جدید معاشرہ اور ہمارا دینی نظام

1,844

عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گجرات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ گوجرانوالہ کے مدیر ہیں ۔ان کا زیر نظر مضمون دینی مدارس کے طرز تعلیم میں مجوزہ اصلاحات کے حوالے سے ہے ۔دینی مدارس میں لاکھو ں طلباء زیر تعلیم ہیں جنہیں دینی کے ساتھ عصری علوم سے بھی بہرہ مند ہونا ہے تاکہ وہ مسجد و منبر کے ساتھ دیگر شعبوں میں متحرک کردار ادا کر کے قومی دھارے کا حصہ بن سکیں ۔عمومی تعلیم میں بھی وسیع اور بنیادی اصلاحات کی جا رہی ہیں ، نئی حکومت یکساں نظام تعلیم کے ویژن کے ساتھ آئی ہے ۔عمار خان ناصر کا مضمون اسی پیرائے میں ہے ۔دینی مدارس سے وابستہ کارپردازان اگر اس موضوع پر اپنا قلم اٹھانا چاہئیں توہمارے صفحات حاضر ہیں۔ مدیر

تحریک انصاف کی حکومت نے بعض دوسرے اہم قومی ایشوز کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کے حوالے سے یکساں نصاب تعلیم کی ترویج کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس حوالے سے حکمران جماعت کے ہوم ورک کی نوعیت کیا ہے اور مسئلے کی پیچیدگی کو کتنی گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ بظاہر زیادہ خوش گمانی کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اس پوری بحث میں بعض بہت بنیادی ابہامات بھی پائے جاتے ہیں جن پر سردست فکری سطح پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ بہرحال مدارس کے نصاب ونظام اور جدید ریاستی اسٹرکچر میں دینی تعلیم کی recognition کے حوالے سے گزشتہ کئی دہائیوں میں جو نظری وعملی پیش رفت ہوئی ہے، اس سے بعض پہلو کافی واضح ہو چکے ہیں، اور اگر وضوح فکر کے ساتھ ان پر توجہ مرکوز کی جائے تو ہمارے نقطہ نظر سے کسی بڑی عملی الجھن سے دوچار ہوئے بغیر دو سطحوں پر اس ضمن میں پیش رفت کے لیے اس وقت زمین ہموار ہے:
ایک یہ کہ اعلیٰ تعلیم کا ادارہ (ایچ ای سی) یا وزارتِ تعلیم عصری تعلیم کے اداروں کی طرح دینی تعلیم کے اعلیٰ اداروں کی recognition کا ایک نظام بنائیں جس میں ملک بھر میں ایک خاص سطح اور معیار کے بڑے اداروں کو جامعہ کی سطح پر تسلیم کرکے انھیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ نصاب سازی کے بنیادی اہداف اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے نصاب تشکیل دیں اور چھوٹے تعلیمی اداروں کو اپنے ساتھ ملحق کر کے امتحانات کا ایک نظام وضع کر لیں۔ اس سے دینی تعلیم میں نئے اور مفید تجربات کی راہ بھی کھلے گی اور تنوعات کو بھی جگہ مل سکے گی۔
دوسری سطح یہ ہے کہ اگر سردست حکومتی ادارے اس میں دلچسپی محسوس نہ کریں تو کچھ بڑے دینی ادارے اپنے طور پر میٹرک کے بعد پانچ یا چھ سالہ نصاب بنا کر طلبہ کو کسی منظور شدہ سرکاری یونیورسٹی سے باقاعدہ ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحانات دلوائیں۔
یہ دو انتظام تو دینی اسناد کی recognition کے حوالے سے ہو سکتے ہیں جو بہرحال دور جدید میں ایک مجبوری اور ضرورت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔
دینی تعلیم کی افادیت اور معیار کے حوالے سے ایک دوٹوک قدم یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ مدرسے میں آنے والے ہر طالب علم کو، اس کی دلچسپی، صلاحیت اور رجحان طبع کا لحاظ کیے بغیر، آٹھ یا چھ سال کی دلدل میں پھینک دینے کا رجحان کلیتاً ترک کر دیا جائے۔ اس رجحان کے تحت اس وقت مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کے صرف کردہ آٹھ سال دینی تعلیم، مدارس کے نظام اور معاشرہ، کسی کے لیے بھی کوئی افادیت نہیں رکھتے اور اس کا تسلسل محض حصول ثواب، تبرک اور بزرگوں کی نسبت سے روا رکھا جا رہا ہے۔ دینی تعلیم میں مہارت اور اختصاص کے لیے صلاحیت اور استعداد نیز رجحان طبع کا ایک معیار مقرر کیا جائے اور انہی طلبہ کو اس میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے جو ایک ’’عالم دین’’ کے طور پر معاشرے میں کردار ادا کر سکیں۔
ان کے علاوہ مدارس سے رجوع کرنے والے عام طلبہ کے لیے مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف دورانیے کے متبادل نصابات تشکیل دیے جائیں جنھیں مکمل کرنے کے بعد دو سال، تین سال یا چار سال کے بعد وہ سسٹم سے باہر جا سکیں۔ ایسے حضرات کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے ہنر لازماً سکھائے جائیں جو کل کو روزگار کے سلسلے میں ان کی مدد کریں، مثلاً انگریزی زبان، ریاضی، کمپیوٹر آپریٹنگ، اداراتی انتظام وغیرہ۔ پنجاب حکومت کا ادارہ TEVTA اس حوالے سے یہ سہولت دے رہا ہے کہ مختلف تکنیکی ہنر سکھانے کے لیے دینی اداروں کے اندر سرکاری اخراجات سے سیٹ اپ قائم کیے جا سکتے ہیں اور مختلف اداروں میں یہ تجربہ کامیابی سے چل رہا ہے۔
مدارس کے فضلاء کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کو مذہبی تعلیم کے لیے استعمال کرنے کے ضمن میں بعض اچھے اور مفید تجربات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی نقطہ نظر سے انٹرنیٹ کا نہایت مفید استعمال قرآن مجید (ناظرہ وتجوید) کی آن لائن کلاسز کا انعقاد ہے جو اب کافی عام ہو گئی ہیں اور مؤثر ہیں۔ اس سے قرآن کے معلمین کا روزگار بھی بہتر ہو رہا ہے اور ملک وبیرون ملک میں ایسے گھرانے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے لیے عمومی حالات میں اپنے بچوں کو مسجد یا مدرسے میں بھیجنا بہت مشکل ہے۔ اور اس کا ایک قابل اطمینان پہلو یہ بھی ہے کہ بچے، ٹیوشن پڑھانے والے قاری صاحبان کی ’’دسترس‘‘ سے محفوظ ہیں جو مذہبی طبقے کو درپیش ایک مستقل اخلاقی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب تک عموماً مدارس نے اپنے طلبہ کے لیے صرف کمپیوٹر ٹریننگ کی سہولت حاصل کی ہے۔ اگر وہ مدارس سے رجوع کرنے والے تمام طلبہ کو ’’علماء‘‘ بنا کر فارغ کرنے کے ہدف میں ترمیم کر لیں اور عام طلبہ کے لیے بھی اپنے سسٹم میں گنجائش پیدا کر لیں تو طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے ایک سال، دو سال یا تین سال کے دورانیے پر مبنی دینی تعلیم کے نصاب کے ساتھ مختلف تکنیکی ہنر شامل کر کے وسیع معاشرتی افادیت رکھنے والا ایک تعلیمی نظام آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کے حضرات سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ دینی علوم میں تخصص پیدا کرنے کے علاوہ عمومی تعلیم کے بعض دائروں کو بھی اپنے نظام کا حصہ بنائیں تو عموماً ایک رد عمل سامنے یہ آتا ہے کہ جب انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم کے اداروں سے علماء پیدا کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تو مدارس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے۔
ہماری نظر میں یہ بات ایک منطقی مغالطہ ہے۔ اگر تو صورت حال یہ ہو کہ مدارس کا نظام معاشرے کی ضروریات کے مطابق معیار اور تعداد کے اعتبار سے صرف دین کے ماہر علماء پیدا کر رہا ہو تو یقیناً اس نظام سے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ صورت حال یہ نہیں ہے اور مدارس اپنی ترجیحات کے لحاظ سے سرے سے ’’دینی علما‘‘ کے معیار اور تعداد کے سوال پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہے۔ انھوں نے معاشرے کے مالی وسائل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اصل توجہ زیادہ سے زیادہ تعداد جمع کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اتنی بڑی تعداد کو کسی بھی اعتبار سے معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سرے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی۔ مدارس سے رجوع کرنے والے ساٹھ سے ستر فی صد طلبہ صلاحیت اور استعداد کے لحاظ سے ’’عالم دین’’ بننے کی اہلیت نہیں رکھتے، جبکہ اس کے علاوہ کوئی دوسری مہارت ان میں پیدا کرنے کا مدارس کے نظام میں کوئی اہتمام نہیں جو کل کو معاشرے کے لیے کارآمد ہو سکے۔ اس طرح یہ نظام ایک طرف معاشرے کے وسائل اور دوسری طرف اپنے فارغ التحصیل طبقے، دونوں کے ساتھ صریح اور سنگین زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
گویا اخلاقی اور شرعی طور پر اس نظام کو دو میں سے ایک کام کرنا لازم ہے۔ یا تو اپنے دائرے کو اتنا محدود کریں اور اسی کے لحاظ سے معاشرے سے وسائل بھی لیں جو واقعتاً ’’دین کے جید علماء‘‘ تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اور اگر وسائل میں سے حصہ کم کرنا نہیں چاہتے تو پھر معاشرے کی عمومی تعلیمی ضروریات میں سے بھی کچھ کو اپنے نظام کا حصہ بنائیں تاکہ ان وسائل کے استعمال کا جواز پیدا ہو اور بدلے میں معاشرے کو ایسے افراد مل سکیں جو دینی علوم کے ماہر نہ بھی ہوں، لیکن کچھ دوسری ایسی مہارتیں رکھتے ہوں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے۔
یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے داعی کا معاشرے کی نظر میں محترم اور باوقار ہونا دعوت دین کے مؤثر ہونے کے لیے بہت اہم ہے اور ذریعہ معاش کا سوال اس مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں دین کو فکری غلبہ اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہو، وہاں معاشرہ اہل دین کی ضروریات کے بندوبست کو اپنا فریضہ اور ذریعہ سعادت تصور کرتا ہے۔ سو اسلامی تاریخ میں حکمران اور ارباب ثروت ہمیشہ دراہم ودنانیر نیاز مندانہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے رہے۔ تاہم جدید معاشرہ میں دین اور اہل دین کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی۔ چنانچہ لازم ہے کہ معاشرتی وقار کی بحالی کے لیے حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وقت کے مروجہ معیارات کے مطابق ایسی صلاحیتیں اور اہلیتیں پیدا اور ایسے ہنر حاصل کیے جائیں جو باوقار روزگار کا ذریعہ تصور کیے جاتے ہوں۔ اہل دین معاشرے کو دینے والے ہوں اور جو کچھ وہ دیں، اس میں دوسری خدمات کے ساتھ ساتھ دعوت دین کی خدمت بھی شامل ہو۔
دینی تعلیم کا مروجہ نظام ایسی مہارتیں سکھاتا ہے جن کی، عموماً، معاشرے کی نگاہ میں کوئی خاص قدر نہیں۔ سو معاشرہ حصول ثواب کی غرض سے یا مذہب کے ساتھ ایک روایتی وابستگی کے زیر اثر اس کام کے لیے صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات وغیرہ تو دے دیتا ہے، لیکن اس عمومی تاثر اور احساس کے ساتھ کہ مولوی لوگوں کو ٹکڑوں پر پل رہے ہیں۔ کسی مولوی کو قوت لا یموت سے زیادہ کچھ مل جائے تو معاشرے کو یہ ہضم نہیں ہوتا، کیونکہ اس طبقے کا درجہ معاشرے نے یہی متعین کیا ہے۔
اس رویے پر معاشرے کو قصور وار ٹھہرانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ جواز۔ یہ فطری انسانی رویہ ہے۔ اہل دین اگر بحیثیت طبقہ اپنے لیے وقار اور احترام چاہتے ہیں، جو دعوت دین کے لیے بے حد ضروری ہے، تو انھیں خود اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں دو چیزیں ہیں۔ (۱) عام دینی طبقے میں سہولت پسندی اور (۲) قائدین میں یہ سوچ کہ ایک طبقے کو بہرحال ذہنی اور معاشی لحاظ سے اس سطح پر ہی رہنا چاہیے کہ ان کی قیادت کا کاروبار چلتا رہے۔
سالوں کی بحث، مختلف قسم کے تجربات نیز ممکنہ خدشات وخطرات کا جائزہ لینے کے بعد دینی تعلیم کے نظام میں اصلاح اور بہتری کے مذکورہ چند پہلو اور امکانات ہمارے خیال میں بالکل واضح ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ کچھ باہمت حضرات اور ادارے اس سمت میں عملی قدم اٹھائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...