ثقافتی ہم آہنگی اور مسئلہ فلسطین ۔ ثقافتی ہم آہنگی کے لیے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کا نقطہ نظر

1,133

ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم  رابطہ عالم اسلامی  کے جنرل سیکرٹری ہیں،دنیا کے سامنے اسلامی تعلیمات کی درست تصویر پیش کرنا آپ کا مشن ہے، اسی  سلسلہ میں   رابطہ  نےگزشتہ  ہفتے  نیو یارک میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا: امریکہ اور اسلامی ممالک کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی۔کانفرنس میں  مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماوں نے خطاب کیا، جس  میں  مختلف مذاہب کے پیروکاروں  کے درمیان  قائم نفرتوں اور تنازعات کو ختم  کرنے اور  کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں  کے مابین محبت اور امن  پر مبنی تعلقات استوار کرنے پر زور دیا گیا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ مسئلہ فلسطین بھی زیر بحث آئے کہ  فلسطین  میں  آج بھی روزانہ کی بنیاد پر   درجنوں مسلمان،خواتین اور بچے شہید کیے جاتے ہیں اور  صہیونی  افواج کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔

رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری   ڈاکٹر محمد العیسی نے اپنے خطاب میں  مسلمانوں،مسیحیوں اور یہودیوں  کو دعوت دی کہ وہ مشترکہ طور پر  القدس کا دورہ کریں،ایک دوسرے کےمقدس مقامات کی زیارت کریں اور  طویل عرصہ سے جاری تنازعہ کو حل کرنے کے لیے نئے نقطہ نظر سے بات چیت کا عمل شروع کریں ۔

عرب نیوز کے  معروف  کالم نگار پیٹر  ویلبے  بھی  اس کانفرنس میں شریک تھے  ،انہوں نے  ثقافتی تعامل کے موضوع  پر خطاب کیا اور بعد  میں   عرب نیوز میں   ایک  مضمون لکھا  جس میں   اپنی تقریر کے اہم نکات بیان کیے اور کانفرنس اور رابطہ کے جنرل سکرٹری کے خطاب  کے حوالے سے اہم امور پر روشنی ڈالی ہے، پیٹر ویلبے کے مطابق  مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں  کشیدگی اور تنازعات  کا تعلق اس ثقافتی پس منظر سے ہے جو  صدیوں   سے  چلا آ رہا ہے،اور جسے تبدیل کرنا ضروری ہے، ۲۰۱۱ء میں ایک سروے ہوا  جس میں مسلم اکثریت والے ممالک کے مسلمانوں سے اہل مغرب کے بارے میں پوچھا گیا تو  پچاس فیصد لوگوں  نے ایک بھی  مثبت چیز بیان نہیں کی بلکہ یہی رائے دی کہ مغربی ممالک کے لوگ مادہ پرست،غیر اخلاقی اور شدت پسند ہوتے ہیں،دوسری طرف   مغربی باشندوں سے جب مسلمانوں کے بارے میں  سوال کیا گیا تو ان کا جواب بھی  اس سے مختلف نہیں تھا جو مسلمانوں کا ان کے بارے میں تھا۔

ویلبے  کا کہنا ہے کہ جانبین  نے راتوں رات ہی ایک دوسرے کے بارے میں منفی رائے نہیں قائم کر لی بلکہ  اس میں صدیاں لگی ہیں،  اور ضرورت ہے کہ آپس کے تعامل سے  ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔

پیٹرو  ویلبے لکھتے ہیں:

جولیوس قیصر (سیزر) نے گال کی کم از کم 20 فیصد آبادی کو  یا  تو  مار ڈالا تھا  یا   انہیں غلام بنا لیا تھا ، لیکن اٹلی اور فرانس کے درمیان تعاون کی طویل تاریخ نے    اذہان سے   ماضی کی اس تلخی کو مٹا دیا ہے،  اس سے  ثابت ہوتا ہے کہ  تعامل سے ثقافتی میموری  تبدیل کی جا سکتی ہے،یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔

شیخ محمد العیسی  کے کلیدی خطاب  سے متعلق پیٹرو ویلبے لکھتے ہیں:

جب سے العیسی رابطہ  کے سیکرٹری جنرل بنے ہیں رابطہ کی سرگرمیوں میں  ان کا ایجنڈا  بالکل نمایاں ہو کر سامنے آتا  رہتاہے اور وہ یہ ہے کہ  اسلامی،مسیحی اور یہودی برادری  میں دوریاں پیدا کرنے والے   زیادہ ضروری   مسائل کو حل کیا جائے جو کہ ان کے نزدیک روحانی،سیاسی،معاشی اور ثقافتی ہیں۔

ان کے مطابق   مسلمانوں،عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان تعامل   اور تعاون کی فضا  بنانے کے لیےسب سے   اہم اور قابل توجہ موقع  القدس(یروشلم) ہے۔انہوں نے تینوں مذاہب کے پیروکاروں کو دعوت دی کہ وہ  ہرقسم کے سیاسی تنازعات سے بالا ہو کر ایک امن کارواں  لے کر  القدس جائیں اور مل کر مسئلے کے حل کے لیے کوئی نئی راہ  تلاش کریں۔

یہ اہم گفتگو تھی اور یہ صحیح ہے کہ اسے محسوس کیا گیا تھا لیکن یہاں ایسے مواقع موجود ہیں جو پہلے سے ہی ایسا کرنے کے خواہاں ہیں۔

یروشلیم کے پیٹری آرک (سوفونیوس کے جانشین) جو کہ  یروشلم میں عیسائی رہنماؤں کے چیف  ہیں اس  کا اعتراف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں  کہ القدس کی سرزمین پر عیسائیوں کو امن،سلامتی اور تحفظ ملے۔

 

شیخ عبداللہ بن بیہ ایک اور ایسی شخصیت  ہیں جنہوں نے دو سال پہلے “امریکی کاروان امن” قائم کیا تھا تاکہ وہ امریکہ میں عیسائیوں،مسلمانوں اور یہودیوں کو مشترکہ مفادات کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ کر سکیں۔

 

یہ ایسا تصور ہے  جوہم نے رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے پہلے  کبھی نہیں سننے میں آیا لیکن اس کے سیکریٹری جنرل، جیسا کہ انہوں نے اس اخبار(عرب نیوز) میں ایک تفصیلی انٹرویو میں وضاحت کی ہے، وہ  اپنا وژن اور نئے خیالات  پورے جوش و جذبے کا ساتھ سامنے لاتے رہتے ہیں ۔ان کے دوستانہ ماحول میں قیام امن کے لیے تعاون اور تعامل کے اس تصور کو ایک حقیقت کا روپ اختیار کرنا  چاہیے، دیرپا ہم آہنگی کے حصول کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...