توہین مذہب کی دفعات بلا تفریق مذہب ، سزا کا تعین کرتی ہیں
مسیحی خاتون ، آسیہ بی بی کو بری کرنے پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو جو ٹھیس پہنچی ہے اس کا ردعمل کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ جذباتی ردعمل دینے سے قبل ہمارے لئے اہم ہوگا کہ اس کیس کے تمام اہم نکات کا مطالعہ کر لیں ۔ یقینا 57ََ صفحات پر مشتمل کیس کا عدالتی زبان میں فیصلہ پڑھنا اور سمجھنا ہر فرد کے بس کی بات نہیں لیکن پھر بھی اس کیس پر بحث کرنے سے قبل ، آسیہ بی بی کیس کا مختصرا جائزہ لینا ضروری ہے ، تا کہ پڑھنے والے کو بات مکمل سمجھ آ جائے ۔
مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی 40 سالہ آسیہ بی بی ضلع ننکانہ کے دیہات اٹاں والی کی رہائشی ہے ۔بچوں کی ماں ہے جو غربت کے باعث اپنا گھر چلانے میں شوہر کی مدد کرتی ہے اور محمد ادریس نامی شخص کے فالسہ کے کھیت میں روزانہ اجرت پر کام کرتی ہے ۔اسی کھیت میں تقریبا 25 سے 30 اور خواتین بھی فالسہ چنتی ہیں تاہم وہ سب مسلمان ہیں ، کھیت میں کئی گھنٹے روزانہ کام کرنے کے دوران پیاس بجھانے کے لئے ، کچھ خواتین باری باری روزانہ پانی بھر کرلاتی ہیں ۔14 جون 2009ء کو جس خاتون کی کھیت میں پانی بھر کر لانے کی ذمہ داری تھی وہ پانی بھر کر نہ لائی ، اور یوں باقی خواتین کا وہاں جھگڑا شروع ہوا ۔جھگڑے کو ختم کروانے کے لئے آسیہ بی بی نے خاتون کو اپنا پانی پیش کر دیا ۔جس پر جھگڑا کرنے والی خواتین نے اسے غیر مسلم ہونے کا طعنہ دیا اور پانی پینے سے انکار کر دیا جس پر آسیہ کی باقی خواتین سے تلخ کلامی ہو گئی ۔واقعہ کی اطلاع کھیت کے مالک ادریس تک پہنچی لیکن جب تک وہ کھیت میں پہنچا تو معاملہ ختم ہو چکا تھا ۔ اس واقعہ کے دوران مسیحی خاتون کی جانب سے تلخ کلامی پر مسلمان خواتین ناراض ہوئیں چند دن تک اس معاملہ پر خواتین کو کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے، اس کی منصوبہ بندی کی گئی اور یوں ، انہوں نے واقعہ کی شکایت دیہات کی مسجد کے قاری محمد سلام سے کی ۔خواتین نے قاری سلام کو بتایا کہ آسیہ نے نبی کریم ؐکی شان میں توہین آمیز کلمات ادا کئے ہیں اس کے بعد گاؤں میں ہی ایک مبینہ عوامی اجتماع منعقد کیا گیا ۔آسیہ بی بی کو وہاں بلایا گیا اور اس عوامی اجتماع میں آسیہ بی بی سے پوچھا گیا کہ اس نے کیوں نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی کی ؟ اجتماع میں مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی جو مذہبی طور پر اس وقت خاصے جذباتی بھی تھے یوں آسیہ بی بی نے مبینہ طور پر وہاں اپنی جانب سے ادا کئے گئے ،گستاخانہ الفاظ کی معافی مانگ لی ۔اس کے بعد قاری محمد سلام نے پولیس اسٹیشن ننکانہ میں جا کر اپنی مدعیت ، گواہان معافیہ اور اسماء سمیت کل 7 افراد کے نام شامل کر کے مقدمہ کی درخواست دی جس کی ایف ۔ آئی ۔ آر سب انسپکٹر محمد رضوان نے درج کر لی ۔واقعہ کی تمام تر تفتیش سب انسپکڑ محمد راشد نے کی ۔انہوں نے نے فالسہ کے کھیت کا بھی معائنہ کیا اور آسیہ بی بی کا چالان پیش کر کے عدالت سے جیوڈیشل ریمانڈ بھی حاصل کیا ۔قانون کی رو سے توہین مذہب کے کیسز کی تفتیش سپرٹنڈنٹ پولیس سے کم درجہ کا پولیس اہلکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسے مقدمات کی پیروی کا آغاز ریاست کی اجازت کے بغیر ہو سکتا ہے تاہم اس کیس میں ان دونوں جگہوں پر قانونی تقاضہ مکمل نہیں کئے گئے ۔عدالت میں محمد سلام ، معافیہ اور اسماء کے بیانات میں واضح تضادات سامنے آئے جن میں عوامی اجتماع کس تاریخ کو منعقد ہوا ۔اجتماع میں کتنے لوگ جمع تھے ۔ جس اجتماع میں آسیہ بی بی نے اپنا اقبال جرم کیا وہ عوامی اجتماع کس کے گھر منعقد ہوا ۔یہ سب وہ نکات ہیں جہاں سے گواہوں کے بیانات میں مستقل تضاد سامنے آنے کا فائدہ آسیہ بی بی کو پہنچا ۔تمام گواہان نے عوامی اجتماع میں لوگوں کی تعداد ایک سو ، 1 ہزار اور 2 ہزار بتائی۔ گواہان کے مطابق عوامی اجتماع عبدالستار ، رانا رزاق اور مختار احمد کے گھر پر منعقد ہوا ۔گواہوں نے بتایا کہ عوامی اجتماع جس گھر میں منعقد ہوا وہ 5 مرلے کا تھا اور اس کا فاصلہ آسیہ کے گھر سے 2 گھر کا ہے ، کچھ میٹر کا ہے اور ایک نے کہا کہ آسیہ کا گھر وہاں نہیں ہے ۔جبکہ آسیہ کے خلاف درج ایف ۔ آئی ۔ آر میں قاری سلام ، مافیہ اور اسماء کے خلاف باقی گواہوں نے آسیہ کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا اور مقدمہ سے الگ ہو گئے ۔کھیت کا مالک محمد ادریس واقعہ کا سرکاری گواہ بنا ۔یوں یہ واقعہ صرف 4 گواہوں کے گرد گھومتا ہے جس کے بیانات آپس میں نہیں ملتے ۔اس کیس میں ابتدائی طور پر آسیہ بی بی نے نہ تو اپنی صفائی میں کچھ کہا اور نہ ہی کوئی شہادت پیش کی جس پر 8 نومبر 2010ء کو آسیہ بی بی کو سزائے موت اور 1 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ۔آسیہ نے اپنی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل 11 روز بعد دائر کی جو کہ کسی بھی کیس میں آنے والے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کے مقررہ وقت سے زائد وقت میں دائر کی گئی ۔تاہم اس جگہ آسیہ بی بی کو موت کی کال کوٹھری میں بند ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی اپیل کو منظور کر کے سزائے موت کو موخر کر دیا گیا اور یوں یہ کیس سپریم کورٹ میں 22 جولائی 2015 کو زیر سماعت لایا گیا ۔ سپریم کورٹ میں دوران سماعت ، اس بات کو مدنظر رکھا گیا کہ اگر 14 جون کو آسیہ بی بی توہین آمیز کلمات کی مرتکب ہوئی تو اس کے خلاف مقدمہ کی درخواست 5 روز بعد کیوں دی گئی ؟ عدالت میں گواہوں کے بیانات میں عوامی اجتماع کی تصدیق نہ ہو سکی جہاں آسیہ بی بی نے اقبال جرم کیا لہذا اس کے اقبالی بیان کو ماورائے عدالت اقبال جرم قرار دیا گیا ۔فالسہ کے کھیت میں آسیہ کا معافیہ اور اسماء کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کے واضح شواہد ملتے ہیں لیکن وہ شواہد صرف تلخ کلامی تک محدود ہوں ۔ پولیس نے 19 جون 2009ء کو آسیہ کے خلاف اسے مقدمہ درج کر کے اس کے گھر سے گرفتار کیا اس حوالے سے بھی بیان میں تضاد سامنے آیا ۔کھیت کے مالک محمد ادریس کے عدالت میں دئیے گئے بیان کے مطابق آسیہ کو عوامی اجتماع سے پولیس نے گرفتار کیا اور یہ عوامی اجتماع حاجی احمد علی کے ڈیرے پر نماز جمعہ سے قبل منعقد ہوا تھا ۔یعنی مقدمہ کے چاروں گواہوں نے عوامی اجتماع کی جگہ مختلف بتائی۔پولیس نے اپنی تفتیش میں یہ کہیں ظاہر ہی نہیں کیا کہ انہوں نے آسیہ کو کہاں سے گرفتار کیا تھا ، اور پولیس نے عدالت میں دئیے گئے بیان میں گرفتاری کا وقت شام 5 سے 7 کے درمیان بتایا کہ آسیہ کو اس کے گھر سے گرفتار کیا ۔ اس سارے کیس میں آسیہ نے جو بیان دیا وہ صرف فالسہ کے کھیت سے متعلق تھا کہ وہاں اس کی اپنا پانی مسلمان خواتین کو پیش کرنے پر معافیہ اور اسماء سے تلخ کلامی ہوئی انہوں نے مجھے مذہبی تنقید کا نشانہ بنایا ، کیونکہ دونوں بہنیں ہیں اس لئے وہ اپنی ہونے والی بے عزتی کا بدلہ مجھ سے لینا چاہتی ہیں ۔جس پر ادریس اور قاری سلام نے ان دونوں کا ساتھ دیا ہے۔اب یہ ساتھ مسلمان ہونے کے ناطے دوسرے مسلمان کا ساتھ دینے یا پھر علاقہ میں ساتھ رہنے تعلق کی بناء پر بھی ہو سکتا ہے ۔
اس کیس کے حوالے سے چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں ۔اگر آسیہ نے کھیت میں تلخ کلامی کے دوران توہین آمیز جملے ادا کئے تو وہاں 25 سے 30 اور خواتین بھی موجود تھیں اور وہ سب مسلمان تھیں تو ان کے جذبات کیوں توہین آمیز جملوں پر نہ بھڑکے ؟ اگر کیس میں یاسمین گواہی دینے سے پیچھے ہٹ گئی اور اس نے کہا کہ میں نے آسیہ کے منہ سے ایسے جملے براہ راست نہیں سُنے لہذا میں کیس سے الگ ہونا چاہتی ہوں تو وہاں پر موجود باقی خواتین نبی کریم ؐکے خلاف توہین آمیز جملے ادا ہونے پر کیوں گواہی دینے سامنے نہ آئیں ؟ گواہوں نے جو بیانات قلمبند کروائے ان میں تضاد کیوں پایا گیا ؟اگر ایسا کوئی بھی واقعہ سچا ہوتا تو بیان ریکارڈ کروانے کے دوران بات تو آگے پیچھے ہو سکتی ہے لیکن کیا ، عوامی اجتماع کا وقت ، دن ، مقام ، لوگوں کی تعداد کا تعین سب غلط ہو سکتا ہے ؟ اس بات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ واقعہ کی منصوبہ بندی میں عوامی اجتماع کا فیصلہ تو کیا گیا لیکن منصوبہ بندی ناقص تھی ۔پولیس کی تفتیش کی بات کی جائے تو تمام تفتیش ایک سب انسپکڑ نے کی لیکن بعد میں 26 جون 2009ء کو یہ تفتیش ایس ۔ پی انسویسٹی گیشن محمد امین بخاری کے سپرد کر دی گئی جس نے اس تفتیش کو مکمل کیا ۔ اس پورے کیس میں عوامی اجتماع کی تصدیق صرف اس صورت میں ہو سکتی کہ آسیہ نے خود کہا کہ اسے زبردستی ایسے مجمع کے سامنے پیش کیا گیا جو کہ مشتعل تھا اس لئے اس نے معافی مانگ لی یقینا آسیہ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ بھی ایسے موقع پر یہی کرتا ۔ اس کیس کا فیصلہ 9 سال اور تقریبا 5 ماہ بعد آسیہ کو بے گناہ قرار دے کر سنا دیا گیا۔
یہ کیس انتہائی ہائی پروفائل نوعیت کا کیس رہا ہے کیونکہ اس کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ایک مسیحی خاتون جس پر توہین مذہب و رسالت کا الزام بھی عائد ہے، کی طرف داری کرنے پر ان کے ہی اپنے سیکورٹی گارڈ انہیں 4 جنوری 2011ء کو اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا ۔جس پر سیکورٹی گارڈ ممتاز قادری کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور گورنر پنجاب کو قتل کرنے پر سزائے موت سنا کر 29 فروری 2016ء کو پھانسی دے دی گئی ۔آسیہ بی بی کا فیصلہ اب سپریم کورٹ دے چکا ہے جسے چیلنج کرنا مشکل ہے ۔اگر کیس نظر ثانی میں گیا بھی تو کیا چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے ہی دئیے گئے فیصلہ پر نظر ثانی کریں گے ؟ آسیہ کو دوران قید ملتان کی ویمن جیل میں رکھا گیا ۔ اکتوبر کو جب آسیہ کے کیس کا فیصلہ محفوظ ہوا تو اس دوران اس کا پاسپورٹ اور ویزا بنوایا گیا کیونکہ یقینا اب آسیہ اور اس کے خاندان کا پاکستان میں رکنا مناسب نہیں ۔ ذرائع کے مطابق کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی آسیہ کو ملتان سے منتقل کر دیا گیا ۔ہو سکتا ہے یہ منتقلی بیرون ملک ہو ۔اس کیس کے مدعی اور گواہان ہمارے نزدیک ، قاری محمد سلام ، معافیہ ، اسماء اور ادریس ہیں جو محنت کش طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کیس کے پیچھے منصوبہ بندی کرنے والا ذہن صرف مذہبی ہی نہیں سیاسی بھی ہے اور وہ اب تک سامنے نہیں آیا جس نے ایک ہی کیس میں پہلے سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی مرتکب خاتون کی طرف داری کرنے پر کافر قرار کا فتوی لگوایا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی وہ رہنماء جنہوں نے سلمان تاثیر کی حمایت میں بیان دیئے انہیں بھی جان کے لالے پڑ گئے جن میں شیری رحمان کا نام سرفہرست ہے ۔اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ممتاز قادری کو پھانسی دلوا کر نون لیگ کی حکومت پر بھی کفر کے فتوی لگوائے ۔اور اب سب کی من پسند حکومت تحریک انصاف کے دور میں آسیہ بی بی کی بریت ایک تیر سے 3 شکار کرنے کے مترادف ہے ۔اس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مذہبی جماعتوں اور تنظمیوں کی جانب سے تحریک انصاف کو بھی یہودیوں کی نمائندہ جماعت قرار دیا جا چکا ہے ۔اب کیا ہماری عدالتیں ان افراد کے خلاف بھی فیصلہ سنائیں گی جنہوں نے ناقص تفتیش کر کے آسیہ بی بی کو گرفتار کیا ۔اگر وہ بے قصور تھی تو کیوں اسے پہلے سزائے موت سنا کر کال کوٹھری میں رکھا گیا ۔آسیہ بی بی کے 10 سال کا حساب کون دے گا ؟ اس دوران جو جذباتی اور نفسیاتی ظلم اس نے اور اس کے گھر والوں نے برداشت کیا اس کا جواب کون دے گا ؟ کیا ریاست کے خلاف ہمیشہ لٹھ بردار لوگوں کا مجمع جیت جائے گا یا ان خواتین کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو گی جنہوں نے آسیہ بی بی کے غیر مسلم ہونے پر اس کے ہاتھ سے پانی پینے سے انکار کرنے اور اس کے مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانے سمیت اس کی تضحیک کی ؟ تعزیزات پاکستان کی شق 295 اور 295 اے بلا تفریق مذہب ، کسی دوسرے مذہب کی دل آزاری کرنے ، عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سمیت 2 سے 10 سال قید کی سزا اور جرمانہ عائد کرتی ہے ۔ان دفعات کے تحت آسیہ تو اپنے حصےکی سزا کاٹ چکی ۔کیا ریاست ان افراد کا بھی احاطہ کرے گی جو اس کیس کے اصل مجرم ہیں؟
فیس بک پر تبصرے