بوند بوند کو ترستا گوادر
میں سمندر کے کنارے ہوں مگر پیاسا ہوں ، سیراب ہونے کی آس نے کب سے میرے اندر امیدوں کے چراغ جلا رکھے ہیں
میں سمندر کے کنارے ہوں مگر پیاسا ہوں ، سیراب ہونے کی آس نے کب سے میرے اندر امیدوں کے چراغ جلا رکھے ہیں جب سے قدرتی نظام میں بارانِ رحمتوں کا سلسلہ تھم گیا ہے تب سے میں پیاسا ہوں 1970 کی دہائی میں میری پیاس کی آگ کو بھجانے کیلئے سنٹ سر میں کنویں کھودے گئے اور 9 ماہ کی مختصر ترین مدت میں مجھے سیراب کیا گیا ، مگر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ میرے فرزندوں کی تعداد بڑھتی گئی اور کچھ عرصے کے بعد حکومتی عدم توجہی و توسیع نہ کرنے کے سبب یہ نظام کمزور پڑ گیا اور میری پیاس کی شدت میں ایک دفعہ پھر اضافہ ہوا، 1980 کی دہائی میں اُس وقت کی حکوت نے آنکاڑہ جنوبی میں ڈیم بنایا ، اور ایک بار پھر میری تشنگی میں کمی آئی اور میں سیراب ہو گیا لیکن میرے دوسرے دُور دراز کے علاقے بدستور پیاس کی گرفت میں رہے، جس کے سبب 1987 میں جیونی کے تین فرزندان غلام نبی، ازگلُ اور معصوم بچی یاسمین نے پانی کی عدم دستیابی کے خلاف جیونی کے عوام سے ملکر پانی کی فراہمی کیلئے مظاہرہ کیا اور پانی مانگتے مانگتے پولیس کی بےرحم گولیوں کے نشانہ بن گئے۔
حکومت نے مسئلہِ آب کی سنگینی اور مستقل حل کیلئے بے نظیر بھٹو کی دوسری دورِ حکومت میں آنکاڑہ ڈیم( موجودہ) کی تعمیر کا فیصلہ کیا جو کہ کئی سالوں تک مجھے سیرآب کرتی رہی، لیکن جب 2002 میں گوادر پورٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کا حجمِ غفیر آنا شروع ہوا، تعمیرات شروع ہوئیں، اور اوپر سے بارانِ رحمت کا نزول بند ہوا تو ایک بار پھر میرے لبوں کی خشکی اور تشنگی کے سبب میرے چہرے کی رونقیں مر جھا گئیں، میں چیخا چلایا اور حکمرانوں سے التجا کرتا رہا کہ آنے والے کل کیلئے تیاری کریں، آنکاڑہ کور ڈیم بہُت چھوٹا ہے جبکہ آپ کے منصوبے بہُت بڑے بڑے ہیں، اللہ نے ہم کو بہُت بڑا سمندر اور دریاؤں سے نوازاہے اِس کو بروے کار لائیں پلانٹ لگائیں سمندری پانی کو کار آمد بنائیں، اگر یہ مہنگا پڑتا ہے تو ہمارے پاس سووڈ کور ہے، شادی کور ہے اِن پر فوری اور ہنگامی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کریں، لیکن کسی نے میری باتوں پر دھیان ہی نہیں دیا اور بالآخر مجھے 2012 کی شدید قحط اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، میرے بہُت سارے بچے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور بہُت سوں نے نااُمید ہوکر اپنے کار و بار دوسرے شہروں میں منتقل کیا، میرا حلق خشک ہوگیا زندگی کی اُمیدیں دم توڑ گئیں، لیکن میں نے آنے والے کل کی اُمید پر اپنے آپ کو زندہ رکھا، مگر حکومت نے احساس نہیں کیا اور مستقل حل کیلئے کوئی حاطر خواہ انتظام نہیں کیا۔
قدرت کو مجھ پر ترس آیا اور بارش ہوئی، اور میرے جان میں جان آگئی اور ایک بار پھر یہ اُمید ہو چلی کہ اب کے حکمران ضرور ہوش کے ناخن لیں گے، پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائیں گے،ڈیم تعمیر کریں گے اور میری تشنگی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائیگا، لیکن یہ میرا خواب تھا۔ 2015 آیا 2016 اور اب 2017 میں تاحال پیاسا ہوں، جبکہ آنکاڑہ ڈیم بھی خشک ہورہا ہے، اور مجھے غم کھائے جارہا ہے کہ کل کیا ہوگا؟
اس طرح دنیا کے ممالک اور سرمایہ کار مجھ پر کیسے بھروسہ کرکے سرمایہ کاری کریں گے، جہاں 46 ارب ڈالر میں ایک لیٹر پانی نہیں ملتا ہو، ہاں ہاں یاد آیا کہ شدتِ پیاس سے 2015 میں میرے ایک فرزند نے اپنے کسی عزیز کے گھر سے دو گیلن پانی چُرایا تھا، ویسے ہم چور نہیں، 2002 سے قبل ہمارے ہاں پولیس تھانے میں سالوں سال کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تھی، پیاس نے ہمیں چوری جیسے سنگین جرم کرنے پر بھی مجبور کیا، لیکن میں پھر بھی نا اُمید نہیں ہوں، شاید حکمرانوں کو کبھی یہ احساس ہو کہ پانی کے بنا ترقی کجا ، زندگی ممکن نہیں
فیس بک پر تبصرے