲۰۱۵ء میں مقرر کرہ ریٹ کے مطابق کے ٹو کو سر کرنے کے لئے آنے والی سات رُکنی ٹیم ۷۲۰۰ ڈالر سرکاری خزانے میں جمع کرتے ہیں اور فی اضافی ممبر ۱۲۰۰ ڈالر جمع کراتے ہیں ۔ ساتھ ہی پہاڑی سلسلوں میں ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے کلین آپ مہم کے سلسلے میں ۵۰ ڈالر ادا کرتے ہیں ۔جبکہ سرسز چارجز کی مد میں ٹور آپریٹرز کو ادا کی جانے والی رقم اور مقامی مارکیٹ میں ان ساحوں کی وجہ سے آنے والی رقم بھی خطے کی معیشت کو مستحکم کرنے کا باعث ہیں ۔

 ہرسال لگ بھگ ۲۵ہزار غیرملکی سیاح گلگت بلتستان میں کوہ پیمائی، ٹریکینگ اور سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔اس سال بھی ۶۰ سے زاید غیر ملکی ٹیمیں گلگت بلتستان آنے والی ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں ان ٹیموں کی آمد اب یقینی نہیں ہے۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے غیر ملکی سیاحوں پر این او سی کی نئی شرط عاید کئے جانے پر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ارکان، وزرا اور خود وزیر اعلی بھی سراپا احتجاج ہیں ۔اُنھوں نے وفاقی وزارتِ داخلہ سے اس فیصلے پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی ہے اور وزارتِ داخلہ نے گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے کو تباہ ہونے سے بچانے کے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے مگر تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...