آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ
آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ عدالتِ عظمیٰ نے جب سنایا تو ایک بھونچال کی سی فضا پیدا ہو گئی ۔56صفحات کا یہ تفصیلی فیصلہ تو شاید چند ایک نے پڑھا مگر اس فیصلہ سے جو تعبیریں سڑکوں پر براجمان مذہبی قیادت نے نکالیں ان کی آگ سے اٹھنے والے دھوئیں نے ہر منظر دھندلا کر رکھ دیا ۔ملک کے اعلیٰ ترین قاضیوں اور سپہ سالار کے خلاف جو منہ میں آیا کہہ دیا گیا ۔ تحمل اور بردباری کا درس دینے والوں نے ملک کو انارکی کے دروازے پر لا کھڑا کیا ۔ اس ساری صورتحال سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا کہ متشدد رویئے ہمارے اندر کس قدر سرایت کئے ہوئے ہیں ۔آسیہ بی بی کیس خالصتاً ایک قانونی مسئلہ تھا ۔عدالت اگر دستیاب شواہد سے مطمئن نہ ہو تو محض خواہش کی بنا پر کسی ملزم کو لٹکا سکتی ہے ؟اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے بہت سے لوگ ذاتی دشمنی کی خاطر مخالفین پر شعارِ اسلام کی توہین کا کیس دائر کر دیتے ہیں ۔پچھلے تیس سالوں کے دوران اس قانون کے تحت 1549کیس رجسٹر کئے گئے جن میں سے 720کیس مسلمانوں کے خلاف ، 516احمدیوں ،238مسیحوں اور31ہندؤں کے خلاف درج ہوئے جبکہ 75افراد کو عدالتی عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا ۔جن میں سے 39مسلمان، 23مسیحی ،9احمدی اور دو ہندو شامل تھے ۔سب سے زیادہ کیس پنجاب میں 1138،سندھ میں330، خیبرپختونخواہ میں38،وفاقی دارلحکومت میں21،بلوچستان میں9اورآزاد جموں و کشمیرمیں6کیس درج ہوئے ۔ ان اعدادو شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست اور مذہبی طبقے کے درمیان اس مسئلے پر مسلسل ایک مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ا س قانون کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام ختم ہو جائے اور ہر صورت اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ کوئی بے گناہ اس قانون کی بھینٹ نہ چڑھے اور نہ ہی اس حوالے سے فیصلے سڑکوں پر ہوں ۔اگرچہ اس حوالے سے مشرف دور میں بھی کوششیں کی گئیں کہ شعارِ اسلام کی توہین کے حوالے سے کیسوں کی حساسیت کے پیشِ نظر اس کے اندراج کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے ۔اس قانون کے حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا بھی پاکستان پر دباؤ رہا ہے اور پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے انڈیکس میں دنیا کے ان دس ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں اقلیتوں کو شدید خطرات ہیں ۔پاکستان کی 3.79فیصد آبادی غیر مسلم ہے جن میں ہندو اور مسیحی بڑی اقلیتیں ہیں ۔اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے کئی چیلنجز درپیش ہیں لیکن یہ ساری بحث اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر جاتی ہے جب آسیہ بی بی جیسے کیس سامنے آتے ہیں ۔اس صورتحال کا سامنا ریاست کو پہلی بار نہیں کرنا پڑا مگر ریاست نے مستقبل کے حوالے سے کوئی پیش بندی نہیں کی ۔اب بھی ضرورت ا س امر کی ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی جامع حکمتِ عملی سامنے آئے جن میں ایک طرف قوانین کے سقم کو دور کیا جائے تاکہ کسی کے خلاف 295سی کا مقدمہ اسی وقت درج ہو جب اس کے خلاف تمام تر ثبوت موجود ہوں اور اس بات کا یقین بھی کر لیا جائے کہ مدعی کسی ذاتی مخاصمت کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا ۔ریاست اس حوالے سے مذہبی قوتوں کے ساتھ روابط بڑھائے ان کے ساتھ مکالمے کو وسیع کیا جائے ۔اس مقصد کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل یا پارلیمنٹ کی’’ کمیٹی آن دی ہول ‘‘جیسے آئینی آپشن بھی موجود ہیں جن کے تحت ریاست ان قوتوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے فلور پر بھی مکالمہ کر سکتی ہے جن کی نمائندگی پارلیمنٹ میں نہیں ہے ۔
فیس بک پر تبصرے