مہاجرت اور تبدیلی
مہاجرت ایک کرب انگیز تجربہ ہے لیکن اب یہ بڑا عالمی مسئلہ بھی بن رہی ہے ۔مہاجرت کی سمت اندرونی ہو یا بیرونی ا س کے کئی محرک ہیں جس میں سب سے بڑا محرک تصادم اور شورش ہے جو لوگوں کو نقل مکانی اور پھر مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔شام ، عراق، افغانستان ،لیبیااور یمن سے بے گھر ہو کر مختلف ممالک میں مہاجرت اختیار کرنے والوں کی تعداد ابھی تک بڑھ رہی ہے۔ مشرقی اور جنوبی اشیاء ،افریقہ، مشرقی یورپ ،لاطینی امریکہ سے ایسے لاکھوں افراد ترقی یافتہ ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں ۔تیسری وجہ سیاسی حالات اور جبر ہے جو لوگوں کو مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔سیاسی پناہ لینے والوں کی تعداد قدرے کم ہے لیکن یہ تعداد بھی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 258ملین(تقریباً 26کروڑ) تک جا پہنچی ہے ۔ان میں سے ساٹھ فی صد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جو اسی لاکھ بنتے ہیں۔ جبکہ یورپ 78لاکھ اورشمالی امریکہ 58لاکھ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے ۔شورش ،تصادم اور سیاسی وجوہات کی بنا پر جلا وطنی اورپناہ حاصل کرنے والوں کی ابتدائی منزل ہمسایہ ممالک ہوتے ہیں جہاں سے ان کی ایک بڑی تعداد دیگر ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ کے قریبی ممالک میں ترکی سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جبکہ پاکستان کا نمبر اس فہرست میں پانچواں ہے جو چودہ لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے ۔
مہاجرت کئی ممالک کے سماج کو بدل رہی ہے اور حالیہ برسوں میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کاباعث بنی ہے ۔مغرب بالخصوص یورپ میں اس نے سیاسی رجحانات کی کایا کلپ کر دی ہے اور لبرل جمہوریتوں کو پسپائی کی طرف مجبور کر دیا ہے ۔انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اس مسئلے کو زیادہ گھمبیر بنا رہی ہے ۔مہاجرت کے مسئلے نے ان کے بدن میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔مغرب میں مہاجرین کے باعث پیدا ہونے والے سماجی ،انتظامی اور سیکورٹی کے مسائل نئے سیاسی رویوں کی پرورش کر رہے ہیں ۔جن میں نفرت انگیز اور مثبت انجذاب دونوں ہی شامل ہیں ۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں اس مسئلے پر مسلسل اور کئی سطوں پر بحث جاری ہے ۔
پاکستان چونکہ مہاجرین کی میزبانی کر نے والے بڑے ممالک میں سے ہے یہاں بھی ا س حوالے سے بات چیت جاری رہتی ہے لیکن یہ مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے کہ پورے سیاسی عمل کی ہی کایا کلپ کر دے ۔اس کی چندبنیادی وجوہات ہیں ۔پچانوے فی صد مہاجرین کا تعلق افغانستان سے ہے اور یہ خاص سیاسی حالات اور شورش کی وجہ سے مختلف مرحلوں میں پاکستان آئے ۔افغان سوویت جنگ میں پاکستان اہم سیاسی فریق رہا ہے اس وجہ سے ان مہاجرین کو پاکستان میں خوش آمدید کہا گیا اور انہیں مختلف پنا ہ گزین کیمپوں تک محدود نہیں رکھا گیا ۔سیاسی حالات بدلنے کے بعد پاکستان کی ریاست اور سماج کے ایک بڑے طبقے کا نقطہ نظر افغان مہاجرین کے بارے میں بدل گیا۔ اس ساری بحث سے قطع نظر مہاجرین کی ایک نئی نسل پاکستان میں ہی پیدا ہوئی جو پاکستان کی اقتصادیات ،سماج، ثقافت میں بھر پور حصہ ڈالنے کے لئے تیار تھی ۔
افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان بالخصوص کراچی میں بنگالی ، بہاری اور روہنجیا (برمی مسلمان ) مہاجرین بھی آباد ہیں جو ابھی تک شہریت سے محروم ہیں ۔پاکستان کی شہریت کے سخت قوانین اپنی جگہ لیکن ریاست اور سماج نے بھی انہیں آج تک دل سے قبول نہیں کیا ۔جس انسانی اور بنیادی حقوق کا مطالبہ پاکستانی معاشی مہاجرین ترقی یافتہ ممالک میں اپنا جائز حق سمجھتے ہیں اسی پاکستان میں پناہ گزین بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔شناختی دستاویزات کی عدم موجودگی میں نہ وہ اعلی ٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی سرکاری و نیم سرکاری ملازمت اختیار کر سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان نے جب پاکستان میں پیدا ہونے والے ایسے مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی تو ایک منفی رد عمل نے انہیں خاموش ہونے پر مجبور کر دیا ۔ایک تبدیلی جس سے مہاجرت سے نبرد آزما ممالک کوایک مثبت پیغام جا سکتا تھا۔ پاکستان کے اچھے تاثر میں اضافہ ہو سکتا تھا ،وہ تبدیلی معمولی سا تحرک پیدا کئے ہی دم توڑ گئی ۔
یہ مسئلہ سیاسی اور انتظامی ہو یا نہ ہولیکن ایک نقطے پر غور کرنے کا حقدار ضرور ہے اور وہ یہ کہ ہم بحیثیت مجموعی خود پسندی کا شکار کیوں ہیں جس کا شکار مہاجرین ہی نہیں بلکہ ہم خود بھی ہیں اور ہمارا اپنے سے مختلف نسلی اور لسانی گروہوں سے بھی رویہ منفی ہے ۔کیا ایسے رویئے صحت مند معاشرے کو جنم دے سکتے ہیں ؟
فیس بک پر تبصرے