منظر بدلتے دیر نہیں لگتی

832

شاید اس حقیقت کو تسلیم کر ہی لینا چاہیئے کہ اب ہمارا معاشرہ اس نہج پر چل نکلا ہے جہاں ہر اُس چیز پر بہت شور ہوتا ہے جو منظر پر ہو، لیکن منظر بدلتے یہاں دیر نہیں لگتی۔

ایک خبر جس کا کئی دن تک مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر بہت چرچا رہا ہو، گلی محلے، دکان میں بیٹھا ہر کوئی اس پر کچھ نا کچھ کہہ رہا ہو اور سوشل میڈیا صارفین اپنے اپنے انداز میں اُس پر تبصرے کر رہے ہیں۔

اور پھر اچانک وہ  خبر ’قدرے بڑی‘ خبر کی گہما گہمی میں

گم ہو جائے یا دھندلا جائے، تو حساس دل لوگوں کو کچھ یوں ضرور لگے گا کہ بھیڑ میں کچھ ایسا کھو گیا ہے جسے ابھی منظر پر رہنا چاہیئے تھا۔

ایک ایسی ہی خبر تھی نوجوان طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں سرم عام قتل کیے جانے کی تھی، جس انداز میں اُس پر معاشرے کا ردعمل سامنے آیا اور حکومت و عدلیہ حرکت میں آئی یقیناً مشال کے والدین کی اس سے اُمیدیں بندھ گئی ہوں گی کہ اُنھیں اب جلد انصاف ملے گا۔

نا جانے اب اس میں کتنا وقت لگے، کیوں کہ گزشتہ ایک ہفتے سے تو کوئی بھی اہم رہنما صوابی کے علاقے زیدا میں مشال کے گھر نہیں گیا۔

کیوں کہ ملک میں انصاف کی فراہمی کے سب سے بڑے ادارےعدالت عظمیٰ کے ایک نئے فیصلے کے بعد مشال خان کے قتل معاملہ کچھ پش پشت چلا گیا ہے۔

آف شور‘ کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں بنانے سے متعلق اپریل 2016 کے اوائل میں پاناما کی ایک لافرم موساک فونسیکا کی منظر عام پر آنے والی معلومات سے متعلق دائر درخواستوں پر 20 فروری کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا تھا کہ منظر ہی بدل گیا۔

ملک میں ایک نئی بحث، ایک نئی مہم اور سیاسی ہلچل کا آغاز ہو گیا۔اس عمل میں اب وہ تمام شامل ہو گئے ہیں، یا ہوتے جا رہے ہیں جنہوں نے عوام اور عوامی مسائل کے لیے آواز بلند کرنی ہوتی ہے، یعنی سیاستدان و سیاسی جماعتیں۔شور بڑھتا جا رہا ہے، سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جلسے اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔سیاسی حریفون کی طرف سے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، نئے نئے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔اس بڑھتے شور میں کون وہ آوازیں سنے گا، جن کا سنا جانا ضروری ہے۔

شاید اس حقیقت کو تسلیم کر ہی لینا چاہیئے کہ اب ہمارا معاشرہ اس نہج پر چل نکلا ہے جہاں ہر اُس چیز پر بہت شور ہوتا ہے جو منظر پر ہو، لیکن منظر بدلتے یہاں دیر نہیں لگتی۔

لیکن آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ مسائل کے حل پر توجہ دی جائے، اُنھیں گم نا ہونے دیا جائے۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے بہت دانش کی ضرورت نہیں، کیوں کہ رواں ہفتے میں ایک ڈاکٹر کے کلینک پر بیٹھا اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے وہی کر رہا تھا جو آج کے دور میں ایک نشہ بن چکا ہے، یعنی اپنے موبائل فون پر ایک ایپلکیشن سے دوسری اور پھر تیسری پر موجود تحریریں، تصاویر اور ویڈیو دیکھ کر وقت گزار رہا تھا۔

اس دوران قریب بیٹھا ایک شخص اپنے ساتھی سے گفتگو کر رہا تھا اور اس کی ایک بات نے مجھے ہلکا سا چونکا دیا کہ ’’یار یہاں انصاف کب ہو گا۔‘‘

جس پر دوسرے شخص کا کہنا تھا کہ جو شور مچاتا ہے، اُسے کچھ نا کچھ مل جاتا ہے لیکن خاموش رہنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

اس معصوم تجزیے نے میرے سامنے ایک بڑا سوال لا کھڑا کیا ہے کہ کیا صرف شور مچانے ہی سے حق ملے گا۔

اگر اسے درست مان بھی لیا جائے، تو ہمارے ارد گرد ان دنوں شور بہت ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے۔

اسی لیے اس شور میں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون صرف اپنی پسند کا سچا کہہ رہا ہے۔

لیکن بات ضرور ہے کہ شور مچانے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب اُن سے زیادہ بلند آواز کوئی بات کہنے والا آ گیا تو ان کی بھی نہیں سنی جائے گی، اس لیے مجبور اور کمزور آوازوں کو کبھی دبنے، مرنے یا پس پشت نا جا دو۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...