سفید فامی کا مذہب ،خود کش مسلک کا روپ دھار سکتا ہے

پنکج مشرا

1,075

جغرافیائی سیاست کے بطن سے ابھری زخم خوردہ ،غرورزدہ شناخت نے دنیا کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پنکج مشرا کا شمار معروف بھارتی لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کی تاریخ، سماجیات اور مشرقیات پر گہری نظر ہے۔وہ اب تک کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن کی نہ صرف یہ کہ عالمی سطح پر پزیرائی ہوئی ہے بلکہ انہیں ان پر کئی عالمی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔مشرا ادب اور سیاست کے موضوعات پر نیویارک ٹائمز میں کالم بھی لکھتے ہیں۔مشرا کا مندرجہ ذیل مضمون سفید فام برتری کا تصور اور ا س کے نتیجے میں دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔دنیا میں مشرق و مغرب کا جو تصور موجود ہے یہ درحقیقت کالے اور گورے کا تصور ہے جس نے دور حاضر میں ایک کشمکش کی صورت اختیار کر لی ہے۔یہ تنازعہ کیارخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس کااحاطہ مشرا نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ مدیر

سفید فام کی اصطلا ح جسے ایک غیر معروف آسٹریلوی ماہر تعلیم اور مصنف چارلس ہنری پیئرسن نے اپنی کتاب’’ نیشنل لائف اینڈ کریکٹر : اے فورکاسٹ ‘‘ میں استعمال کیاتھا، اسے اب ان لوگوں سے ہار اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا جسے وہ اپنے سے کمتر سمجھتے تھے جیسا کہ سیاہ فام اور ایشیائی نسلیں، خاص طور پر چین ان کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔ پیئرسن، جسے ایشیاء کے ہمسائے میں واقع ایک کالونی میں رہتے ہوئے اپنی نسل کے خاتمے کا خطرہ تھا، اس نے سوچا کہ یہ ا س کے لئے لازم ہے کہ وہ اس کا دفاع کرے تاکہ دنیا کے اس آخری خطے میں اعلیٰ نسلیں آزادی سے پروان چڑھ سکیں اور ایک اعلیٰ تہذیب ممکن ہوسکے۔ نسلی بقاء کا وہ نسخہ جو اس نے دیا اس کی گونج ان انگریز مردوں میں زیاد ہ سنائی دی جن کا تاریخی تعلق جزیرہ برطانیہ سے ہے۔
تھیوڈور روزوویلٹ، جو انیسویں صدی میں مطمئن عقیدے کے حامل تھے، کو اس نسل پرستانہ جھوٹی سائنس سے سہارا ملا ،کہ بے چاری تما م غیر سفید فام نسلیں کمتر ہیں۔ انہوں نے پیئرسن کو مطلع کیا کہ آپ کی کتاب کا جن لوگوں پرسب سے زیادہ اثر ہوا ہے ان کی بڑی تعداد واشنگٹن میں موجود ہے۔
آئندہ آنے والے سالوں میں برطانیہ اور اس کی کالونیات، آسٹریلیا، کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سیاستدان اور ماہرین مل کر ایک ایسی اعلیٰ نسلی شناخت کو تشکیل دیں گے جونسلوں کی جغرافیائی سیاست پر منحصر ہوگی۔ اب یہ اپنے آخری بے تاب مرحلے تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں سفید فام حکمرانی کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے اور یہ سوچ دنیا کی جدید ترین سلطنت کے مرکز اورمضافات میں بے قرارطرح سے دکھائی دیتی ہے۔’’آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ بچ جائے ‘‘صدر ٹرمپ کی اس تقریر کو برطانوی صحافی ڈگلس مرے، کینیڈا کے کالمسٹ مارک سٹین اور امریکی مدیر رچ لورے نے بہت پسند کیا۔ حال ہی میں مسٹر ٹرمپ نے ایک جھوٹی ٹوئیٹ کی ہے کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام کسانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، یہ ان کی اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس کی بنیاد دنیا بھر میں سفید فام نسل پرستی کے فروغ میں مشغول روپرٹ مرڈاک کے میڈیا نے قائم کی ہے۔
سفید فام نسل پرستی کے جذبات کو جدید دور کی انگریزی بولنے والی جمہور ی ریاستوں میں اس قدر جلد مرکزیت ملنے کی وجوہات سمجھنے کے لئے ہمیں انیسویں صدی کے اوا خر میں انگریز راج کے دوران ہونے والی وسیع عالمی نقل مکانی اور نسلی اختلاط کو سمجھنا ہوگا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک جہاں، جیسا کہ روزویلٹ نے 1897 میں فخریہ طور پر تحریر کیا ’’ جمہوریت، اور وہ بھی نسلی خودغرضی کی جبلت کے ساتھ ‘‘نے دیگر نسلوں کو بظاہر دشمن سمجھا اور ان خطرناک اجنبیوں کو اپنی حدود سے باہر رکھا۔ یہ جمہوریت کی ماں کہلائی جانے والی سرزمین میں ہے نا کہ فاشسٹ یورپ میں جہاں نسلی درجہ بندیوں نے پہلی مرتبہ جدید دنیا وضع کی۔ یہ آج بھی اسی سرزمین میں ہے جہاں ان کے تحفظ کی آخری خندق موجود ہے اور جہاں اس سلسلے کی خطرناک لڑائی لڑی جارہی ہے۔ اس’’نسلی خود غرضی ‘‘ کو انیسویں صدی میں عروج ملا جب ’’ اعلیٰ نسلوں ‘‘کی اشرافیہ نے تکلیف دہ عالمگیریت کے سبب جنم لینے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ابھرنے والی بے اطمینانی کو روکنے کی کوشش کی : تیز معاشی ترقی، روپے پیسے، مال اسباب اور محنت کی بڑھتی ہوئی ترسیل کے ساتھ ساتھ ملازمتوں اور بہتر طرز زندگی کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔خوفزدہ حکمران طبقے کے لئے، سیاسی طرز کا انحصار ان کی اس صلاحیت پہ ہیکہ وہ اس اتحاد کو قائم رکھ سکیں، جیسا کہ ہنا ایرنٹ نے لکھا ہے، ’’سرمایہ اور عوام ‘‘، یعنی طاقتور اور امیر گوروں اور ان کے درمیان اتحادجنہیں صنعتی سرمایہ داری نے فالتو بنادیا تھا۔ غیرگورے لوگوں کے اخراج اور رسوائی سے بظاہر لگتا ہے کہ ا س کے ذریعے ان لوگوں کے لئے عزت افزائی کا سامان کیا گیا جنہیں معاشی اور تکنیکی تبدیلیوں نے کمتر بنادیا تھا۔
سیاسی ماحول کی تیاری کے لئے دانشوران کی جانب سے واضح ارادوں کے ساتھ نسل پرستی پہ قائم نظریات بنائے گئے، جیسا کہ روزوویلٹ کا دوست بروک ایڈمز اورنسل انسانی کی اصلاح پہ کام کرنے والا معروف نظریہ دان چارلس بی ڈیونپورٹ آسٹریلیا میں، پیئرسن کے ڈاروان ازم کو میڈیا مالکان کے ذریعے پھیلایا گیا جیسا کہ کیتھ مورڈاک ( جوکہ روپرٹ مورڈاک کا باپ اور نسل انسانی میں تبدیلیوں کی تحریک کا سرگرم رہنما تھا )اور وائٹ آسٹریلیا پالیسی کو قانونی بنایا گیا جس کے ذریعے بیسویں صدی کے دوران غیر گورے لوگوں کی نقل مکانی کو روکا گیا۔ریاستہائے متحدہ امریکہ میں اقلیت مخالف جذبات میں عروج 1924 میں آئے امیگریشن لاء کے بعد آیا۔(جسے ہٹلر نے بہت سراہا تھا اور اسے حال ہی میں جیف سیشن نے بھی سراہا ) اس قانون کے ذریعے یہودی نقل مکانی کو امریکہ کی جانب روکا گیا اور ایشیائی لوگوں کی امریکہ آمد پہ پابندی لگا دی گئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مقامی لوگوں، تارکین وطن اور افریقن امریکی نسل کے لوگو ں کے خلاف تشدد کا استعمال اپنے عروج پہ پہنچ گیا اور نسل پرستی و موروثیت پہ یقین رکھنے والے عوامی لیڈران نے بے دخلی، علیحدگی اور حقوق کے خاتمے کی سیاست پہ قبضہ جمالیا۔
عالمی سیاست پہ گوروں کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے روزوویلٹ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو ایک بڑی استعماری طاقت میں تبدیل کرنے کے لئے مدد کی۔ ووڈروولسن نے بھی اس کو تحفظ دیا جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’گوری تہذیب اور کرہ ارض پہ اس کی حاکمیت ‘‘، انہوں نے تو اس طرح لبرل انٹرنیشنل ازم کے بیانئے کو نرم انداز میں بیان کیا ہے کہ آج بھی امریکی سیاست اور میڈیا میں بہت سے لوگ اس کا راگ الاپتے ہیں۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پہ پیرس امن کانفرنس میں جو ووڈرولسن کی صدرات میں ہوئی تھی اس کے دوران برطانیہ، امریکہ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے رہنماؤں نے نہ صرف بہت سی افریقی اور ایشیائی اقوام کو حق آزادی مانگنے پہ ذلیل کیا بلکہ جنگ کے دوران اپنے اتحادی جاپان کی اس کوشش کو مشترکہ طور پر ناکام بنایا جس میں اس نے لیگ آف نیشنز کے اندر اقوام عالم کی برابری کی شق شامل کرنے کی بات کی تھی۔
نازیوں کے جرائم کے انکشافات اور بعد ازاں نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور شہری حقوق کی تحریکوں کے احیاء کے دوران نسل پرستی کی جھوٹی سائنس اور گوروں کی حکمرانی پر مبنی تصورات کو بدنامی کی حد تک رسوائی ملی۔ ہمارے اپنے عہد میں، عالمی سرمایہ داری ظام کا وعدہ ہے کہ وہ معاشی انضمام کے ذریعے رنگت کے فرق کو یکساں مٹادے گا۔تاہم حال ہی میں عالمگیریت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کے دوران انتشار کا مرحلہ یہ ہے کہ سفید فام سرزمین میں موجود سیاستدانوں اور رہنماؤں نے ایک بار پھر سماج کی سیاسی تعمیر ان بنیادوں پہ کرنے کوشش شروع کی ہے جس کے متعلق 1910 میں ڈبلیو۔ای۔بی۔ڈوبائس نے ’’سفیدفامی کا نیا مذہب ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
سفیدفام دانشوران کی کھیپ جو انیسویں صدی کے اواخر میں آسٹریلیا میں پروان چڑھی تھی ایک بار پھر ہڑبڑانے لگی ہے، جیسا کہ مورخین مثلاََ میریلین لیک اور ہنری رینولڈز نے اصطلاحاََ بیان کیا ہے۔ ’’نسل پرستی پہ مبنی علم اور ٹیکنالوجی نے سفید فام ریاستوں میں علیحدگی، بے دخلی اور اخراج کی کوششوں کو متحرک کیا ہے۔‘‘مسٹر ٹرمپ نے مثلاََ بدنام زمانہ آسٹریلوی امیگریشن پالیسی کو بہت پسند کیا ہے اور اسے بطور نمونہ اپنایا ہے۔ ’’یہ بہت بہترین ہے۔ ہمیں یہ کرنا چاہیئے‘‘۔انہوں نے یہ الفاظ آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرنبل سے ادا کئے جب وہ ان سے ملے ا ور انہیں بتایا کہ انہوں نے تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کر دوردراز کیمپوں میں قید کردیا ہے۔ ’’تم مجھ سے بھی بْرے ہو‘‘۔ ٹرمپ نے انہیں جواب دیا۔
اگرقدامت پسند آسٹریلوی سیاستدان اْن پہلوں میں شامل تھے جو کہ متنازعہ سفید فام نسل پرست بیانئے کو مرکزی دھارے میں لارہے ہیں تو روپرٹ مورڈاک کے ہفتہ وار رسالوں اور ٹیلیویڑن چینلز نے دن رات کام کرکے سفید فام خطوں میں سرمائے اور عوام کے اتحاد کو بنائے رکھنے میں مدد کی ہے۔ مسٹر مورڈاک کے اخبارات میں لکھنے والے لکھاری مثلاََ برنارڈ لیوس، نیل فرگوسن، ڈیوڈ فرام، اینڈریو سلویآن اور اینڈریو روبرٹس نے بارہا امریکن نو قدامت پسندوں کونائن الیون کے بعد ابھارا ہے کہ وہ سفیدفام ذمہ داری کا عمررسیدہ موضوع پھر سے اٹھائیں اور مقامی بغاوتوں کو کچل دیں۔
انگریزی بولنے والوں کی سفید فام انتظامیہ میں ایسے بہت سے افراد ہیں بشمول صدرٹرمپ کے بہت سے نمائشی ناقدین کے جنہوں نے اس سرزمین کو زرخیز بنایا جہاں ٹرمپ ازم خوب پھلا پھولا۔ ٹونی بلیئر نے عراق جنگ کے دوران ’’ یو ایس برطانیہ اتحاد ‘‘ کو مزید پھیلانے کی کوشش کی جسے مورڈاک میڈیا نے خوب سراہا۔ کینیڈا اور آسٹریلیا کے رہنماؤں نے بھی سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں کی پکڑ دھکڑ، حوالگی اور تشدد میں خوب جی جان سے ہاتھ بٹایا۔
یہ امر باعث حیر ت نہیں ہے کہ سفید فام کالونیوں میں آباد یہ رہنما ثقافت کی لڑائی لڑنے والے جنگجو بھی ہیں، یہ تمام لوگ نجی سطح کے مخیر اداروں سے وابستہ ہیں جو سیاسی اصلاح کے لیے اسلام اور عورتوں کے حقوق جیسے موضوعات کی کھال کھینچتے ہیں، وہ حقائق جو غیر منصفی اور غیر برابری پر سے پردہ اٹھاتے ہیں انہیں نظرانداز کرتے ہیں، اس امر پہ نوحہ کناں رہتے ہیں کہ اعلیٰ مغربی تہذیب خطرے کا شکار ہے اور اسرائیل جیسی ریاست کے لئے برادرانہ ہمدردی کا رویہ اپناتے ہیں جو کہ دنیا میں آباد کار پناہ گزینوں کا آخری سرگرم پراجیکٹ ہے۔
یہ محض ہیجان انگیزی ہے، نا کہ کوئی انداز اور طریقہ کار یا دانش مندی جو سفید فام طاقتور لوگوں کا آپس میں اس قدر مضبوط گٹھ جوڑ بناتی ہے۔ انگریزی دانوں کے لئے جو پہلے غلاموں کے کاروبار اور نوآبادیاتی نظا م کے ذریعے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے اب آخری بحران کی زد میں ہیں۔ سفید فام نسل پرستوں کو یہ یقین تھا، جیسا کہ ڈوبوئس نے لکھا تھا کہ’’ زمین کی اصل ملکیت انہی کی ہے اور ہمیشہ ہے۔‘‘مگر انہی زمینداروں کے وارثوں کے لئے آج اپنے وطن میں اور پردیس میں گھیرا تنگ ہوگیا ہے، ان کی حد سے بڑھے ہوئے اس طاقت کے فہم کو کہ وہی دنیا کے پولیس مین ہیں اور وہی دنیا کی آخری توجیح ہیں، دنیا بھر میں چیلنج کیا جارہا ہے۔
ان طاقتور مگر خوفزدہ مردوں کے لئے مسٹر ٹرمپ کا ظہور ’’اعلیٰ نسلوں ‘‘ کے وجود کے محافظ کے جیسا ہے۔ مسلم مخالف برطانوی قدامت پسند سیاستدان بورس جانسن کہتا ہے کہ ’’ ان کے دل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قدر بڑھتی جارہی ہے۔‘‘ مسٹر مرے جو کہ برطانوی صحافی ہیں ان کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ مغرب کو ان کی عظمت کی یاد دلا رہے ہیں کہ وہ کیا کچھ ہوا کرتے تھے۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے یوٹیوب سٹار جورڈن پیٹرسن کا دعویٰ ہے کہ ’’ شناختی سیاست‘‘سے انہیں اتنی نفرت ہے کہ وہ شائد ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے دیتے۔
دیگر خوفزدہ سفید فام نہ صرف زہریلے انداز میں ’’شناختی سیاست‘‘ اور ’’سیاسی اصلاح ‘‘(تاریخی طور پر دھتکارے ہوئے لوگوں کا وہ ضابطہ جس میں انہوں نے ہمت کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ کئے گئے سلوک کے ازالے کی خاطر کچھ اقدار کا نفاذ چاہتے ہیں )کو مسترد کرتے ہیں بلکہ وہ جھگڑالو طریقے پہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سفید فام نہ صرف بہترین مخلوق تھے بلکہ وہ تاحال بہترین مخلوق ہیں۔ ’’وقت آگیا ہے کہ پھر سے نوآبادیاں بنانے کے لئے ارادہ باندھا جائے ‘‘۔ بروس گلے، ایک کینیڈین معلم نے حال ہی میں زوردیتے ہوئے کہا اور اسے انتہائی دائیں بازو کے افراد کی کہکشاں میں جلد ہی شہید کارتبہ عطاہوگیا کیونکہ اسے سیاسی مصلحین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس طرح کے لوگ جو مغربی حاکمیت کو بار بار زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر نسل پرستی کی جھوٹی سائنس کے ماننے والے ہیں، ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ تاریخ بسا اوقات اپنے آپ کو دانشوری کا ڈھونگ رچا کے بھی دہراتی ہے۔
بہروپئے پن کی اس گھٹیا مذاق کا یہ مطلب نہیں کہ ہم زخم زدہ اور گھمنڈی شناخت پر مبنی جغرافیائی سیاست کے خطرناک اثرات کو نظرانداز کریں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے انیسویں صدی کی ان گمشدہ استعماری دستاویزات کو کھول دیا جن کے مطابق سانولے دشمن نیم انسان تھے اور ان کے خلاف تشدد اور لاقانونت جائز تھی۔
بیسویں صدی کے امریکہ میں حق رائے دہی کے حصول کی کوششوں نے بہت مشکلات دیکھیں، اب غیر سفید فام ووٹرز کوحق رائے دہی سے محروم کردینے کی باتیں کرکے ری پبللکنز نے اس کوششوں کا مذاق اڑایا ہے۔ آسٹریلوی قانون ساز جس نے حال ہی میں آسٹریلیا میں مسلم نقل مکانی کو روکنے کے لئے آخری حل تجویز کیا ہے اس کا لب و لہجہ عوامی مباحثے کے لحاظ سے بہت مختلف تھا۔ نسل پرستی کے جرائم کی شرح امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں بلند ہوتی جارہی ہے۔ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ آبادی میں، معیشت میں اور سیاست میں جو گراوٹ ہے اور جس طرح سے علمی انحطاط واقع ہورہا ہے اس نے بہت سے طویل مدت فاتحین کو کینہ پرور مایوسیوں میں دھکیل دیا ہے۔
محض ایک صدی پہلے بھی اس بات کا خدشہ تھا کہ سیاہ فام یا ایشیائی لوگ انہیں رستے سے ہٹا دیں گے اور اس سے ان کی نسلی بقاء کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ آج جب پیئرسن کی یہ پیشگوئی سچ ہورہی ہے کہ چین ترقی کررہا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہوتا جارہا ہے کہ سفید فامی کا مذہب ایک خود کش مسلک کا روپ دھار رہا ہے۔
ٹرمپ کی صدرات میں شروع کی گئی تجارتی جنگوں، پابندیوں، سرحدی دیواروں، بے دخلیوں، شہریت سلبیوں اور مزید برآں ایسی پالیسیوں سے جو بالکل آخری مراحل میں اٹھائی جارہی ہیں، کی وجہ سے وہ خطرناک خدشات حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں جن کے متعلق جیمز بالڈوین نے ایک بار اشارہ دیا تھا کہ ’’ اعلیٰ نسلوں ‘‘ کے حکمرانوں نے جنہیں اس دولت کو سنبھانے میں مشکل پیش آرہی ہے جو انہوں نے دوسری نسلوں سے چرائی ہے اور یہ لوگ اپنے ضمیر میں جھانکتے بھی نہیں ہیں ایک روز ایک ایسی لاقانونیت کو جنم دیں گے جس میں نسلوں کی تفریق پہ مبنی ایسی جنگ کا آغاز ہوگا کہ جس سے اگر یہ دنیا ختم نہ بھی ہوئی تو اسے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
مترجم : شوذب عسکری

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...