پاکستانی نظام عدل میں سزائے موت کا قانون : ایک اہم بحث

فرحت اللہ بابر کے خیا ل میں حکومت پاکستان کو سزائے موت کی سزا پر نظر ثانی کرنا چاہیئے ۔

1,023

 

ہر سال 10 اکتوبر دنیا بھر میں موت کی سزا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا  ہے ۔  اس کے منانے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود حکومتوں کو سوچنے کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی ریاستوں میں سزائے موت کے قانون پر نظرثانی کریں ۔ پاکستان میں مگر یہ دن  ہر سا ل کی طرح خاموشی سے گزر گیا ۔

قانونی ماہر ین ، انسانی حقوق  کی تنظیمیں  اور  سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد کئی سالوں سے حکومت کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سزائے موت کے قانون پر نظر ثانی کی جائے ۔ پچھلے سال اکتوبر میں یہ خبرآئی کہ حکومت ان قوانین پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتی ہے جو سزائے موت سے متعلقہ ہیں تاہم یہ امر محض ایک خبر تک محدود رہا ۔

اس معاملے پر قومی اور علمی سطح پر تا حال کسی  حقیقی بحث کا آغاز نہیں ہوسکا کہ جس میں اس مر کا تعین کیا جا رہا ہو کہ موت کی سزا کس قدر سود مند ثابت ہورہی ہے ۔ اسے بدنصیبی سمجھئے کہ اس نوعیت کا اہم معاملہ قومی گفتگو سے خارج ہے ۔  ہمارا نظام عدل اس قدر فرسودہ ہے کہ وہ دو بھائی جنہیں سپریم کورٹ کی جانب سے قتل کے ایک مقدمے میں بے گناہ قرار دیا گیا تھا ان کے متعلق  اس فیصلے کے بعد علم ہوا کہ انہیں ایک سا ل پہلے ہی اس مقدمے میں  پھانسی پر لٹکا دیا  گیا ہے  ۔

پچھلے 40 سال  کے دوران دنیا کی بہت سی ریاستوں نے موت کی سزا کو ختم کردیا ہے ۔ تاہم پاکستان میں  یہ سفر الٹا ہے ۔  سال 2008 تا 2013 میں  جو عارضی تعطل آیا تھا اسے ختم کردیا گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس کے بعد پھانسی دی گئی ہے ۔

موت کی سزا کی تاریخ عہد وسطی ٰ میں ہے  جب  انصاف کا تصور بدلے پہ قائم تھا کیونکہ اس وقت تک اصلاح پہ مبنی  انصاف کا تصور انسانی فہم میں اترا نہیں تھا ۔  وہ دلائل جن کی بنیاد پر موت کی سزا کا تصور عام تھا وہ یہ تھیں کہ اول تو اس سے سماج میں انصاف کا خوف رہتا تھا اور دوسر ا یہ کہ اس سے متاثرہ خاندان کو انصاف کا احساس رہتا تھا ۔

خوف کی حکمت اگر کوئی تھی بھی تو اب مسلح انتہاء پسندی دہشگردی اور خود کش حملے کے دور میں اپنی وقعت کھو چکی ہے کیونکہ  ان مجرموں کو موت کا کوئی خوف نہیں ہے ۔  ایک  عسکریت پسند اپنی موت پہ ہمہ وقت تیار ہے اس کا مطمع نظر تویہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور کتنے لوگوں کی جان لیتا ہے جب وہ اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے ۔

مذہب کی روشنی میں دلائل قائم کرکے موت کی سزا کو حق بجانب قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ اس قدر سادہ نہیں ہے ۔  بہت سے علماء کے مطابق اسلام بنیادی طور پر موت کی سزا کو دو صورتوں میں نافذ کرتا ہے ۔ اول کہ قتل ناحق  اور دوسرا فساد فی الارض ۔ (لاقانونیت پھیلانا )

ایسے قوانین جو افراتفری میں بنائے جاتے ہیں اور جن پر پارلیمان میں بحث بھی نہیں ہوتی اور انہیں محض آمر کی سہولت کے لئے بنایا جاتا ہے انہیں ایسے پیش کیا جاتا ہے گویا کہ وہ کوئی شرعی احکامات ہوں  اور اگر کوئی مذہبی سند موجود  بھی ہوتو پاکستا ن میں 27 کے لگ بھگ جرائم کی سزا کے طور پر موت کی سزا  سنایا جانا ، کوئی منطقی معاملہ نہیں ہے ۔

بسا اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ موت کی سزا سے متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے اور اس کے ذریعے سماج  میں توازن رہتا ہے ۔ تاہم یہ  دلیل انصاف کی منطق کو بدلے جیسی کیفیت  میں  خلط ملط کردیتی ہے  ۔

اسلام میں تو رحم کرنے پہ زور دیا گیا ہے ۔  ہمدردی ، معافی اور رحم اللہ تعالیٰ کی خاص نشانیاں ہیں ۔ اسی کا حکم ہے کہ کسی کو بھی ناحق نہ مارا جائے ۔ اللہ کے ہاں رحم پر زور دیا گیا ہے نہ کے بدلے پر ۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اصلاحی انصاف کا نفاذ ممکن بنائے بخلاف اس کے کہ بدلے پہ قائم انصاف کے نظام کو فروغ دیا جائے ۔

یہ قرآ ن کریم کا ہی بیان ہے کہ جو کوئی کسی ایک انسان کی جان لیتا ہے وہ گویا پوری انسانیت کا قتل کرتا ہے ۔ اگر اسی حکمت کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی کس طرح ایک ایسے آدمی کو موت کو منصفانہ قرار دے گا جسے ایک فرسودہ نظام عدل کے تحت قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا  ہو؟

انسان کے مجموعی شعور پر زندگی کے حق کی اہمیت اب مزید واضح ہوئی ہے  اور اس کے تحفظ کے لئے اب آواز یں بہت موثر ہیں ۔  اس  کے حق کے لئے قانون سازی بہت  بادلیل ہے اور  اس میں قانون اخلاقیات کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے ۔  زندگی کے حق  کی جانب بڑھتا ہوا شعوری جھکاؤ اور قرآن کریم کا رحم اور معافی پہ زور ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس معاملے پہ اجتہادی فکر کو بروئے کار لائیں اور اس کی خاطر فکری بنیادوں پر  احکامات کی تجدید نو کی جائے ۔

دنیا بھر کے ممالک کی اہم کانفرنس اردن کے دارلحکومت عمان میں گذشتہ سال منعقد ہوئی جہاں سزائے موت کے خلاف مختص کئے گئے عالمی دن کی پندرہویں سالگرہ تھی ۔ ایک مصری عالم دین نے قرآن کریم اس آیہ مبارکہ کی تفسیر پہ خطاب کیا ۔
وَلَكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَّّآ اُولِى الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  (179-البقرۃ)

”اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی سے) بچو۔”

انہوں نے بیان کیا کہ قصاص میں تحفظ ہے اور یہ بھی کہ اس کے ذریعے سماج میں زندگی آگے بڑھتی ہے  نہ کہ بدلہ لینے کی خواہش ۔

یہ بھی بیان کیا گیا  کہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے آخری اجلاس میں جب سزائے موت کے معاملہ پر بحث ہورہی تھی تو ان ممالک کی تعداد زیادہ تھی جو اس معاملے  کو ساقط رکھنا چاہتے تھے ۔ 24 ممالک نے اس کو روک دینے کے حق میں جبکہ 18 نے اس کے برعکس اپنا فیصلہ سنایا جبکہ 13 ممالک نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔ ایسے ممالک جو سزائے موت پر پابندی لگانے کے حق میں تھے اب ان کی فہرست میں الجزائر ، آزربائیجا ن ، تیونس ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان بھی شامل ہوچکے ہیں ۔ کیا اس صورت حال سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ سزائے موت پر پابندی کے خلاف موجود دلیل ثقافت اور رواج  پر بنیاد رکھتی ہے ناکہ عقیدے اور ایمان پر ؟

مزید برآں ، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  امیر لوگوں اور دہشتگردوں پر یہ سزا ویسے ہی بے معنی ہوچکی ہے ۔  دہشتگرد کو موت کا کوئی خوف نہیں ہے جبکہ امیر لوگ پیسے دے  کر دیت اور قصاص کے قانون کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور اپنی جان بخشوا لیتے ہیں ۔

موت کی سزا سے لوگو ں کی نفسیات پر بھی برا اثر پڑتا  ہے ۔ اس  کی وجہ سے سماج میں بربریت بڑھتی ہے اور لوگوں میں تشدد اور بدلے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔

فرسودہ نظام عدل میں موجود سقم کی بنیاد پر اس انتہائی سزا کے غلط استعمال کا احتمال ، عملدرآمد کی صورت میں  واپسی کے رستے کی کوئی صورت کا نہ ہونا  ،اس کے نتیجے میں سماج میں بربریت کا  اضافہ  اور جرائم کے خاتمے کی کوشش میں اس سزا کا انتہائی غیر مفید ہونا ، کیا یہ سب مضبوط دلائل اس سزا پر پابندی کے حق میں کافی نہیں ہیں ؟

اس بحث کے آغاز سے ہمارا مقصد اس کو وسیع کرکے چند این جی اوز ، چند دانشوروں اور سیاستدانوں   تک اس کی حدود کو توڑ کر اسے عوامی سطح تک منتقل کرنا ہے تاکہ یہ اہم معاملہ عوامی مباحثے کا حصہ بنے اور اس کے نتیجے میں اجتماعی شعور سامنے آئے ۔

اس سے بھی  اہم یہ ہے کہ  قطع نظر اس کے ، لوگ اس معاملے پر کیا فیصلہ کرتے ہیں ہمارا بنیادی مقصد ان تمام لوگوں تک بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ہے جو ہمارے نظام عدل میں گرفتار ہوئے ہیں  اور انہیں  موت کی سزا سنائی گئی ہے ۔

کم ازکم وہ گارنٹی جس کی فراہمی لازمی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو جنہیں موت کی سزا سنائی گئی ہو انہیں  اپنے  قانونی دفاع کا حق دیا جائے ، انہیں تشدد سے محفوظ رکھا جائے  اور بچوں اور ذہنی مریضوں کو اس سزا سے تخفیف دلائی جائے ۔

موت کی سزا لازمی نہیں ہونی چاہیئے ۔بیرون ملک قید ایسے پاکستانی جنہیں موت کی سزا سنائی گئی ہو انہیں سفارتی حکام کی جانب سے ضروری آئینی معاونت کی فراہمی اور قونصلر رسائی یقینی بنائی جائے ۔ ریاست کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کے سماجی حقوق کا تحفظ کرے اور انہیں ضروری  لوازمات ِ زندگی فراہم کرے ۔

( سزائے موت پر پابندی کے لئے منائے گئے عالمی دن کے بعد سینئر سیاستدان اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ مضمون انگریزی جریدے ‘ فرائیڈے ٹائمز ‘ میں تحریر کیا  جسے تجزیات آن لائن کے لئے شوذب عسکری نے اردو میں ترجمہ کیا ۔)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...