نئے پاکستان کا شعور

ڈاکٹر علی عثمان قاسمی مورخ و پروفیسر لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسسز

1,050

جیسا کہ ایک بھارتی ماہر تعلیم اور نظریہ دان سدیپتا کوی راج نے کہا تھا کہ ہندوستانی سیاست کی کہانی کو دو مختلف مگریکساں حیثیت کی طاقتور سطحوں پر بیان کیا جا سکتا ہے : ساختیاتی اور سیاسی سطحیں ۔ ساخت کے اعتبار سے ، سرمائے کی ترقی ، طبقے کی تخلیق اور سماجی پیچیدگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سیاسی سطح پر ، مرحلہ وار حکومتوں کا تاریخی تسلسل، سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کا اتارچڑھاؤ  اور قابل ذکر سیاسی رواجوں اور تحریکوں کو  پرکھا جا سکتا ہے ۔ یہ دونوں زاویئے جمہوریت کے وسیع تجزیئے تک پہنچنے کے لئے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔

پاکستان کے معاملے میں ، بدقسمتی سے، غالب رواج مرحلہ وار حکومتوں پہ رہا ہے اور اس دوران انفرادی رہنماؤں کی ”کامیابیوں اور ناکامیوں ” کا ریکارڈ رکھا گیا ہے ۔ جو تصویر اس کے زاویئے سے ترتیب پاتی ہے وہ زیادہ تر تقویمی ہے ۔  “ساخت” کے حوالے سے جو ایک  نقش واضح ہوتا ہے وہ فوج کا بطور ایک ادارہ  ادا کیا ہوا کردار ہے   ۔ کیونکہ جو حکمت عملیاں  اس نے مختلف دہائیوں کے دوران ملک کے  تزویزاتی اور سیاسی  معاملات میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے اپنائی ہیں اس کے نتیجے میں  تبدیلیاں اس کی اپنی صفوں کے اندر رونما ہوئی ہیں  چاہے وہ طبقاتی پس منظر میں ہوں یا نسلی خدوخال میں ۔

جیسا کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا عمل فوجی انتظامیہ کی جانب سے کی  گئی ساز بازیوں کے نتیجے میں بگاڑ کا شکار ہوا ہے  تو یہاں کے سیاسی منظرنامے کا تجزیہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا بیشتر حصہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر فوجی دخل اندازیوں کے سبب متاثر ہوا ہے ۔ ایک اور مسئلہ جو اس معاملے میں ایک تجزیہ کار کو ،جب اسے میڈیا یا عدالتوں پر فوج کے اثرانداز ہونے  کی تحقیق کرنی ہو،اضافی طور پر پیش آتا ہے وہ شواہد کے حصول میں ناکامی کا ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی شخص محض ماضی کے ان واقعات کا محض حوالہ ہی دے سکتا ہے جہاں اس طرح کی براہ راست دخل اندازی کے دستاویزی شواہد موجود تھے ۔ اس کی ایک مثال سال 1988 میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کی جانب سے تخلیق کی گیا اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی )  تھا جسے  دائیں بازو کے ووٹرز کو متحد رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے  مینڈیٹ کو متاثر کیا جاسکے ۔ ہم اس معاملے کو محض جنرل اسد درانی کی جانب سے 1990 کی دہائی میں سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان کی وجہ سے جانتے ہیں جو بعد میں مشہور زمانہ اصغر خان کیس کی بنیاد بنا اور اس کے نتیجے میں مزید شواہد سامنے آئے ۔  1988 میں اپنائے گئے اس ہتھکنڈے کی بہتر سمجھ بوجھ ایک تجزیہ کار پاکستانی سیاست کی تحقیق کے دوران اسی طرح کے ملتے جلتے ہتھکنڈوں کی مزید  بھی کھوج لگاسکتا ہے  جب انہیں مختلف ادوار میں مختلف سیاسی قوتوں کا رستہ روکنے کے لئے اپنایا گیا۔

سال 2013 میں پاکستان تحریک انصاف جب طاقت ور ہورہی تھی مگر اس قدر مضبوط نہیں تھی کہ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ کو انتخابی برتری سے روک سکے۔ حکومت کے پہلے ڈیڑھ برسوں میں نوز شریف نے انتخابی جیت کو سیاسی طاقت کے طور پر لیا اور اس پر عمل درآمد کی کوشش کی ۔

پاکستان کی سیاسی معیشت میں آنے والی ساختی تبدیلی ، جمہوری تسلسل پر اس کے اثرات اور اس کے برعکس صورتحال  کو سمجھنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ پاکستان میں 25 جولائی 2018 کے انتخابات اور ان کے دوران عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت کو بین الاقوامی میڈیا میں بڑے پیمانے پر دیکھا گیا۔ اس دوران جن دو معاملات پر زیادہ توجہ دی گئی ان میں اولاََ عمران خان کی نجی زندگی تھی کہ وہ کس طر ح ایک شہرت یافتہ پلے بوائے کھلاڑی سے سیاستدان اور پھر مذہبی طور پر بنیاد پرست طالبا ن کے حمایتی کے طور پر سامنے آئے اور ثانیاََ یہ کہ کس طرح ان انتخابات میں پاکستانی فوج نے اپنا کردار ادا کیا ۔ اس معاملے میں شک کی گنجائش کم ہے کہ پاکستان میں ہوئے حالیہ انتخابات  کو بجا طور پر ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ ملاوٹ زدہ انتخابات تھے جن کے دوران اس طرح کے خاص نتائج کے حصول کے لئے کوشش کی گئی۔ تاہم ، اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ عمران خان کے چاہنے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے  اور یہ پاکستان کی معیشت اور سماج میں آنے والی بڑی بنیاد ی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے جسے ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ۔ اور میری دلیل کا لب لباب یہ ہے کہ سماج کی زمینی سطح پر موجود یہ حمایت پاکستان  میں جنم لیے والے نئے متوسط طبقے کی جانب سے ہے جو کہ تاریخی طور پر یا تو غیر سیاسی رہا ہے یا اس نے فوجی  حکومت کی حمایت کی ہے۔  عمران خان کا سیاسی میدان  میں اترنا اور ا س  نئے متوسط طبقے کا وجود میں آنا ایک دلچسپ اتفاق ہے  ۔ طبقہ 1980 کی دہائی سے بننے کے مراحل میں تھا اور اس نے 1990 کی دہائی کی نیو لبرل معاشی پالیسی سے  استفادہ حاصل کیا تھا  ۔ میری رائے میں  ‘نیا پاکستان ‘ اس متوسط طبقے کا عروج ہے جس کے پاس  بوجوہ پاکستان کی سیاست اور سماج کو  قانونی طریقے سے تبدیل کرنے  کے لئے  اعداد میں برتری حاصل نہیں ہے ۔

حالیہ تناظر

ساختیات  کی سطح کا تجزیہ کرنے سے پہلے ان سیاسی حادثات کا تجزیہ لازم ہے جن کے نتیجے میں عمران خان کے لئے سیاسی کامیابی ممکن ہوئی۔

سال 2008 میں جمہوریت کے قائم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت میں ایک متحدہ حکومت وجود میں آئی ۔ اگرچہ پارٹی کے پاس حکومت سازی کی سادہ اکثریت موجود نہیں تھی تاہم اس نے قومی سطح کی اہم ترین قانون سازی اٹھارہویں آئینی ترمیم پر پارلیمانی اتفاق رائے قائم کیا جس کے نتیجے میں صوبوں تک اختیارات کی  منتقلی کا عمل طے پایا۔ صوبائی حکومتوں  کو اس اہم اقدام کی سمجھ آنے میں کچھ وقت لگا کہ اب اختیارات ان کے پاس منتقل ہوئے ہیں ۔  ان  رکاوٹوں کے باوجود کہ عدلیہ نے اختیارات کی حد عبور کی ، باقاعدگی سے لئے  گئے سوموٹو اقدامات کی بدولت حکمرانی کے عمل کو متاثر کیا اور توہین عدالت کو بنیاد بناتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے دیا ، اس کے باوجود جب سال 2013 میں انتخابات ہوئے تو امید کی کرن روشن تھی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت مکمل کی تھی (اگرچہ  تاریخ میں کبھی بھی کسی منتخب وزیر اعظم نے وزارت عظمیٰ کا عہد مکمل نہیں کیا )اور اختیار ایک دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا تھا ۔ ایسا محسوس کیا جا رہا تھا کہ اگر یہ عمل ایک تسلسل سے جار ی رہا تو اس کے نتیجے میں پاکستانی سیاست پر سے فوج کا دباؤ ختم ہونے لگے لگا جس کی وجہ سے پاکستانی ریاست پر تباہ کن سیاسی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

مزید برآں یہ کہ فوجی قیادت بھی  برابر ان تبدیلیوں سے آگاہ تھی  جو ملک میں وقوع پذیر ہورہی تھیں ۔ملک میں عسکریت پسندوں کی جانب بدترین تشدد کا عمل جار ی تھا ۔  سال2007-2008 میں مشرف کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے فوج کی نیک نامی پر بہت برا اثر ہوا تھا ۔ فوج نے  بطور ادارہ  ایک قدم کی پسپائی اختیار کی تھی لیکن اس نے سیاسی داؤپیچ آزمانے کا عمل مکمل طور پر ختم نہیں کیا تھا ۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کو اپنی ہردلعزیز  کرشماتی رہنماء کی کمی محسوس ہوئی  اور اس کی بدولت میاں نواز شریف کے لئے میدان کسی قدر خالی رہ گیا ۔ جیسا کہ بعد ازاں رونماء ہونے والے واقعات سے ظاہر ہے کہ نواز شریف نے اپنے بل بوتے پر اختیار حاصل کیا اور فوجی  بالادستی کو چیلنج کیا ۔ یہ خاص طور پر پنجاب کی حد تک بہت مضبوط تھا جس صوبے میں ملک کی آبادی کی بڑی اکثریت آباد ہے اور ملکی فوجی و سول  بیوروکریسی  اوردانشوروں کے بڑے طبقے کا تعلق یہیں سے ہے ۔ اسی لئے لازم تھا کہ اس کی طاقت  کا حلقہ محدود کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے عمران خان سے بہتر اور کوئی نہیں تھا جس کے لئے اس کے کرکٹ کیریئر کی وجہ سے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی خدمات کی وجہ سے یہاں زیادہ  حمایت  موجود تھی ۔

بہت سی ایسی وجوہات کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے انہیں اس دوران ایک مخالف سیاسی آواز کے طور پر مضبوط کیا گیا ۔ 2009 تا2011 کے درمیان ایک بڑی تشہیری مہم چلائی گئی جس میں انہیں  امید کی کرن کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے ملک میں رائج دو پارٹی نظام  کے مقابل ایک تیسری واحدقوت کے طور عروج دلوایا گیا ۔ یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ شخصی پسندیدگی کو بڑھانے کی یہ مہم اسی صورت کامیاب ہوسکی کہ وہ اس  نئے متوسط طبقے میں پہلے ہی مقبول تھے ۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی محدود  تعداد  میں اضافہ ممکن بنایا  خاص طور خان صاحب اکتوبر 2011 میں مینار پاکستان کے بڑے جلسے کے بعد تیزی  سے مقبول ہوتے چلے گئے ۔ اس دن کے بعد عمرا ن خان سیاست میں اکیلے گھومنے والے سیاستدان نہیں کہلوائے گئے ۔ وہ مسلم لیگ نواز کو چیلنج کرنے والوں کے لئے صوبہ پنجاب میں ان کے واحد موثر مخالف بن کر ابھرے ۔

سال 2013 میں انتخابات کے وقت تک پی ٹی آئی مضبوط ہورہی تھی تاہم وہ اس قدر طاقتور نہیں تھی  کہ  میاں نواز شریف کی مسلم لیگ  کارستہ روکے اور اسے ایک مرتبہ پھر اکثریت حاصل کرنے سے روک سکے ۔ پہلے ڈیڑھ سال تک کے عرصے میں میاں نواز شریف نے اپنے مینڈیٹ کو سیاسی طاقت کے اظہار کے طور پر لیا اور اسے  نبھانے کی کوشش کی ۔ اس میں یہ اقدامات جیسا کہ جنرل مشرف کو غداری کے مقدمے میں ٹرائل کر نے کے لئے خصوصی عدالت کا قیام اور بھارت سے تعلقات معمول  پر لانے کی کوشش کے لئے آگے بڑھنا  شامل تھا اگرچہ  کہ اس دوران مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھال لیا تھا ۔ جیسا کہ ڈاکٹر عائشہ جلال نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ”محض اس وجہ سے کہ نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنا اختیارات کا استعما ل بھی کریں ۔  فوجی اسٹیبلیشمنٹ نے نواز شریف کو عمران خان کے دھرنا اسٹیج کرکے کافی  زدوکوب کیا ۔ یہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج تھا  ۔ بعدا زاں دونوں جماعتوں کی جانب سے اس اتفاق کے بعد کہ ایک جیوڈیشل انکوائری تشکیل دی جائے گی 2013 میں ہوئے انتخابات کو کلین چٹ دے دی گئی ۔

2014 کے دھرنے کے سبب حکومت تقریباََ گرنے والی تھی ۔ یہ کوشش  خود اس وقت کے تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کے اس بیان کے بعد ماندپڑ گئی کہ اس سیاسی احتجاج کے پیچھے فوج کا کردار ہے ۔مزید برآں یہ بھی نواز شریف کو بھی اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا  کیونکہ انہوں نے فوجی احکامات پر سر تسلیم خم کرنا قبول کرلیا ۔ اس کے لئے لازم تھا کہ وہ جنرل مشرف کے خلاف جاری ٹرائل کو  روک دیتے اور معاملات کو سیکورٹی پر مرکوز کرلیتے ۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مشرف علاج معالجے کی غرض سے ملک چھوڑ کر چلے گئے  ۔ خارجہ پالیسی کی سطح پہ نواز شریف نے اپنے اقدامات روک لئے اگرچہ انہوں نے فوج کی جانب سے بھارت دشمنی کے مزید اقدامات کی مزاحمت بھی کی۔ فوج کے لئے پاکستان میں بھارت مخالف جذبات کو مزید ہوا دینے کے لئے مودی کا انتخاب  قدرت کا تحفہ تھا اگرچہ نواز شریف نے ذاتی طور پر مودی کو برابھلا نہیں کہا ۔ اسی طرح ، کلبھوشن یادیو ، جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھارتی فوج کا حاضر سروس ملازم ہے اور وہاں کی ایجنسی را کا ایجنٹ  ہے جب وہ بلوچستان کے علاقے سے گرفتار ہوا تو فوجی حکام کو یہ توقع  تھی کہ نواز شریف عالمی دنیا میں اس معاملے پر جاری بحث کو سختی سے نمٹیں گے ۔ نواز شریف نے اس کو نظرانداز کیا ۔ لہذا اس وجہ سے یہ کام بیرون ملک تعینات سفیروں کو کرنا پڑا مگر عالمی دنیا میں ان کی آواز کی اتنی وقعت نہیں تھی ۔  فوجی حکام نے اس معاملے پرغیر سفارتی اقدامات کی حوصلہ افزائی  کی ۔ بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایسے انداز میں  رویہ دکھایا اور بات کی کہ اس کی معذرت ممکن نہیں تھی ۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم  کے کپتان شاہد آفریدی نے موہالی میں ہوئے پاک بھارک میچ کے دوران  کہا وہ پاکستان کی حمایت میں آئے کشمیریوں کا شکریہ  ادا کرتے ہیں ۔

پارلیمان میں دو تہائی کے نزدیک اکثریت ہونے کے باوجود نواز حکومت نے اس  سے کہیں زیادہ سیاسی جگہ فوج کے لئے مہیا کی جو اس سے پہلے اقلیتی پیپلزپارٹی حکومت نے واپس لی تھی۔

بظاہر، نواز شریف حکومت کا خیال تھا کہ اگر ملکی تحفظ اور خارجہ پالیسی کا معاملات فوج کے سپرد کردیئے جائیں تو تنازع سے بچا  سکتا  تھا ۔ اب انہیں بڑے میگا پروجیکٹس جیسا کہ موٹرویز  کی تعمیر ، توانائی کے نئے ذخائر کی تعمیر تاکہ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جاسکے ، ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تعمیر مثلاََ لاہور ، ملتان اور راولپنڈی اسلام آباد جیسے شہروں میں میٹرو بس سسٹم  جیسے ترقیاتی کاموں پہ توجہ مرکوز رکھنی  تھی۔ اس کارکردگی کی بنیاد پہ ان کا خیا ل تھا کہ وہ انتخابات جیت جائیں گے ۔ یہ بھی ، ترقیاتی کاموں کا تسلسل اور جمہوری انتخابات کا بروقت انعقاد پاکستان میں جمہوریت کی مضبوط کا باعث ہوگا ۔ مگر یہ نہ ہوسکا،  اگرچہ انتخابات بروقت ہوئے اور طاقت کی منتقلی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پایا۔

پارلیمان میں دو تہائی کے نزدیک اکثریت ہونے کے باوجود نواز حکومت نے اس  سے کہیں زیادہ سیاسی جگہ فوج کے لئے مہیا کی جو اس سے پہلے اقلیتی پیپلزپارٹی حکومت نے واپس لی تھی ۔ایسا کیا معاملہ گزشتہ چار سال کے دوران پیش آیا کہ  جمہوری عمل کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار کا منصوبہ  کامیاب  نہیں ہوپا یا۔

ایک اہم واقعہ جسے تجزیہ کار نظرانداز کرتے ہی مگر وہ بہت اہم ہے وہ  جنگ جیو گروپ سے وابستہ سینئر صحافی حامد پر اپریل 2014 میں ہونےوا لا قاتلانہ حملہ ہے ۔ ان کے میڈیا گروپ نے اس واقعہ پر  کھلم کھلا اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کو اس قاتلانہ حملے میں ملوث  ہونے کا الزام دیا ۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ ناقابل تصور تھا  ۔ فوجی انتظامیہ نے اس معاملے کے ذریعے اس میڈیا گروپ  پر چڑھائی کردی ۔ اس دوران ملک کے اس بڑے میڈیا گروپ  کی ٹرانسمیشن روکی گئی اور اس کے خلاف عوامی جوش و جذبے کو یہ کہہ کر بھڑکایا گیا کہ یہ گروپ ملک دشمن ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ اس سلوک کے ذریعے باقی میڈیا گروپس کے لئے مثال قائم کردی گئی ۔ انہوں نے بناء کسی مزاحمت کے ہی ہتھیار ڈال دیئے ۔لہذا ، بظاہر کہنے کی حد تک تو پاکستا ن میں آزاد اور خود مختار میڈیا موجود ہے  تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس نے اندرون خانہ سر تسلیم خم کررکھا ہے ۔

انہی معنوں میں عدلیہ کی آزادی کا ایک فریب بھی قائم کیا جا چکا تھا ۔ جنرل مشرف کی جانب سے اس وقت کے چیف  جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ہٹانے کی کوشش کے بعد ایک عوامی تحریک انہیں دوبارہ بحال کرنے کے لئے شروع کی گئی۔  وکلاء تحریک ، جیسا کہ اسے  یہ نام دیا جاتا ہے ،انجام کار ،چیف جسٹس اور ان کےا ن ساتھیوں کو عدلیہ میں بحال کروانے میں کامیاب ہوگئی جنہوں نے چیف جسٹس کی حمایت میں اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا تھا یا انہیں جنرل مشرف نے ایمرجنسی کا نفاذ کرکے عہدوں سے ہٹا دیا تھا ۔ اس وقت سے آج تک ، یہ فریب قائم ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے ۔ لیکن اعلیٰ عدالتوں کا ٹریک ریکارڈ ایک دوسری تصویر دکھاتا ہے۔  عدالتیں عوامی حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں کے متعلق سخت گیر فیصلے سنا رہی ہیں لیکن جب معاملہ فوجی انتظامیہ سے متعلق معاملات کا ہو تو  جو رویہ وہ اپناتی ہیں اسے بزدلی کہا جا سکتا ہے ،حتیٰ کہ وہ سیاستدان بھی عدلیہ کی گرفت سے محفوظ نظر آتے ہیں جو جمہوریت کو دبانے کے لئے فوجی انتظامیہ کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں ۔

آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کا یہ فریب جس میں ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے معاملات میں آپ مختار ہیں ، نے نواز شریف کی سیاسی تنزلی اور بروقت قید میں بڑا اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ یہ سب معاملات سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنائے جانے سے ایک مہینہ قبل گردش کرنے والی ان پیش گوئیوں کا باعث تھے جن میں مستقبل کی پیش بینی کردی گئی تھی  ۔پاکستان کے تجربہ کار صحافی سہیل وڑائچ نے 2017 میں ہی ایک کالم بعنوان ” پارٹی از اوور” لکھا  تھا جس میں ان تمام واقعات کو بیان کردی گیا تھا جو آئندہ پیش آنے والے تھے ۔ نواز شریف کو سیاست سے عمر بھر کے لئے نااہل اور عہدے سے برطرف  کر دیا گیا تھا اور اس مقصد کے لئے آئین کی تکنیکی تشریح کا سہارا لیا گیا تھا ۔ سہیل وڑائچ کی جانب سے تحریر کی گئی دیگر پیش گوئیوں میں اٹھارہویں ترمیم   کا خاتمہ  تاحال ہونا باقی ہے ۔

مترجم : شوذب عسکری

یہ مضمون فرائڈے  ٹائمز میں شائع ہوا جسے تجزیات آن لائن کے لئے شوذب عسکری نے اردو میں ترجمہ کیا ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...