ٹھگوں کی دُنیادورِقدیم سے عصرِ حاضر تک
کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کاروبار جو ہر وقت عروج پر رہتا ہے وہ ٹھگی کا کاروبار ہے۔۔دکاندار آئے دن اشیائے خورد و نوش کے نرخ ٹھگی سے بڑھا دیتے ہیں ہیں۔ یہی حال ٹرانسپورٹ کا ہے، ہم یہ سمجھے تھے کہ کراچی میں ٹیکسیاں ختم ہونے کے بعد جو رینٹ اے کار کی کمپنیاں آئیں تھیں، ان کے نرخ نسبتاً کم ہوں گے اور تھے بھی، لیکن اب انھوں نے بھی ٹھگی کے نئے نئے ذریعے نکال لیے ہیں۔ جہاں یہ گاڑیاں پہلے250 روپے میں جاتیں تھیں اب دورانِ سفر رش کے اوقات کے نام پر ٹھگی کرکے دوسوپچاس کی جگہ پانچ سو روپے وصول کرتے ہیں۔ موبائل فون کمپنیاں بھی سو روپے کا بیلینس جمع کرانے کے بعد 47 روپے مختلف ٹیکسوں کی مد میں کاٹ لیتی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے اس بات کا نوٹس لیا تو ٹیکس کٹوتی کی مد میں عوام کو ریلیف ملا۔
فی الحال ہمارا موضوع متحدہ ہندوستان کے وہ سنگدل ٹھگ ہیں جو مسافروں کو لوٹنے کے بعد انھیں قتل کرنا اپنے ٹھگی کے عقیدے کا حصہ سمجھتے تھے۔ یہ اتنے سفاک تھے کہ اس کشت و خون کو بالکل جائز سمجھتے تھے۔بہرام نامی ایک ٹھگ کا دعویٰ تھا کہ اُس نے 900 سے زائد افراد کو چالیس سال کے عرصے میں قتل کیا ہے۔ سلیمن(ایک انگریز افسر) کو اس بات پر ذرہ برابر بھی یقین نہیں آیا اُس نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اتنی بڑی تعداد میں قتال کا تم پر الزام بھی نہیں لگایاجاسکتا۔ بہرام نے مودبانا انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو وہ افراد ہیں جن کا قتل مُجھے یاد ہے، میں تعداد یاد کرتے کرتے اتنا عاجز آگیا تھا کہ میں نے گنتی کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ سلیمن نے دوبارہ سوال کیا کہ تمہیں کسی کوقتل کرتے وقت رنج نہیں ہوتا، پہلے تم اُن سے میل میلاپ بڑھاتے تھے پھر دھوکے کے ذریعے انھیں قتل کردیتے تھے۔ جواباً بہرام نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی شکاری شکار کا پیچھا کرے تو اُسے کیا مُسرت کا احساس نہیں ہوتا۔ شکاری شکار کو گھیرنے کے لیے تمام حربے اور ترکیبیں استعمال کرتا ہے، کیا اُسے اس وقت بھی خوشی نہیں ہوتی جب شکار اُس کے قدموں میں بے جان پڑا ہوتا ہے، تو ٹھگوں کے لیے بھی یہ تمام عمل ایسا ہی ہے۔
آخر وہ کیا وجہ تھی کہ ٹھگوں کی جانب سے لوگوں کے قتل عام کے باوجود اُن پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی اپنی مطبوعہ کتاب ’’تاریخ ٹھگ اور ڈاکو‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ: ٹھگوں کے گروہوں کو اس وجہ سے بھی ختم نہیں کیا گیا کہ بڑے بڑے زمیندار اور ریاستوں کے حکمران ان کی حفاظت کرتے تھے اور ان کی لوٹ کے مال میں سے اپنا حصہ مقرر کرتے تھے۔ بعد میں اس کے بھی شواہد ملے کہ برطانوی علاقوں کی پولیس بھی ان کے ساتھ شامل ہوتی تھی اور اکثر مقدمات میں مجسٹریٹ رشوت لے کر انھیں چھوڑ دیتے تھے۔ چونکہ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ اپنے خلاف کوئی شہادت نہیں چھوڑتے تھے اور مارنے کے بعد لاشوں کو دفن کرکے تمام نشانات کو مٹادیتے تھے، اس لیے قتل کی کوئی شہادت باقی نہیں رہتی تھی۔ رہا لوٹ کا مال تو اس کی فروخت یہ جاننے والے ساہوکاروں اور بنیوں کے ہاتھو ں کرتے تھے۔
اس لیے ابتداء میں کچھ ٹھگوں پر قتل کے الزام میں مقدمے چلے تو وہ ان سے بَری کردیے گئے کیوں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے، مگر ابتدائی انیسویں صدی میں یہ مسئلہ حکومت برطانیہ کے لیے اہمیت اختیار کرگیا کیونکہ اس قسم کی رپورٹیں ملیں کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مسافر غائب ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی۔ یہ مسافر کہاں چلے جاتے ہیں؟ ان کی لاشوں کا کیا ہوتا ہے؟ اور ان کا سامان کدھر جاتا ہے؟ اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔
ٹھگ پاک و ہند میں تقسیم سے پہلے ایک منظم گروہ تھا۔ ان کے اپنے قائدے اور قانون تھے۔ حد تو یہ تھی کہ آہستہ آہستہ اِس نے ایک مذہبی فرقے کی شکل بنالی تھی۔ یہ وارداتیں اپنے اصول و ضوابط کے تحت کرتے تھے اور ٹھگی کرنے والے ہر ٹھگ پر لازم تھا کہ وہ اِن قوانین کی پاسداری کرے۔ ٹھگی کے ذریعے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا ایسا نظام مرتب کیا گیا تھا جو دو صدیوں تک ہندوستان پر مسلط رہا۔ اِس دوران ان ٹھگوں نے بیشمار تاجروں ، مسافروں کو لوٹا بلکہ انھیں قتل بھی کیا۔ برطانوی راج نے بالآخر تنگ آکر اس پورے نظام کو ملیامیٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔معروف محقق ڈاکٹر خلیق انجم اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ
اردو ادب میں بھی ٹھگوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ نامور ادیب اور ناول نگار مرزا ہادی رُسوا اپنی کتاب ’’امراؤجانِ ادا‘‘ میں ٹھگوں کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں
عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں یہ ٹھگ ہٹیں، تو مسافر کو راستہ مل جائے
لُوٹ کے گھر لے گئے ٹھگ! ٹھگ کے ہم کو کھاگئے
خانصاحب! تم ہماری جان کے قزّاق ہو
ع: ٹھگ لیا اُس نے ہم کو جُل دے کر۔
ٹھگ بِدّیا۔ ٹھگ سے ٹھاکر بنتا ہے۔ ٹھگ کی بھاکھاٹھگ جانے۔ ٹھگائی۔ ٹھگ ماری ہنڈیا۔ ٹھگوں کی بُڑھیا۔ ٹھگیا۔ ٹھگ ماری
صُبح کو چور کی دُھنڈیا ہوئی، وہ کہاں ملتا ہے۔ خانم مُنہ، تھُتھائے بیٹھی ہیں،
بی حُسینی بڑ بڑاتی پھرتی ہیں، میں ٹھگ ماری سی چُپکی بیٹھی ہوں۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوام الناس ایسے تمام گروہوں یا افراد کو بُرا سمجھتے تھے جو درِپردہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے تھے، اُن کی اِن سرگرمیوں کے باعث لوگ اپنے جان و مال سے محروم ہوجاتے تھے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بظاہر اِن لوگوں کی بُرائی کرتے تھے لیکن اپنے مفادات کے حصول کے لیے اُن کی سرپرستی بھی کرتے تھے۔اِس حوالے سے اگر ہم صرف کراچی کو اپنا موضوع بنائیں تو پاکستان کی تاریخ میں ایسے سیاسی لوگ جابجا نظر آئیں گے جنھوں نے جرائم پیشہ افراد کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ماضی قریب میں ہندوستان میں یہ لوگ ٹھگ ہوتے تھے لیکن عصرِ حاضر میں اِن کو بھتہ خور ، لینڈ مافیہ ، اغوا برائے تاوان اور ایسے بے شمار ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ عصرِ حاضر کے یہ جرائم پیشہ افراد ویسے ہی ہیں جیسے ماضی میں ٹھگ ہوتے تھے۔ ان میں کوئی ذات پات زبان، قوم اور مذہب کی تفریق نہیں ہوتی تھی۔
ہندو اور مسلمان ٹھگوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ ہاں بعض علاقوں میں مسلمان ٹھگوں کی تعداد زیادہ تھی اور بعض علاقوں میں ہندو ٹھگ زیادہ تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کا تعلق اُن بستیوں اور شہروں کے تناسبِ آبادی سے ہوگا جو ٹھگوں کے خاص مرکز تھے۔ ایک وعدہ معاف پُرانے ٹھگ فرنگیا کے بیان کے مطابق اودھ کے علاقے میں نوّے فی صدی مسلمان ٹھگ تھے۔ دو آبے کے علاقے میں تقریباً اسّی فی صدی ہندو تھے۔ دریاے نربدا کے جنوبی علاقے میں مسلمان ٹھگ پچھتّر فی صدی تھے۔ بُندیل گھنڈ اور ساگر کے علاقے میں ہندو اور مسلمان آدھے آدھے ہوں گے۔ راجستھان میں مسلمان ٹھگ پچّیس فی صدی ہوں گے۔ بنگال، بہار اور اُڑیسہ میں ہندو مسلمان تعداد میں کم و بیش برابر ہوں گے۔ اُس نے یہ بھی کہاکہ یہ محض اندازہ ہے اور اُس کی یہ بات بجائے خود درست ہے [رماسیانا اوّل، ص178 ]۔ یہ اندازہ سہی، لیکن اِس سے تعداد کے لحاظ سے صورتِ حال کی کچھ نہ کچھ یا یوں کہیے کہ اچھی خاصی وضاحت ضرور ہوجاتی ہے۔
ٹھگ ہندو ہو یا مسلمان، وہ کالی دیوی کو حاکمِ مطلق مانتا تھا اور اُس کے احکام کو واجبُ الّعمل یہ ماننا اُس کے عقیدے کا جُز تھا۔
ایک ہندو کے لیے دیوی کو ماننا کوئی خاص بات نہیں تھی، البتہ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ واضح طور پرتضاد تھاکہ وہ اپنے خدا اور پیغمبر کو بھی مانے اور دیوی کو بھی۔ رماسیانا میں مختلف ٹھگوں کے عدالتی اظہار کے تحت، اور انفرادی گفتگو میں یہ مسئلہ بار بار زیرِ گفتگو آیا ہے۔ سبھی مسلمان ٹھگوں نے متّفقہ طور پر یہ بیان دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ خدا کو اور اُس کے رسول کو ماننے میں اور دیوی کو ماننے میں کچھ تضاد نہیں۔ ہم خدا کو مانتے ہیں، اُس کے رسول کو مانتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، دوسرے اسلامی احکامات کی بھی پابندی کرتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ اِس دنیا میں دیوی کے احکام کو ماننا ہمارے لیے لازم ہے۔ وہ اِس دُنیا میں ہمارے تحفّظ کی ذمّے دار ہے۔ چوں کہ وہ بھی ایک آسمانی طاقت ہے، اِس لیے ہم کو یقین ہے کہ اگر ہم اس دُنیا میں اُس کے احکام کو مانیں گے، تو اُس دنیا میں خدا کی طرف سے ہم کو کسی طرح کی سزا نہیں ملے گی
اس سلسلے میں تسکینِ خاطر کی ایک صورت یہ بھی نکالی گئی کہ کالی دیوی کو تو سبھی مانیں گے کہ وہ ٹھگوں کی محافظ ہے؛ اِس کے بعد دوسری سطح پر ہندو بالمیک کو مانتے ہیں مرشد کے طور پر۔ وہ بالمیک کو برہمن مانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اُس کا اصل نام دُجاؤھم تھا۔ اور مسلمان ٹھگ حضرت نظام الدین اولیا کو مانتے ہیں اور اُن کے ’’مزار کی زیارت کو سعادت دارین تصوّر کرتے ہیں‘‘[مصلحاتِ ٹھگی، تحتِ ’’نظام الدین اولیا‘‘]۔ یہ دراصل مجرمانہ نفسیات کی تسکین تراشی ہے۔ ہندو اور مسلمان، دونوں نے ذہنی اور نفسیاتی سہارے کی صورت پیدا کرلی تھی۔ اِس طرح احساسِ جُرم کی خلش پیدا نہیں ہو پاتی تھی اور پیدا ہو تو یہ ، تراشیدہ سہارے اُس کو ختم کردیتے تھے۔ بہ ہر طور، ٹھگوں کے متعقدات کے ذیل میں عقیدے کا یہ، تضاد اور اُس تضاد سے ذہنی طور پر نجات پانے کی تدبیریں مطالعے کا دلچسپ موضوع بن سکتی ہیں۔
ٹھگوں کے گروہ مشترکہ ہندوستان میں ایک طویل عرصے سے کام کر رہے تھے لیکن انہیں کھلی چھوٹ اُس وقت ملی جب شاہ جہان ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ ولیم سلیمن اپنی کتاب رماسیانا کے صفحہ نمبر 32سے 33 تک میں اس کا ذکر کچھ یوں کرتا ہے:
ٹھگی ہندوستان میں خاصی پُرانے زمانے سے پائی جاتی تھی، البتہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے بعد سے اِس میں اضافہ ہوا۔ جیسے جیسے مغل حکومت کم زور پڑتی گئی، اُسی نسبت سے نظم و نسق میں ابتری پھیلی اور اُسی نسبت سے ٹھگوں کو اپنے کام کے لیے نہایت سازگار ماحول ملتا گیا۔ اٹّھارویں صدی اور اُنیّسویں صدی کا رِبیع اوّل اِس کے عروج کا زمانہ ہے۔ بدنظمی اور انتشار نے ٹھگوں کے لیے بہت سازگار حالات پیدا کردیے تھے۔ راستے جس قدر ویران اور غیر محفوظ ہوتے تھے، ٹھگوں کے لیے اُتنی ہی آسانیاں فراہم ہوجاتی تھیں۔ چوں کہ ٹھگی کا سارا عمل عموماً آبادیوں سے دور ویران مقامات اور راستوں پر انجام پاتا تھا اور مقتولوں کو ایسے مقامات پر گاڑدیا جاتا تھا کہ کسی کو اُن کی خبر تک نہیں مل پاتی تھی، اِس لیے لوگوں کو اِن کی غارت گری کا احوال معلوم ہی نہیں ہو پاتا تھا۔ ٹھگوں کے گروہ اِس قدر منظّم اور تربیت یافتہ ہوتے تھے کہ شروع سے آخر تک، یعنی مسافروں کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرنے سے لے کر اُن کے قتل تک سارے کام مقرّرہ طریقوں کے مطابق انجام پاتے تھے۔ پھر کام کی باتیں یہ لوگ اپنی زبان میں کیا کرتے تھے جس سے دوسرے واقف نہیں ہوتے تھے، یوں اِن کی کارکردگی کا حال کسی پر آشکار نہیں ہوپاتاتھا۔اِس کا کچھ اندازہ اِسی ایک بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیمن نے رماسیا میں لکھا ہے کہ جہاں میں سرکاری فرائض انجام دیتاتھا (1822سے1824 تک)، اُس کے قریبی علاقے میں ٹھگوں کا عمل دخل تھا اور میں اِس قدر بے خبر تھا اِس صورتِ حال سے کہ اگر کوئی شخص مجھ سے کہتا کہ اِس علاقے میں لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے تو میں اُسے دیوانہ سمجھتا۔
ٹھگوں کی مختلف قسمیں آج بھی ہمیں اپنے معاشرے میں نظر آتی ہیں۔کوئی سیاسی ٹھک ہے تو کوئی ادبی ٹھگ، کوئی ایک ٹھگوں کا گروہ کسی ایک خاتون کی شادی کئی لوگوں سے کرواتا ہے اور پہلی رات کے بعد ہر دولہا کا مال و اسباب لوٹ کر فرار ہو جاتا ہے۔اکثر ٹرینوں اور بسوں میں لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ ٹھگ کھانے پینے کی اشیاء میں نشہ آور چیزیں ملاکر اُن کو لوٹنے کے بعد فرار ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ ٹھگ لوگوں کو قتل نہیں کرتے۔ہندوستان میں ٹھگی کے خاتمے کا سہرا ایک انگریزفوجی افسر کیپٹن ولیم سلیمن کو جاتا ہے۔ معروف محقق خلیق انجم علی اکبر الہ آبادی کی کتاب مصُطَلَحاتِ ٹھگی کے حرف آغاز میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں:
ٹھگی قتل اور لوٹ مار کا ایک ایسا منظم طریقہ تھا، جو تقریباً دوسال تک ہندوستان میں رائج رہا۔ میری معلومات کے مطابق کسی بھی ملک میں ٹھگی کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ٹھگی محض ایک لوٹ مار اور قتل و غارت گری نہیں تھی بلکہ اُس نے ایک خاص مذہبی فرقے کی صورت اختیارکرلی تھی۔ اُس کے باقاعدہ اصول و ضوابط تھے۔ اس مسلک کے پیروکاروں کے ایسے عقائد تھے، جن کی پابندی ہر ٹھگ کے لیے لازمی تھی۔ وہ اپنے اصول و ضوابط کے تحت مخصوص لوگوں کو ہی قتل کرتے تھے، جس کا خان صاحب نے اپنے مقدمے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
برطانوی حکومت نے ٹھگی کے انسداد کا کام 1799 میں شروع کیا، لیکن غالباً بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔1830 میں ہندوستان کے گورنر جنرل ولیم بینٹنگ نے ٹھگی کو ختم کرنے کی ایک مہم تیار کی تھی اور اس مہم کا انچارج کیپٹن ولیم سلیمن کو بنایا۔سلیمن کا بیان ہے کہ 1835 تک بیشتر ٹھگ پکڑے جاچکے تھے اور ٹھگوں کے منظم گروہ تقریبا ختم ہوچکے تھے۔ سلیمن کے دو بڑے کارنامے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے ٹھگی بالکل ختم کردی اور دوسرے انھوں نے بعض ٹھگوں کو وعدہ معاف گواہ بنا کر اُن سے ٹھگی کے اصول، قواعد اور طریقہ کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ وعدہ معاف گواہوں کی تعداد لگ بھگ چار سو تھی۔ اگرچہ سلیمن کے پاس مختصر سی فوج اور انتظامیہ کے افسر تھے، لیکن اس نے جس منظم طریقے سے کام کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ1831 سے1837 کے عرصے میں تیس ہزار ٹھگوں پر مقدمہ چلا کر انھیں سزا ملی۔ ان میں سے اکثریت کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور کچھ کو کالے پانی کی سزا ہوئی۔ان سب کے بیانات کو بڑے سلیقے سے مرتب کرکے سلیمن نے Rama seeana نام کی ایک کتاب مرتب کی۔ سلیمن نے ایک کام یہ بھی کیا کہ ٹھگوں سے اُن کے خفیہ زبان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ایک فرہنگ مرتب کی۔
فیس بک پر تبصرے