غلام عباس: موجودہ منظرنامے کا پیشین گو
غلام عباس کا طویل افسانہ ’دھنک‘ جیسا 1969میں برمحل تھا،جب یہ تخلیق ہوا تھا، اور اپنی ایک خاص معنویت رکھتا تھا، ایسے ہی آج بھی اس کا جواز بہت واضح ہے اور اس کی معنویت کے کئی نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔ پیلی، نیلی اور سفید پگڑیوں والے ملاؤں کی کہانی اس دور میں ضرور قبل از وقت تصور کی جا سکتی ہوگی، لیکن آج اس کے برموقع ہونے کی کہیں زیادہ ٹھوس شہادتیں موجود ہیں۔
دھنک میں ایسے معاشرے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اعلی تر سائنسی کمالات کے درجے پر پہنچنے کے بعد محض مذہبی تنگ نظری اور ملاؤں کی فرقہ پسندیوں اور ذہنی و فکری گھٹن کے باعث بربادی کا شکار ہوتا اور کھنڈر میں تبدیل ہوکر رہ جاتا ہے۔ گزرے ہوئے کل میں لکھا گیا یہ افسانہ ہماری آج کی صورت حال کو اپنا موضوع بناتا ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک عظیم لکھنے والا پچاس برس پہلے ان حالات کی پیشین گوئی کر رہا تھا جو آج زیادہ واضح اور نمایاں انداز میں رونما ہورہے اور زیادہ حتمی صورت میں اس انجام کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کی ایک جھلک ہمیں غلام عباس نے اپنے افسانے میں دکھائی ہے۔ آج اس افسانے کا مطالعہ بالکل اسی انداز میں ضروری اور بامعنی ہوگیا ہے جیسا کچھ عرصہ پہلے عام انتخابات کے موقع پر اور اس کے بعد کے حالات میں منٹو کا افسانہ ’نیا قانون‘ کہیں زیادہ معنویت کے ساتھ ہم پر کھلا تھا جس کا کردار منگوکوچوان مسلسل نیا قانون، نیاقانون کی رٹ لگاتا ہے تو تھانیدار اس کی گردن پر دھپہ مارتے ہوئے چیخ کر کہتا ہے کہ شور مت مچاؤ،کوئی نیا قانون نہیں آیا، سب کچھ وہی ہے،جو پہلے تھا۔
دھنک ہی نہیں، غلام عباس کے ایک سے زائد افسانے ان کے اس رجحان کے عکاس ہیں جن میں انھوں نے مذہبی منافرت اور تعصب کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے معاشرے کی سماجی و ثقافتی تباہی کا باعث قرار دیا۔ ’لچک‘ اسی موضوع کے گرد بنا ہوا غلام عباس کا ایک اور قابل ذکر افسانہ ہے۔
غلام عباس کی ملک گیر شہرت کا آغاز1948کے قریب ہوا جب ان کا افسانہ ’آنندی‘ شائع ہوا۔ اس شہرہ آفاق اور کثیر المعانی افسانے نے جائز طورپر ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ غلام عباس ایک دم سے اردو کے اعلی افسانہ نگاروں کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔آج بھی اردو کے مقبول اور اعلی ترین افسانوں کی کوئی ایسی فہرست تصور کرنا دشوار ہے جس میں آنندی کی شمولیت نہ ہو۔
آنندی کی اثر انگیزی اور طاقت کا منبع اس کا دریاؤں کی سی شانتی اور استحکام کے ساتھ بہتا ہوا بیانیہ ہے۔ جیسا کہ محمد حسن عسکری نے کہا کہ افسانے کا خیال کسی عام افسانہ نگار کے ہاتھ آیا ہوتا تو وہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر کوئی سی بھی کہانی کا غلاف منڈھتا اوراسے چند پیراگرافس یا صفحوں میں سمیٹ کر ضائع کردیتا۔ غلام عباس انتہائی فنی ضبط کے ساتھ لکھنے والے ایک غیر معمولی ادیب ہیں۔ یہ صبر و ضبط انھوں نے اپنی افتاد طبع سے تو لیا لیکن عظیم عالمی کلاسیکی ادب کے مطالعے اور ترجمے نے اسے جلا بخشی۔ آنندی میں انھوں نے عمارتوں اور گھروں کی دیواریں اساریں، دکانیں قائم کیں، بازار سجائے،لوگوں کو وہاں آباد کیا، اور ایک شہر بسایا جو وقت گزرنے کے ساتھ اسی شہر جیسا پررونق ہوجاتا ہے، جیسا وہ شہر تھا، جہاں سے نکال کر طوائفوں کو وہاں لاپھینکا گیا تھا۔
غلام عباس نے اپنے ایک انٹرویو میں خود بھی اس امر کا اظہار کیا کہ خیال آفرینی اور تخیل آزمائی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے ذاتی تجربے کو بھی اس افسانے میں سمودیا تھا۔ ’’میرا افسانہ آنندی بھی اسی قسم کے مشاہدے پر مبنی ہے جو میں نے طوائفو ں کے علاقے کی تعمیر نو کے سلسلے میں مشاہدہ کیا۔‘‘ دہلی میں طوائفوں کو اس باعث چاوڑی کے علاقے سے نکال دیا گیا تھا کہ ان کی موجودگی شہر کے شرفاء کو کھٹکتی تھی اور اس سے مردوں اور عورتوں کے اخلاق بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ طوائفوں کوشہر سے میلوں دور رہنے کو جگہ دی گئی تھی۔ لیکن جب وہ جگہ بھی آخر ان عورتوں کی وجہ سے آباد ہوگئی اور یہ بازار حسن اس آبادی کا مرکز بن گیا تو پھر اس علاقے کی بھی میونسپل کمیٹی نے انھیں اس علاقے سے نکال دینے کا مطالبہ کیا۔ آنندی ہمیں انسانی تہذیب کے آغاز و ارتقا کی کہانی ایک مختلف زاویے سے بیان کرتا ہے جسے ماننے کو دل نہیں چاہتا۔لیکن اسے مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ یہ محبت اور نفر ت کا ملاجلا رشتہ، فطرت اور زندگی کے ساتھ انسان کا یہ دو رخا تعلق ہی غلام عباس کا محبوب موضوع ہے۔
غلام عباس کے حوالے سے محمد حسن عسکری سمیت کئی ناقدین نے یہ شکوہ کیا کہ اردو میں ایسے بڑے فن کار کوطویل عرصے تک نظرانداز کیا گیا اور ہنوز انھیں ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا ہے۔اس کے باوجود غلام عباس کے آنندی سمیت چند افسانے اردو افسانے کی آبرو مانے جا سکتے ہیں، اور وہ معروف بھی بہت ہوئے لیکن خود غلام عباس نہ اپنی زندگی میں اور نہ بعد ہی بہت زیادہ زیر بحث لائے گئے۔عمومی طورپر ناقدین نے انھیں نظرانداز کیا۔ افسانہ نگار کا معروف ہونا اور کسی ادیب کے چند افسانوں کا معروف ہونا،یہی فرق ہمیں غلام عباس کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
غلام عباس کی شخصیت اور ان کی مجموعی لکھت میں ویسا گلیمر اورشور شرابا اور پرانی جمالیات یا بوسیدہ اخلاقی اقدار وغیر کی بلند آہنگ توڑ پھوڑ دکھائی نہیں دیتی کہ جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلے۔یا اگر یہ ہے بھی تو ایسے دھیمے اور شائستہ انداز میں ہے کہ یہ سنائی تو دے لیکن آپ کے حواس کو اپنی جکڑ میں نہ لے۔ نہ ہی آپ نے کسی نظریے کے سائبان تلے آکر خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ نہ آپ نے اپنی کہانیوں کی زبان کو پرشکوہ یا جذباتیت سے مملو بنایا۔ نہ تکنیک کے تجربے کیے۔ نہ کسی پر کیچڑ اچھالا، نہ کسی کو للکارا۔ غرض کہ انھوں نے کوئی ایسا فارمولہ نہیں اپنایا کہ جو فی زمانہ معروف ہے اور جو کسی بھی لکھنے والے کی شہرت کویقینی بنانے کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے خود کو سجانے اور سنوارنے کی کبھی سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔
غلام عباس نے بہت خاموشی سے اور تحمل کے ساتھ عام کرداروں پر مبنی زندگی کے نکتے سجھاتی ہوئی خاص کہانیاں لکھیں جن میں سردیوں کی دو پہروں جیسی خوش گوار حدت ہے۔ یہ کہانیاں بظاہر جتنی سادہ ہیں اور انھیں جس سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے ، حقیقت میں یہ اپنے اندرون میں اس سے کہیں زیادہ گہرائی اورمعنوی وسعت لیے ہوئے ہیں، جتنی کسی بھی عالمی سطح کی کسی بہترین کہانی میں دیکھی جا سکتی ہے۔کیوں نہ ہم اردو کی پانچ بہترین کہانیوں کا انتخاب کریں اور ان میں منٹو کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بعد آنندی کو شامل کرلیں۔
کہانی میں غلام عباس کا اختصاص جزئیات نگاری اور کرداروں کے نویکلے پن کا بیان ہے۔ اس پر زبان و بیان کا کمال ایک رنگ جماتا ہے۔ موضوعات کی وسعت کہانیوں کے پلاٹ سے پھیل کر بعض صورتوں میں عالمگیریت کو چھولیتی ہیں۔ کردار بعض ایسے تخلیق کیے، جو سراسر حقیقی ہونے کے باوجود نہایت انوکھے ، دلچسپ اور یاد رہ جانے کے لائق ہیں اور بلاشبہ اردو ادب میں بھی یہ یادگار کرداروں کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔جیسے جواری کا نکّو، یا بہروپیا، عام کرداروں میں سے ایسے چنے گئے ہیں کہ کوئی عام کردار حتی کہ بہت سے خاص کردار بھی ان کے ہم سر ہونے کا دعوی نہیں کرپاتے۔
غلام عباس کے افسانوں کے بنیادی موضوعات میں ایک موضوع ’سمجھوتہ‘ ہے۔ سمجھوتہ، زندگی اور فطرت کے ساتھ۔ سمجھوتہ جو فطرت اور انسان کے مابین طے پانے والا معاہدہ ہے۔فطرت طاقت ور ہے۔انسان اس سے جھوجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن آخر اس کی فراواں قوتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔اسے الٹا اپنے آپ کو بدلنا اور زندگی اور فطرت کے موافق بنانا پڑتا ہے۔ حمام میں، سمجھوتہ، ناک کاٹنے والے، کتبہ، بردہ فروش وغیرہ چند افسانے ہیں جو اس حوالے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔
غلام عباس جس دور میں لکھ رہے تھے، تب ایک طرف حلقہ ارباب ذوق والوں کا شہرہ تھا تو دوسری طرف اردو ادب کے ایوانوں میں ترقی پسند تحریک کا طوطی بولتا تھا۔ بڑے بڑے لکھنے والے ان دونوں چھتریوں تلے جمع تھے لیکن منٹو کی طرح غلام عباس نے ایسے کسی سہارے یا نشان کو اپنی پہچان بنانے کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا۔ وہ خود ایک جگہ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں،’’کسی سیاسی نقطہ نظر کو ادب یا ڈرامے کے ذریعہ پھیلایا جائے تو میں اسے ادب نہیں سمجھتا۔‘‘
چیخوف کی طرح کا ٹھہراؤ غلام عباس کے فکشن کا ایک اور نمایاں وصف ہے۔ آپ بات کہنے کی جلدی میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے۔ اور بقول محمد حسن عسکری ’وہ پہلے ٹھہر کے اسے سمجھ لیتے ہیں، اور پھر جس حد تک وہ ان کی گرفت میں آتی ہے، اسی حد تک کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ غیر معمولی تحمل اور بردباری آپ کو ایسا اعتدال اور وقار عطا کرتی ہے جس سے آپ کے بیانیہ میں جلال اور وجاہت دونوں صفات بیک وقت پیدا ہوجاتی ہیں۔ جب کہ اس بیانیہ میں جزئیات نگاری کی زیرکی اور تنوع سے جاذب نظر رنگ پیدا کئے گئے ہوتے ہیں۔
آج ایسی صورت حال ہے اور سوچ اور اظہار کے وسائل پر اتنی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ دھنک جیسی کہانی لکھنے والا اور حتی کہ ایسی کہانی پر بات کرنے والا بھی ہوسکتا ہے، کسی ادارے یا فرد کے ذاتی غیض و غصب کا نشانہ بنے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کہانی ہمیں غلام عباس کی فن کارانہ عظمت پر زیادہ سے زیادہ قائل کرتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے