مفتی محمد زاہد معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم ہیں۔مساجد اسلام کا اہم ادارہ ہیں مگر انہیں صرف عبادات کے لئے وقف کر دیا گیا ہے ،مساجد کے نظم و نسق میں بھی بے شمار مسائل ہیں ۔یہ مسائل کس نوعیت کے ہیں اور انہیں کیسے حل کر کے مساجد کو سماجی اور دینی زندگی میں متحرک کردار دیا جا سکتا ہے ۔اس حوالے سے مفتی محمد زاہد نے گراں قدر تجاویز بھی دی ہیں ۔مدیر
یہ ایک حقیقت ہے کہ دین کی دعوت وترویج اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے کی تربیت میں مسجد کا شروع ہی سے بڑا اہم کردار رہا ہے۔ رسول اللہ ؐنے بھی اس ادارے کو بنیادی اہمیت دی۔رسول اللہ ؐجب ہجرت کرکے تشریف لائے تو مدینے کے قریب بستی قبا میں چند روزہ قیام کے دوران آپ نے مسجد تعمیر کروائی جس کی تعمیر میں کبارِ صحابہ اور خود نبی کریم ؐ نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ جب آپؐ مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں بھی آپؐ نے سب سے پہلا کام مسجد کی تعمیر ہی کا کیا۔ عہدِ رسالت مآب ؐ میں مسلمانوں کی دینی، تربیتی، دعوتی، سیاسی، سماجی اور عسکری سرگرمیوں کا محور رسول اللہ ؐ کی ذاتِ مبارکہ تھی اور آپؐ کی ذاتِ مبارکہ اور آپؐ کی زندگی کا محور مسجد تھی۔ آپؐ نے اپنی رہائش اور اور اپنی ازواجِ مطہرات کے حجرات کے لئے بھی مسجد سے متصل جگہ منتخب فرمائی۔ کسی بھی سفر کے لئے آپؐ کی روانگی کا آغاز مسجد سے ہوتا اور واپسی پر بھی آپؐ کی سب سے پہلے تشریف آوری مسجد ہی میں ہوتی۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ؐ کے پیغام کی اشاعت و ترویج اور تزکیے کے ذریعے قلوبِ صحابہ میں اس پیغام کی ترسیخ کا محور مسجدِ نبوی ہی تھی۔ اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں بھی مسلمان گئے انہوں نے سب سے پہلا کام مسجد ہی کی تعمیر کا کیا اور اسے اپنی زندگی کا مرکز بنایا۔رسول اللہ ؐ کا اپنا طریقہ اور اپنے کمانڈروں کو ہدایت تھی کہ اگر کسی بستی کے خلاف جہاد کے لئے جائیں لیکن وہاں مسجد نظر آئے یا اذان کی آواز سنائی دے تو حملہ نہ کرو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں مسجد و اذان کو کسی بستی میں اسلام کے وجود کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ عالمِ اسلام کی متعدد نام ور اور بڑی بڑی دانش گاہیں ایسی ہیں جن کا تخم کوئی نہ کوئی مسجد ہی تھی۔
آج مسلم دنیا میں بالعموم اور پاکستانی تناظر میں بالخصوص یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ پیغامِ مصطفے ؐکی ترویج واشاعت اور اسے زندگی میں راسخ کرنے کے لئے مسجد کا جو کردار ہونا چاہئے وہ پورے طور پر ادا نہیں ہوپارہا۔ مسجدوں کے بارے میں یا تو یہ شکایت ہے کہ وہ مسلمانوں کو جوڑنے کی بجائے ان کی وحدت میں رخنے ڈالنے کا ذریعہ بن رہی ہیں، اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بیشتر مساجد کے بارے میں یہ شکایت تو عام ہے ہی کہ وہ بہت حد تک بانجھ ہوچکی ہیں، ان میں مسلم سماج کی تربیت کا وہ کردار ادا نہیں ہورہا جس کی ان سے توقع ہونی چاہئے۔
مسجد کے ماحول سے منسلک بنیادی طبقے تین ہیں۔ مسجد سے استفادہ کرنے والے عام لوگ، مسجد کے منتظمین اور مسجد میں دینی فرائض انجام دینے والا طبقہ مثلاً امام وخطیب وغیرہ۔ مسجد کے کردار کو مؤثر بنانے کے لئے ان تینوں طبقات کے کردار پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ ایک اہم ادارہ ریاست کا بھی ہے کہ اس کی اس حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔ عام طور پر اگر مسجد کے کردار کو بہتربنانے کا سوچا جاتا ہے تو موضوعِ بحث دوسرا طبقہ یعنی ائمہ وخطبا وغیرہ کا بنتا ہے۔ یقیناًاس طبقے کا کردار سب سے اہم ہے۔ مسجد میں فرائض انجام دینے والا دینی راہ نما اگر محمد مصطفی ؐکے پیغام اور آپ کے دعوتی مزاج سے صحیح طور پر آگا ہ ہو اور اس حوالے سے سلیقہ اور لگن بھی رکھتا ہو تو مسجد کی افادیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ لوگ بہتر انداز سے دین سیکھ پاتے ہیں بلکہ ان کی طرف سے سماج کو فراہم کی گئی تربیت کے نتیجے سے دین سے دوری رکھنے والے شخص کو بھی یہ احساس ہوسکتا ہے کہ دین کوئی ہوائی اور واہماتی چیز نہیں بلکہ ہماری زندگی کی جیتی جاگتی حقیقت اور ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طبقے کا کردار اگر کما حقہ نہیں تو کسی نہ درجے میں ہمارے ہاں موضوعِ بحث ضرور بنتا ہے۔ ائمہ وخطبا کو کیا کرنا چاہئے کیا نہیں اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کا ایک اچھا ذخیرہ جمع کیا جاسکتا ہے، اس موضوع پر لکھے جانے والے مضامین، کالمز اور شاید تحقیقی مقالہ جات کی ایک فہرست تیاری کی جاسکتی ہے۔ اس طبقے کی اصلاح کے لئے دیئے جانے والے خطبات ولیکچرز کی بڑی تعداد میں نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ ائمہ وخطبا کی تربیت کے لئے چھوٹے بڑے کورسز بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلا دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد وقتاً فوقتاً اس حوالے سے مؤثر کورسز کرواتی رہتی ہے۔
لیکن مسجد کا ایک کردار ایسا ہے جو ہمارے ہاں بہت زیادہ نظر انداز ہو چکا ہے، بلکہ تقریباً اس کے بارے میں بات نہ ہونے کے بربر ہوتی ہے اور وہ کردار ہے مسجد کا نظم ونسق یا مسجد کی انتظامیہ۔ حالانکہ مسجد کے کردار کو مؤثر اور بہتر بنانے کے سلسلے میں جتنی اہمیت امام و خطیب کی ہے اسی کے قریب قریب بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ اہمیت مسجد کے نظم ونسق کی بھی ہے۔ اگر مسجد کے امام اور خطیب کو ہم بہتر تربیت سے مزین کربھی دیں لیکن مسجد کا انتظامی ماحول اس تربیت کے عملی انطباق کے لئے ساز گار نہیں ہے تو یہ ساری محنت بے کار ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بہت سی جگہوں پر مساجد کے نظم و نسق کی طرف سے پڑھے لکھے، سنجیدہ، معتدل اور خود دار عالمِ دین کو ایک کم تعلیم وصلاحیت والے دعوتی اصولوں سے نا آشنا لیکن خوشامد مزاج شخص کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یورپ کے وہ علاقے جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی آباد ہیں وہاں سے بھی اس طرح کی شکایات سننے میں آتی رہتی ہیں۔ بقول ایک صاحب کے یورپ کے بعض علاقوں کی مساجد میں دعوتی معیار کی بجائے ہمارے میڈیا کی طرح عالمِ دین کی بھی ریٹنگ کو اہمیت دی جاتی ہے۔
مثلاً ایک مسجد کی ایک فرقہ وارانہ شناخت بن چکی ہے۔ انتظامیہ اس شناخت کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اسے باعثِ فخر سمجھتی ہے وہاں فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے بیچارہ مولوی کیا کر لے گا۔راقم الحروف ایک خطیب صاحب کو جانتا ہے جنہیں ان کی انتظامیہ کے صدر نے کہا کہ آپ توحید پر بھی بیان فرمائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ توحید کی بات توجمعے کے بیانات میں کسی نہ کسی طرح آہی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ ضرورت اس لئے نہیں کہ میرے مخاطب الحمد للہ پہلے ہی سے موحد ہیں، ان میں کوئی مشرک نہیں ہے۔ لیکن صدر صاحب کا اصرار باقی رہا، انہوں نے عرض کیا کہ اب میں سمجھا کہ توحید بیان کرنے سے مراد آپ کی یہ ہے کہ میں فلاں فلاں فرقے کے لوگوں کو مشرک قرار دوں۔ جب خطیب صاحب ان کی مرضی کی توحید بیان کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے تو انہوں نے کسی دوسرے عالم کی خدمات حاصل کرکے از خود’’ توحید ‘‘ بیان کرانے کا انتظام کیا۔
زیرِ نظر صفحات میں مساجد کے کردار کو مؤثر بنانے کے حوالے سے کچھ تجاویز کو زیرِ بحث لانا مقصود ہے، جس میں زیادہ توجہ مساجد کے نظم ونسق، اس میں عامتہ الناس، مساجد کے منتظمین اور ریاست کی ذمہ داریوں پر دی جائے گی۔ الحمد للہ ہم مساجد کے حوالے سے اچھی اچھی باتیں اور اچھی اچھی خواہشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ائمہ و خطبا کو مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں، لیکن نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں ٹھوس تجاویز اور لائحہ عمل پر بات کرنا ہوگی، کچھ قدم اٹھانے پڑیں گے، کچھ محنت کرنا ہوگی اور کچھ خرچ کرنا ہوگا۔ اسی عملی جذبے کے تحت یہ چند منتشر تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔ یہ تجاویز پیش کرنے سے پہلے یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ مساجد کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت کے باوجود مساجد کے نظام نے اب تک جو خدمات انجام دی ہیں وہ یقیناً قابلِ صد ستائش وٍ سپاس ہیں۔
کسی جگہ مسجد بنانے کا فیصلہ کیسے اور کن بنیادوں پر ہوتا ہے، مسجد کی انتظامیہ کے تعین کا معیار اور طریقِ کار کیا ہوتا ہے، امام وخطیب اور دیگر عملے کے تقرر کا عموماً معیار کیا ہوتا ہے، کیا تقرر کا فیصلہ کرنے والوں کو وہ expertise دستیاب ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر وہ متعلقہ شخص کی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے پرکھ سکیں۔ کیا ہماری مساجد میں مزدور کی کم از کم تنخواہ کا جو معیار قانوناً مقرر ہے کم از کم اسی پر ملک کی تمام مساجد میں عمل ہوتاہے۔ مسجد کے عملے کو بچوں کی تعلیم صحت، اپنی ممکنہ بے روزگاری، اپنے بڑھاپے کے حوالے سے کتنا احساسِ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔امام وخطیب کی آواز، طرز لگانے کی صلاحیت اور فرقہ وارانہ ریٹنگ کی کتنی اہمیت ہوتی ہے اور سنجیدہ انداز سے خاندانی، سماجی، انفرادی، نفسیاتی مسائل پر قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی کرنے کی صلاحیت کو کتنا وزن دیا جاتا ہے۔علاقے کے لحاظ سے مساجد کی صفائی ستھرائی اور نفاست کا کتنااہتمام ہوتا ہے۔کیا مساجد کی انتظامیہ کسی ضابطہ اخلاق کی پابند ہوتی ہیں۔ اگر کسی فریق کو کسی دوسرے کی طرف سے زیادتی کی شکایت ہو مثلاً مسجد انتظامیہ بلا وجہ عملے کے کسی شخص کو فارغ کردیتی ہے تو کیا اس کے ازالے یا شنوائی کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود ہے۔کیا مساجد کے منتظمین کے لئے تربیت یا ان کی راہ نمائی کا کوئی بند وبست ہمارے ملک میں موجود ہے، کیا اردو زبان یا مقامی زبانوں میں ایسا لٹریچر دستیاب ہے جس میں مساجد کے منتظمین کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔مسجدوں کے تعمیری نقشوں کے سلسلے میں کیا ہمارے ہاں کوئی سٹینڈرڈز موجود ہیں، ان میں کس طرح کے علاقے میں کس سائز کی مسجد کے لئے کن کن سہولتوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن میں ہر ایک سوال بذاتِ خود تحقیقی کام کا متقاضی ہے، جس کی طرف ہمارے اداروں کو توجہ کرنی چاہئے، وگرنہ صرف ’مولوی‘ پر فوکس کرنے اور صرف اسی کی اصلاح پر توانائیاں صرف کرنا ناکافی ہوگا۔ ان سطور میں یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اس طرح کے تمام سوالات کا احاط کیا جائے، یہاں صرف چند ایسی تجاویز پیش کرنا مقصود ہیں جن سے مسجد کے نظم ونسق کو بہتر بنایا جاسکے۔
۱۔ اصلاحات کی طرف راغب کرنے کی حکمتِ عملی
مساجد کے نظم و نسق کو کن اصولوں، ضابطوں، اور اخلاقیات کا پابند ہونا چاہئے اس کی بات کرنے سے پہلے اہم سوال یہ ہے کہ مساجد کے منتظمین کو اس طرف لانے کا طریقِ کار کیا ہوگا۔ جب مساجد وغیرہ کے نظام میں اصلاحات لانے کی بات ہوتی ہے تو بیشتر اذہان میں عموماً اس کا ایک فارمولا آتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست اپنے اختیارات اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ان تمام چیزوں کو براہِ راست اپنی نگرانی میں لے لے، اور ایک ایک چیز ریاست کی مرضی سے طے ہو۔ لیکن پاکستان جیسے متنوع اور جمہوری معاشرے میں عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔اگرچہ مسلمان ملکوں میں مساجد کے نظم و نسق کو مکمل طور پر ریاستی کنٹرول کے ذریعے چلانے کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں تاہم کسی دوسرے ملک میں ان کی تقلید سے پہلے وہاں کی اور یہاں کی عملی حقیقتوں کے فرق کو دیکھنا ہوگا۔ بر صغیر کی تاریخ میں یہ چیز بالکل اجنبی ہوگی اور یہاں کے مخصوص مزاج اور حالات کیاعتبار سے ناقابلِ عمل، ویسے بھی ریاست ہر شعبے کو اپنے کنٹرول میں لینے کی بجاے اسے مانیٹر اور ریگولیٹ کرنے کی راہ اپناے تو یہ زیادہ بہتر پالیسی ہوتی ہے۔ اس لئے مساجد کے نظم و نسق کو کسی ڈھب پر اور اصلاحات کے کسی مجموعے پر لانے کے لئے ترغیبی پہلو کی خاصی اہمیت ہونی چاہیے، جس میں یقیناًریاست کا کردار سب سے اہم اور مرکزی ہوگا۔
1. راہ نمائی کا بندو بست:
بہت سی جگہوں پر یقیناً مساجد کا نظم و نسق چلانے والوں میں اس بات کا شوق موجود ہوگا کہ وہ اپنی مسجد کو دین کے پیغام کی اشاعت اور معاشرے کی صحت مند تربیت کے لئے مؤثر پلیٹ فارم بنائیں، بلکہ کئی جگہوں پر اس کی قابلِ تقلید عملی مثالیں بھی مل جائیں گی۔تاہم بہت سی جگہوں پر شوق تو موجود ہوتا ہے راہ نمائی کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے سب سے پہلی ضرورت تو اس موضوع پر متعلقہ لوگوں کی راہ نمائی کا انتظام ہے تاکہ جو اپنی ذمہ داریاں بہتر سے بہتر انداز میں نبھانے کاجذبہ رکھتے ہیں ان کے اس جذبے کو عملی شکل دی جاسکے۔ پھر عرض کردینا مناسب ہوگا کہ یہاں بات تربیت آئمہ کی نہیں ہورہی اس کا انتظام ہوتا ہی ہے تربیتِ منتظمین کی ہورہی ہے۔ (جنہیں شوق ہی نہیں ان کی بات آگے آرہی ہے)۔اس مقصد کے لئے سب سے پہلے تو :
آ۔ ایک وسیع زمینی مطالعہ اور تحقیقی کام:
ان امور کی نشان دہی کی ضرورت ہوگی نظم و نسق مساجد میں جن کی طرف راہ نمائی کرنا مطلوب ہے۔ یہ کام شاید سب سے بنیادی، سب سے زیادہ محنت طلب اور سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے لئے مساجد کی عملی صورتِ حال کا گہرائی سے مطالعہ کرانا ہوگا، میدانی تحقیقات کرانا ہوں گی، اور کمزور جگہوں کی نشان دہی اور ان کا حل تجویز کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا تحقیقی نوعیت کا کام ہوگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادارے دعوہ اکیڈمی اور دیگر جامعات کے علوم اسلامیہ کے شعبہ جات کو یہ کام سونپے جاسکتے ہیں۔ شاید کئی غیر حکومتی نتظیمیں بھی اس طرح کے کام کے لیے تیار ہوں۔
ب. راہ نما مواد اور لٹریچر کی تیاری:
مذکورہ بالا مطالعات اور تحقیقات کی بنیاد پر آسان اور عام فہم زبان میں منتظمینِ مساجد کے لئے لٹریچر کی تیاری۔ یہ مواد اور لٹریچر جہاں منتظمینِ مساجد کو یہ بتائے کہ وہ اپنی مساجد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ مند پلیٹ فارم کیسے بناسکتے ہیں وہیں اس حوالے سے ان میں ترغیب اور اٹھان بھی پیدا کرے۔
ج. تربیتی کورسز کا انعقاد:
ان تحقیقات اور مواد پر مبنی کورسز کی تیاری اور مرکزی، صوبائی اور ضلعی مختلف سطحوں پر منتظمین مساجد کے لیے تربیتی کورسز کے انعقاد کے انتظامات۔
2. راہ نمائی لینے پر آمادگی پیدا کرنا:
یہ بات تو ان منتظمینِ مساجد کی تھی جن میں واقعی شوق موجود ہے۔ جن میں اس طرح کا کوئی جذبہ یا شوق موجود ہی نہیں ہے ان کے بارے میں:
آ۔ ترغیبی مہم:
منتظمینِ مساجد کے لئے ترغیبی مہم شروع کی جائے، انہیں قائل کیا جائے کہ اصلاحات کے راستے پر چلنا خود ان کے دنیوی و اخروی مفاد میں ہے۔اس طرح سے ان کی کاوشیں ان کے لئے زیادہ بہتر صدقہ جاریہ بن سکتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے میڈیا کو استعمال کیا جائے۔ جو منتظمین خود کو سیکھنے اور اصلاحات کے راستے پر لائیں ان کی حوصلہ افزائی کے مختلف ذرائع اختیار کرکے مسابقتی ماحول پیدا کیا جائے۔
ب. مساجد کی ریٹنگ کا نظام بنایا جائے:
مساجد کے نظم و نسق کے حوالے سے سٹینڈرڈ ز تشکیل دے کر ان کی باقاعدہ شفاف درجہ بندی، ریٹنگ یا سٹینڈرڈز سرٹیفکیشن کا انتظام ہونا چاہئے۔ بادی النظر میں اس طرح کی تجاویز ہوسکتا ہے عجیب بلکہ مضحکہ خیز معلوم ہوں، لیکن دنیا جہاں میں کاروباری اداروں سے لے کر کھیل کی ٹیموں تک کی ریٹنگ ہوتی ہے تو مساجد کو بھی اگر ہم زندگی کا اہم شعبہ سمجھتے ہیں تو یہاں یہ کام کیوں نہیں ہوسکتا۔ جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا اگر ہم صرف باتیں نہیں واقعی نتائج چاہتے ہیں تو ہمیں عملاً کچھ کرنا تو پڑے گا۔
ج. مسجد انتظامیہ میں تربیت یافتہ لوگوں کی شمولیت:
اوپر ذکر کیا گیا کہ مساجد کے نظم ونسق کے حوالے سے مختلف سطحوں پر تربیتی کورسز کروائے جائیں۔ اس کے بعد ایک مرحلے پر جاکر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر مسجد کی انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل کئے جائیں جو مذکورہ تربیت حاصل کرچکے ہوں۔ ابتدا میں تربیت یافتہ لوگوں کے بہت معمولی تناسب کو لازمی قرار دیا جائے، تدریجاً اس تناسب کو مناسب حد تک بڑھایا جائے۔ یہ کام ظاہر ہے کہ صرف حکومت ہی کرسکتی ہے۔ مثلاً وہ یہ کرسکتی ہے کہ اس کے بغیر کسی مسجد کمیٹی کو رجسٹرڈ ہی نہ کرے۔
د. معیارات پر پورا اترنے والی مساجد کے لئے مراعات اور ترغیبات:
جو مسجد طے شدہ معیارات پر پوری اترے اسے اس کی درجہ بندی اور ریٹنگ کے اعتبار سے سرکار کی طرف مراعات و ترغیبات دی جائیں۔ اس میں یوٹیلٹی بلز میں تخفیف یا ان کی معافی یا حکومت کی طرف سے ادائیگی بھی ہوسکتی ہے۔ بالخصوص پسماندہ علاقوں کی مساجد کے لئے مزید مالی امداد بھی ہوسکتی ہے۔ تعریفی اسناد بھی ہوسکتی ہیں، یہ اسناد وغیرہ اہم شخصیات کے ہاتھوں بھی دلوائی جاسکتی ہیں۔
۱۔ معیار پر پورا نہ اترنے والی مساجد کی حوصلہ شکنی:
جس مسجد کی انتظامیہ معیارات پورا نہ اترے، بلکہ منفی درجہ بندی میں آرہی ہو اس کی درجہ بندی کے لحاظ سے حوصلہ شکنی کی تدابیر پر بھی غور ہو۔
۲۔ ہمیں اہلِ مساجد سے کیا مطلوب ہے؟
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا مساجد کے نظم و نسق کے حوالے سے راہ نما اصول اور معیارات مرتب کرنے کے لئے ایک وسیع مطالعے اور خاصے کام کی ضرورت ہوگی۔ تاہم یہاں چند اہم امور کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
1. آئمہ و خطبا اور عملے کی مراعات:
مساجد میں جو خدمات انجام دی جاتی ہیں، جیسے امامت، خطابت، مؤذنی اور تعلیمِ قرآن وغیرہ یہ اتنی عظیم ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز ان کا معاوضہ نہیں بن سکتی۔ اس لئے مساجد میں خدمات انجام دینے والوں کو جو مالی مراعات ملتی ہیں وہ صحیح معنوں میں ان خدمات کا معاوضہ نہیں کہلاسکتیں۔ صحیح معنی میں یہ معاوضے کی بجائے کفالت ہے۔ اس لئے کہ جب کوئی شخص اپنا وقت کسی کے کام کے لئے وقف کردیتا ہے تو اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی کفالت اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ مساجد میں مذکورہ خدمات کا بر قرار رہنا بنیادی طور پر پوری سوسائٹی کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ چونکہ ہمہ وقتی خود کو فارغ نہیں کرسکتے اس لئے جو خود کو ان خدمات کے لئے فارغ اور وقف کرے گا اس کی کفالت اس سوسائٹی کے ذمے ہوگی۔اگر ہم خالص فقہی اصطلاح استعمال کرنا چاہیں تو اسے نفقہ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ کفالت یا نقفے کے بنیادی اصولوں کو اگر دیکھیں تو ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کی مقدار کفالت کرنے والے، جس کی کفالت کی جارہی ہے اور جس ماحول میں کی جارہی ہے اس سے مطابقت رکھتی ہو۔ قرآن عموماً جہاں نفقے کی بات کرتا ہے وہاں اس سارے اصول کو ’’بالمعروف‘‘ (رواج کے مطابق) کے مختصر لفظوں میں پرو دیتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اہل علاقہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسجدی خدمات کے کم از کم سربراہ (امام و خطیب) کو وہ معیارِ زندگی فراہم کریں جو اس علاقے، محلے، بستی وغیرہ کا اوسط درجے کا ہے۔فقہا یہ بھی کہتے ہیں کہ قدیم فقہا نے ان خدمات کے معاوضے کو اس وقت ممنوع قرار دیا تھا جبکہ اہلِ علم کو بیت المال سے وظائف مل جایا کرتے تھے۔ گویا آج کل کے مشاہرات وغیرہ درحقیقت ان وظائف کا متبادل ہیں، جو اصلاً تو حکومت کے ذمے ہوتے تھے، لیکن اگر حکومت یہ کام نہ کرے تو مسلمان سوسائٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ حضرت عمرؓنے بیت المال کے وظائف کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:
فالرجل و قدمہ،ولرجل و بلاوہ،ولرجل وعیالہ،والرجل و حاجتہ
آدمی کے قدیم الاسلام ہونے (سینارٹی) کو دیکھا جائے گا، اس کارکردگی اور صلاحیت کو مدنظر رکھا جائے گا، اس کے اہل وعیال اور اس کی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا جائے گا۔
ہمارے ہاں مسجد کے آئمہ و خطبا سے مطالبات سے بہت سے کئے جاتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کچھ لینے کے لئے دینا بھی پڑتا ہے۔
2. آئمہ و خطبا اور عملے کا تقرر:
آ۔ آئمہ و خطبا کے تقرر کے حوالے سے بھی اصول اور معیارات طے ہوں:
ظاہر ہے کہ ملک بھر کی تمام مساجد کے لئے یکساں معیار ممکن نہیں ہے۔ علاقوں اور محل وقوع وغیرہ کے اعتبار سے مساجد کی درجہ بندی کرکے اسی کے حساب سے معیار اور اصول بھی طے ہونے چاہئیں۔ ان معیارات میں اچھی دینی تعلیم، مناسب حد تک عصری تعلیم، حسن قرا ت، اچھا اخلاق و کردار، فرقہ وارانہ تعصب سے خالی ہونا وغیرہ بہت سی چیزوں کو مد نظر رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دینی مدارس کے ذہین فضلا عموماً مسجد کی خدمات کو اپنی ترجیحی فہرست میں بہت نیچے رکھتے ہیں، عموماً ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دینی مدارس یا سرکاری اداروں کی تدریس یا کوئی اور ذمہ داری مل جائے، اس لئے مساجد کے لئے، بالخصوص امامت کے لئے آمادہ ہونے والوں میں عموماً کم صلاحیت کے فضلا ہی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب کم ذہنی صلاحیت کے لوگ اس کام کو کریں گے تو نتائج بھی ویسے ہی ہوں گے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ان ذمہ داریوں پر تقرر کے معیار کی بات غیر عملی سی لگتی ہے۔ لیکن اگر پچھلے نمبر میں ذکر کردہ مالی کفالت والی بات ہماری مساجد کے ماحول میں آجائے اور امامت کے منصب کو واقعی باوقار منصب بنا لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ذہین اور باصلاحیت فضلا بھی اس کام کے لئے تیار ہوں گے بلکہ وہ خود کو اس مقصد کے لئے بلند سے بلند معیار پر لانے اور اپنی صلاحیتوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بھی کوشش کریں گے۔
ب. دینی مدارس کے نصاب میں تربیتی مواد شامل کروایا جائے:
آئمہ و خطبا کی تیاری کے اہم مراکز دینی مدارس ہیں۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ امامت و خطابت کی تربیت اور دعوتی اصولوں کی تعلیم، عامتہ الناس کے ساتھ برتاؤ کے اصول وغیرہ ان مدارس کے بیشتر نصابات کے کسی بھی مرحلے میں باقاعدہ طور پر شامل نہیں ہیں۔ مدارس کے نصاب میں اس طرح کے تربیتی مواد کو ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل کروانا چاہیے۔
ج. دینی مدارس کے فضلا کے لئے تربیتی کورسز کا اہتمام:
اب تک جو علما فارغ التحصیل ہوچکے ہیں ان کے لئے مختلف دورانیوں پر مشتمل ملک بھر میں تربیتی کورسز کروائے جائیں۔ مساجد کو اس بات پر آمادہ کیا جائے بلکہ اس کا پابند بنایا جائے کہ وہ تربیت یافتہ امام کو ترجیح دیں۔ آئمہ و خطبا کی سرٹیفکیشن کا جامع نظام بنایا جاے، آگے سرکاری سطح پر جس ادارے کی تجویز آرہی ہے اسے بھی یہ کام سونپا جاسکتا ہے، اور آہستہ آہستہ اس منزل پر پہنچا جائے کہ صرف سرٹیفائیڈ شخص ہی ان مناصب تک پہنچ سکے۔
د. تازہ ترین کورسز کا اہتمام:
بنیادی کورسز کے علاوہ تسلسل کے ساتھ ریفریشر کورسز کا سلسلہ بھی چلتا رہے۔اور منتظمینِ مساجد کو آمادہ یا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے آئمہ کو ان کورسز میں بھیجیں۔ اہلِ ثروت کے علاقوں کی مساجد سے ان کورسز کے اخراجات بھی وصول کئے جائیں، دیگر مساجد سے کی فیسوں میں معافی یا تخفیف کی جائے۔
ر. کورسز کی یکسانیت:
بہتر ہوگا کہ ان کورسز کو مرتب کرنے اور عملاً منعقد کرانے والی ایک ہی اتھارٹی ہو، کم از کم ایک صوبے کی حدتک تو ایسا ہو۔ اگر متعدد ادارے یا محکمے یہ کام کررہے ہوں تو بھی کم از کم ان میں رابطہ کاری کا ایسا نظم موجود ہو جس کے نتیجے میں ان کورسز میں تقریباً یکسانیت ہو۔
3. اخلاقی معیار:
مسجد کو نہ صرف تعلیمِ اخلاق کا مرکز ہونا چاہئے بلکہ مسجد کا ماحول بھی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہونا چاہئے۔اس کے لئے جہاں اس بات کی ضروت ہے کہ آئمہ وخطبا خود مثال بنیں وہاں منتظمینِ مسجد کو بھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً مسجد کے عملے کے ساتھ ان کا رویہ اور انداز وہ ہونا چاہئے جو اس پلیٹ فارم سے دوسروں کو سکھائے جانے کے قابل ہو۔ کسی کی غلطی پر تنبیہ وغیرہ کسی بھی انتظامی ذمہ دار کی مجبوری ہوتی ہے، لیکن اس کے لئے اختیار کردہ طریقے طریقے میں فرق ہوتا ہے۔بالخصوص مسجد میں دینی مقتدا کے ساتھ رشتہ بہت احترام کا ہونا چاہئے اور مسجد کا عمومی ماحول اس کا عکاس ہونا چاہئے۔
4. مساجد کا کمیونٹی سے تعلق:
عہدِ رسالت مآب میں مسجد ایک کمیونٹی سنٹر ہوتا تھا، بالخصوص خدمتِ خلق کا سب سے بڑا مرکز ہوتا تھا۔مثلا رسول اللہﷺ کے ذہن میں جب یہ تجویز آئی کہ جس شخص کے پاس کھجوروں کے دس وسق ہوں وہ ان میں سے ایک خوشا محتاجوں کے لئے وقف کردے تو اس کام کے لئے جو جگہ آپ نے تجویز فرمائی وہ مسجد نبوی ہی تھی۔ چنانچہ آپ نے حکم فرمایا کہ یہ خوشے مسجد میں فلاں جگہ لٹکادیئے جائیں، ضرورت مند وہاں سے حاصل کرلیتے تھے۔راقم الحروف نے ایک جگہ ملاحظہ کیا کہ ایک روڈ پر جہاں شادی ہالز کی لائن تھی، ان کے پچھواڑے میں ایک چھوٹی سی مسجد میں امام صاحب نے یہ بینر لگایا ہوا تھا کہ اگر کسی کو کھانا حاصل کرنا ہو تو وہ امام صاحب سے رابطہ کرے۔غالباً مسجد کے قریب کچھ غریب آبادی بھی تھی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوا کہ امام صاحب نے مسجد کے اس محل وقوع کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ استعمال کیا۔ ایک طرف شادی ہالز میں بچنے والا کھانا ہے دوسری طرف غریب لوگ ہیں۔ ایک مسلمان ملک میں یہ تجربہ بھی ہوا کہ ایک مسجد کے خطیب صاحب کو خیال ہوا کہ گھروں میں تھوڑا تھوڑا کھانا جو بچ جاتا ہے اور عموماً نالیوں میں بہہ جاتا ہے کیوں نہ اسے یکجا کرکے ضرورت مندوں تک پہنچادیا جائے۔ چنانچہ بعض لوگوں کو متوجہ کرکے مسجد کے ایک حجرے میں ایک فریزر رکھوادیا تاکہ جس کے گھر میں معمولی کھانا بچا ہوا ہو وہ نماز کے لئے آتے ہوئے کسی شاپر وغیرہ میں ساتھ لیتا آئے اور فریزر میں رکھ دیں اور جس کو ضرورت ہو وہ اس فریزر سے لے لے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کام نے ایک بڑے چین کی شکل اختیار کرلی جس کے ذریعے صرف کھانے ہی نہیں ملبوسات وغیرہ بہت سی استعمال شدہ چیزیں غریبوں کو دستیاب ہونے لگ گئیں۔کمیونٹی کی خدمت ایک مستقل فن ہے۔ مساجد کے منتظمین اور کارکنان کو اس حوالے سے تھوڑی سی راہ نمائی بھی مل جائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
5۔ صفائی و نفاست کا معیار:
صفائی، ستھرائی اور نفاست ہمارے دین کی اہم تعلیم ہیں۔ الحمد للہ ہمارے بڑے شہروں کے خوش حال علاقوں کی مساجد میں اس کا کافی حدتک اہتمام ہوتا بھی ہے، تاہم ہماری بہت سی مساجد اس حوالے سے توجہ کی محتاج ہیں۔ بالخصوص بیت الخلا اور وضو خانے وغیرہ کو تو صفائی اور حفظانِ صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر پورا اترنا چاہئے۔خوش حال مساجد میں تو اس معیار کو نفاست کے اعلیٰ معیار تک لے جایا جانا چاہئے۔ لوگوں کو جس طرح کا معیار دیا جائے اسے اسی انداز سے استعمال کرنے کے خود ہی عادی ہوجاتے ہیں۔ایک مسافر کا جو طرزِ عمل ایک بس سٹینڈ پر ہوتا ہے اسی کا طرزِ عمل اگر موٹر وے کے سروسز ایریا میں دیکھا جائے تو خاصا فرق نظر آئے گا۔
یہ تو چند مثالیں ہیں، وگرنہ بہت سی چیزیں ایسی ہوسکتی ہیں جنہیں مساجد کے نظم نسق کے تربیتی مواد، معیارات اور ضوابط میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
6۔ حکومت کی ذمہ داری
ظاہر ہے کہ یہ سارے کام محض پرائیویٹ سطح پر نہیں ہوسکتے، اس میں بہت سا کام بلکہ بڑا کام حکومتوں کے کرنے کا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر مساجد کے نظام کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیااور شاید اسے زندگی کا اہم شعبہ سمجھا ہی نہیں گیا۔ اوقاف کی چند مساجد چلا کر حکومت نے خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ یہ درست ہے حکومت کا کام حکومت کرنا ہی ہوتا ہے ادارے یا زندگی چلانا نہیں۔ جہاں بھی حکومت ادارے چلانے بیٹھ جائے وہاں عموماً قابلِ رشک نتائج سامنے نہیں آتے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح اداروں کو چلانا یا انہیں کنٹرول کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہوتا وہیں زندگی سے متعلق اہم اداروں کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔یہی اصول مساجد بھی لاگو ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا نوعیت کی تمام تجاویز زبانی جمع خرچ ہی رہیں گی اگر حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرے۔ حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داری سے کیسے عہدہ برآ ہو یہ اگرچہ تفصیل طلب موضوع ہے تاہم یہاں اختصار کے ساتھ چند تجاویز کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ا۔ ملکی اور صوبائی سطحوں پر بلکہ ہوسکے تو ضلعی سطحوں پر بھی مساجد کے معاملات کے لئے ادارے مثلا بورڈز یا کمیشن یا ریگولیٹری اتھارٹی وغیرہ ہونے چاہئیں جو سرکاری لوگوں کے علاوہ مناسب تعداد میں اہلِ علم و دانش اور اہلِ تجربہ پر مشتمل ہوں۔ اس لئے کہ اس کے بغیر حکومتی کردار وزارت کے سیکریٹری سے شروع ہوگا اور ڈی سی او آفس کے عام آفیسر بلکہ کلرک سے ہوتا ہوا بواسطہ ایس ایچ او مسجد تک پہنچے گا اور پورے عمل پر روایتی بیورو کریسی کا رنگ غالب رہے گا۔
ب. مساجد کے بارے میں تمام اہم معاملات مثلاً کہاں مسجد بنے کہاں نہ بنے، مساجد کی کمیٹیوں کی رجسٹریشن، مسجد کمیٹیوں کے بائی لاز کا عمومی فریم، مساجد سے متعلقہ لوگوں کے حقوق، ان کی ذمہ داریاں، اوپر ذکر کردہ تجاویز کو عملی شکل دینے کے صورتیں وغیرہ وغیرہ تمام اہم امورکے بارے میں بنیادی فیصلے اسی ادارے کے تحت انجام پائیں۔ عملی تنفیذ تو ظاہر ہے انتظامی مشینری ہی کرے گی۔
ج. اگر مسجد انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہورہی، بالخصوص اس کی طرف سے کسی کی حق تلفی ہورہی ہے تو اس کی شنوائی کا بنیادی ذمہ دار بھی یہی ادار ہ ہو۔
د. مساجد کی طرف سے فراہم کردہ مشاہراتی مراعات وغیرہ کے علاوہ ملازمین کے مستقبل کو محفوظ سے محفوظ بنانیکے حوالے سے تدابیر بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہو۔ مثلاً کوئی اینڈومنٹ فنڈ قائم کرنا، انشورنس یا تکافل کی طرز کا کوئی بند وبست کرنا جس کے ذریعے آئمہ وخطبا اور عملے کے بچوں کی تعلیم، صحت، بچوں کی شادیاں وغیرہ، بڑھاپا یا معذوری وغیرہ کے حالات کا تحفظ فراہم کرنا مقصود ہو۔ اس طرح کے کام کے لئے ابتدا میں قابلِ ذکر رقم مختص کرنا ہوگی، بعد میں قطرہ قطرہ دریا بنتا رہے گا۔
فیس بک پر تبصرے