آسیہ، خاموش اقلتیں اور اداروں کا ادھورہ کام
آسیہ بی بی کو ملتان ویمن جیل سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے ٹھیک 7 روز بعد رہا کر دیا گیا ، آسیہ پاکستان میں ہے یا بیرون ملک ، آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا تاہم ، اس سارے معاملہ میں پاکستان کا تصور دنیا بھر میں ایک بار پھر ایک انتہا پسند قوم کے طور پر سامنے آیا ، ایسی قوم جس کے سامنے ثبوت اور گواہی کوئی معنی نہ رکھتے ہوں جہاں کمزوری گواہان کی اپنی ہی ہو ، اور جرم بھی گواہ ثابت نہ کر سکیں لیکن صرف دل کی تسلی ہو جائے وہاں وہ کسی کی جان لینے کے بھی درپے ہیں ، اور ریاست بھی ایسے معاملات پر دو ٹوک مؤقف رکھنے کی بجائے شر پسندوں کے سامنے ہیتھار ڈال دے اور معاہدہ کر لے تو سمجھ لیں کہ ایسی شدت پسندی آئندہ مزید مضبوط ہو گی اور قوم کے ساتھ سڑکوں پر ایسی وارداتیں معمول بن جائیں گی جو دوران دھرنا ہوتی رہیں ہیں ، سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلوں پر اعتراض سہی ، آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ ایسے کیسز میں انصاف دے کر دنیا بھر میں اپنا تأثر بہتر کیسے کرنا ہے ، لیکن یہاں بھی سپریم کورٹ نے سابقہ روایت برقرار رکھی ، معزز جج صاحبان کے خلاف اگر کوئی ڈھکے چھپے انداز میں بھی تنقید کر لے تو اسے عدالت طلب کر لیا جاتا ہے اور پھر پیشیاں بھگتنے کے بعد انہیں سزائیں اور جرمانے عائد کئے جاتے ہیں اور گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا اس پر سپریم کورٹ کی خاموشی پہلی بار نہیں ہے ، پچھلے برس بھی مولانا خادم رضوی کی توہین آمیز گفتگو کو نظر انداز کیا گیا، مولانا صاحب کی جماعت نے مذہب کے نام پر غریب ، دیہاڑی دار کی املاک کو نقصان پہنچایا ، لیکن جب تک ریاست ایسے لوگوں کو پالنا بند نہیں کرے گی ، ہم شدت پسندی کو ختم کرنے کی جانب بڑھ ہی نہیں سکتے ، وہ دین دار جو بغیر تصدیق کسی عام شخص پر واجب القتل کا فتوی لگاتے ہیں اور اس عام شہری کی زندگی کم سے کم اپنے خاندان کے لئے کس قدر قیمتی ہے اس کا علم اس وقت ہوتا ہے جب وہ قتل ہو چکا ہوتا ہے بہرحال اس بار واجب القتل کا فتوی ملک کے اعلی ترین اداروں کے سربراہوں پر عائد کیا گیا ، اس پر بھی خاموشی نے کئی سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔مولانا خادم رضوی اسلام کا جو چہرہ بن کر سامنے آئے ہیں ، ایسے کردار ہر دور میں وقت کی ضرورت رہے ہیں ، نام بدلنے سے حاصل کردہ مقاصد نہیں بدلتے ، جو اپنے ہی دین کو مسخ کرنے میں مصروف عمل رہے ، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی جنونی صرف مسلمان ہیں یا یہاں بسنے والی اقلتیوں کی خاموشی بھی اس جنونیت میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے ؟ آسیہ بی بی کیس پر پاکستان بھر میں کسی اقلیت یا اقلتیوں کی نمائندہ تنظمیوں سمیت اقلیتی رہنماوں میں سے کوئی بیان ، پرامن احتجاج یا مطالبہ سامنے ہی نہیں آیا ، میں نے مسیحی حلقہ سے تعلق رکھنے والے کئی مرد و خواتین سے آسیہ بی بی کیس پر رائے جاننے کی کوشش کی تو زیادہ تر کا جواب گہری خاموشی تھا اور یہ وہ لوگ تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں ، یہاں تک کہ بہت سے مسیحی افراد نے یہ بھی کہا کہ ہم کچھ نہیں جانتے آسیہ گستاخ ہے یا نہیں ، اگر اس کو پھانسی دینے سے ملک میں امن ہوتا ہے تو آسیہ کو پھانسی دے دینی چاہیے ، اکا دکا باہمت مسیحیوں نے ایسا جواب دیا کہ اب سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اسے مان لینا چاہیے ، اس صورت حال کی قصوروار ہماری ریاست ضرور ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں اقلتیں خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں اور آسیہ بی بی کے فیصلہ پر اقلیتوں کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل نہ آنا اسی کی مثال ہے ، لیکن کسی نہ کسی فورم پر اقلتیوں کی جانب سے آسیہ کے لئے ، مضبوط آواز اٹھنا ضرور چاہیے تھی ، اور یہ آواز ، احتجاج برائے احتجاج نہ سہی کہ ایک جانب ڈنڈا بردار فورس سڑکوں پر ہے تو اقلتیوں کے نمائندے بھی ان کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے اور ملک میں ایک اور انتشار پھیلتا البتہ اس اہم مسئلہ پر کس طرح موثر آواز اٹھائی جا سکتی تھی اس پر پاکستان کی اقلتیی برادری کو لائحہ عمل بنانا چاہیے تھا ، لیکن شائد ابھی ایسے اقدامات کرنے پر بہت عرصہ درکار ہے ، اس ملک میں اقلتیں کیسے اپنے حق کے لئے آواز اٹھا سکتی ہیں ؟ جہاں آسیہ بی بی کا فیصلہ سنانے کے بعد محسوس ہو کہ اسلام خطرے میں ہے اور ہمارے وزیراعظم کو ختم نبوت کانفرنس بلانی پڑ جائے اور یہ اعلان کرنا پڑے کہ اس سال ہم 12 ربیع الاول نہایت جوش اور مذہبی جذبے سے منائیں گے ،اور تو اور پاکستانی کرکٹ ٹیم اچھی کارکردگی دکھا دے تو انعام میں بھی آرمی چیف کی جانب سے عمرہ پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے ، توہین مذہب کے کیس کا فیصلہ سنانے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو فیصلہ کی ابتداء پر اپنے مسلمان ہونے کے لئے کلمہ لکھنا پڑے ، ایسے ملک میں ہم کیسے یہ تصور کر لیں کہ جہاں مضبوط ترین شخصیات اور اداروں کے سربراہ ، مذہبی انتہا پسندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور وضاحتیں پیش کرتے ہیں وہاں دوسرے درجے کے شہریوں کی بھلا کیا اوقات ؟ اور اگر واقعی آپ اپنے اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ، اپنے اوپر عائد فتووں کا مواخذہ کرنا چاہتے ہیں تو ایسے عناصر کا کسی دوسرے کے خلاف استعمال پہلے آپ کو خود ترک کرنا پڑے گا ، ورنہ اپنے دور رس مفادات کے لئے ایسے فتوی برداشت کریں ، اور اگر واقعی پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں جہاں سب کو برابر حقوق ملیں اور شرپسندی کا تعلق چاہے جس بھی طبقہ سے ہو تو ایسی مذہبی جماعتوں کے خلاف ایکشن لیں ، کفر کے فتووں پر خاموشی اختیار مت کریں بلکہ سزا دیں تا کہ مذہبی بنیادوں پر آئندہ انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو ، اپنا امیج بہتر کرنے کے لئے جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے اسے ادھورہ نہیں اب مکمل کریں
فیس بک پر تبصرے