مسئلہ کشمیر اور ہمارے ریاستی بیانیے
گزشتہ دنوں ایک ٹاک شو میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے معروف کرکٹر شاہد آفریدی کے بعض تبصروں پر سوشل میڈیا میں بحث ومباحثہ کا بازار گرم رہا۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ کشمیر کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی کا بھی حصہ بنانےکے بجائے خود کشمیریوں کے حوالے کر دینا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے اپنے موجودہ صوبے نہیں سنبھالے جا رہے تو ایک اور صوبے کے انتظام وانصرام سے وہ کیسے عہدہ برآ ہوگا۔
شاہد آفریدی پر تنقید کرنے والوں کی طرف سے مختلف نکتے پیش کیے گئے۔ مثلا یہ کہ یہ ایک بڑا حساس اور ٹیکنیکل مہارت کا متقاضی موضوع تھا جس کا وہ اہل نہیں تھا۔ مزید یہ کہ ایک عوامی شخصیت ہونے کی وجہ سے اس کی گفتگو سے کشمیر کے حوالے سے ہمارے ریاستی موقف پر زد پڑی ہے اور بھارت میں اس کا حوالہ دے کر اس سے بھارتی موقف کی تائید اخذ کی گئی ہے۔ ان میں سے پہلا اعتراض تو بظاہر زیادہ وزن نہیں رکھتا، کیونکہ شاہد آفریدی کسی سفارتی یا آئینی فورم پر بات نہیں کر رہے تھے اور نہ ریاست کے سرکاری ترجمان کی حیثیت سے اظہار خیال کر رہے تھے۔ ٹی وی ٹاک شو ایک طرح کی چوپال ہی ہوتی ہے جس میں لوگ اپنے اپنے انفرادی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس گفتگو سے ہمارا قومی یا ریاستی موقف کمزور ہوا ہے تو یہ ایک قابل توجہ بات ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک اسے منفی انداز میں لینے کے بجائے ریاستی اداروں کو ان تضادات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جن کی وجہ سے ہمارے ریاستی سیاسی بیانیے غیر مقبول ہو رہے ہیں اور ایک محب وطن عام آدمی میں ان کے متعلق اس طرح کے تاثرات پیدا ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر کشمیر کے، پاکستان کی شہ رگ ہونے اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان’’ کو ہمارے قومی بیانیے کی حیثیت حاصل ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر ہمارا موقف یہ ہوتا ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ حق خود ارادیت کا تصور اپنے حقیقی مفہوم میں تینوں آپشنز کو متضمن ہے، یعنی کشمیری چاہیں تو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اور چاہیں تو خود مختار ریاست کی حیثیت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل پاکستان کو یہ حق کیسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے دے؟ فرض کریں، آج کشمیریوں کی سیاسی لیڈر شپ کا عمومی اتفاق رائے اس پر ہو جائے کہ وہ حق خود ارادیت ملنے پر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت کو ترجیح دیں گے تو کیا ہماری طرف سے ان کی سیاسی واخلاقی حمایت اسی سرگرمی سے جاری رہے گی جتنی کہ اب تک رہی ہے؟ سادہ لفظوں میں سوال یہ ہے کہ ہم قومی طور پر کشمیریوں کے غم میں گھل رہے ہیں یا، انگریزی محاورے میں، بھارت کے ساتھ اپنا اسکور سیٹل کر رہے ہیں؟
اس طرح کے سوالات صرف کشمیر کے حوالے سے نہیں ہیں، بلکہ فاٹا، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی ریاستی پالیسیاں سخت تنقید کی زد میں ہیں اور اس طرز فکر کو قومی مفاد یا سیکیورٹی خدشات کے مصنوعی سہاروں کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے ہاں وفاق گریز سیاسی رجحانات کے حوالے سے اسٹیلبشمنٹ کی حکمت عملی ، سیاسی دانش سے بالکل عاری رہی ہے۔ اس کو ایک ہی سادہ حل نظر آتا ہے کہ ایسی آوازوں کو اٹھنے ہی نہ دیا جائے تاکہ یہ لگے کہ ایسی کوئی آواز موجود ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کا سیاسی نظام بنانے والوں کی بصیرت کو دیکھیے جنھوں نے پچاس سے زیادہ ریاستوں کو پوری داخلی آزادی، حتی کہ فیڈریشن سے الگ ہونے تک کا آئینی اختیار دیتے ہوئے اس طرح وفاقی نظام کے ساتھ جوڑا ہوا ہے کہ کوئی ریاست جبر کے تحت نہیں بلکہ خود اپنے سیاسی واقتصادی مفاد کی وجہ سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ وہاں مختلف ریاستوں میں فیڈریشن سے الگ ہونے کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، ریاست کی خارجہ پالیسی پر زوردار تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں، طاقت پر قابض مافیاز کے گٹھ جوڑ کو منکشف کیا جاتا رہتا ہے، لیکن سسٹم کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا، کیونکہ وہ حب الوطنی جیسی مصنوعی اور فرضی بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا گیا۔ فیڈریشن کو long run میں مستحکم رکھنے کا ایک ہی اصول ہے کہ اکائیوں کو فیصلہ سازی میں پوری طرح شریک کیا جائے، وسائل میں انھیں ان کا پورا حصہ دیا جائے اور جبر اور دھونس سے ان پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر اس کے لیے مشرقی پاکستان جیسے طور طریقے اختیار کیے گئے تو نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ مشرقی اور مغربی، دونوں سرحدوں پر مخالف قوتوں کے اتحاد نے، جس کے لیے زمین ہموار کرنے میں خود ہماری ریاستی پالیسیوں کا بنیادی دخل ہے، پاکستان کے لیے بے حد نازک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے شکایات اور تنقیدات کا منہ بند کرنے کی نہیں، انھیں ہمیشہ سے زیادہ توجہ سے سننے اور ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال میں سرحد کے دونوں طرف کے اہل دانش کو ایک سخت اخلاقی آزمائش کا سامنا ہے۔ چند ماہ قبل الجزیرہ کے ٹاک شو اپ فرنٹ میں بھارت کے معروف دانش ور اور مورخ ششی تھرور اور پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے مابین ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔ ششی تھرور کی گفتگو کا وہ حصہ انتہائی تکلیف دہ تھا جس میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو رد عمل کے اصول پر جواز مہیا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ششی تھرور کی شہرت برصغیر میں استعماری دور کے مطالعات کے ایک ماہر کی ہے اور یقینا انھوں نے اپنی تصانیف میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد باغیوں کے خلاف انگریزی حکومت کے ظالمانہ اقدامات پر بھی گفتگو کی ہوگی۔ معلوم نہیں کہ آیا رد عمل کے اصول پر انھوں نے وہاں بھی استعماری جبر کو جواز فراہم کیا ہے یا نہیں۔
اسی نوعیت کی اخلاقی آزمائش کا سامنا سرحد کے اس پار کے اہل دانش کو بھی ہے۔ ہماری قطعی رائے ہے کہ فلسطین، کشمیر، اراکان، بلوچستان، گلگت بلتستان اور فاٹا جیسے مسائل، درجے کے فرق کے ساتھ، جدید سیاسی وریاستی نظام سے پیدا ہونے والی ایک ہی صورت حال کے مظاہر ہیں اور ان سب کے متعلق ایک ہی بنیادی اخلاقی موقف اختیار کرنا باضمیر اہل دانش کی ذمہ داری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حدود میں واقع مذکورہ خطوں کے سیاسی حقوق کی آواز بھی اٹھائی جائے۔ ہماری وابستگی حق اور انصاف کے ساتھ ہونی چاہیے، نہ کہ نام نہاد ’’قومی مفاد’’ کے ساتھ۔ اس وقت دونوں اطراف کے باضمیر اہل دانش کا امتحان یہی ہے کہ وہ ریاستی بیانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اخلاق اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انسانیت اور اخلاقیات، ریاستوں اور ان کے مفادات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے