گرگا چیٹر جی کلکتہ میں رہتے ہیں اور جنوبی ایشیائی تاریخ ،تہذیب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کررکھی ہے اور بھارت کے ادارہ برائے شماریات سے وابستہ ہیں ۔زیر نظر مضمون میں انہوں نے بھارتی ریاست آسام میں جہاں علیحدگی کی تحریک بھی چل رہی ہے وہاں پر شہریت کے قوانین کا جائزہ معروضی حالات کے پس منظر میں لیا ہے ۔پاکستان میں بھی آج کل شہریت کے قانون پر بحث ہو رہی ہے ۔مدیر
گرگا چیٹرجی ریاست آسام میں اس قانون میں موجود مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جو شہریت کا طریقہ کار طے کرتے ہیں۔
بی جے پی کے حلقوں نے ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے آخری مسودے کی اشاعت کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا جس کا مبینہ مقصد ان غیر قانونی افراد کا تعین تھا جو شہری نہیں ہیں مگر ریاست آسام میں رہ رہے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی اشاعت پہ سابقہ دہشتگرد گروہ یونائیٹڈ لبریش فرنٹ آف آسام (یو ایل ایف اے) جس کے سربرا ہ ارنبندا راج کھووا ہیں اورآل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو)نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔ آخر الذکر تنظیم اس سے پہلے نسل پرستانہ تفاخر پھیلانے میں، نسل پرستی کرنے میں اور بھتہ خوری میں بھی ملوث رہی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ سربانندا سونووال اس تنظیم کے ایک زمانے میں سربراہ رہ چکے ہیں جب اس تنظیم کی بھتہ خوری اورنسل پرستی کی سرگرمیاں عروج پہ تھیں۔ جبکہ یونائٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام براہ راست بہت سے معصوم بھارتیوں کے قتل میں ملوث ہے جن کا محض اتنا قصور تھا کہ وہ غیر آسامی تھے ۔
دلی آسام اور بنگلہ سے بہت دور ہے اسی لئے یہاں کا صحافتی بیانیہ خاص طور پر اس کے بنگالی ترجمان جن کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ہے لہٰذا انہوں نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کی اشاعت کے مرحلے کی ہند و مسلم تنازع کا بہانہ بنا کر مخالفت کی ہے۔ اس طرح کا جھوٹا بیانیہ بی جے پی کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ دلی سے آنے والا وہ بیانیہ جو بی جے پی کا نہیں ہے اس میں بھی معلومات، سمجھ بوجھ اور تحقیق کی کوشش کی کمی ہوتی ہے اور اس میں بھی مسلمانوں کو متاثرہ کرکے دکھایا جانے والا بیانیہ ہی شامل ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی طرز کے کام میں ماہر ہیں۔ جب ایک آدمی ہندو مسلم تنازع بنا کر کھیلنے کا ماہر ہے تو سچائی کو تلاش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
وقت بدل رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ زمین سے اٹھنے والی، حقائق پہ قائم، جارحیت پہ مبنی آوازوں کو دلی کے شاہی دروازوں سے سند کی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں سنا جائے۔ یہ آوازیں کیا کہتی ہیں؟ وہ اس جھوٹ کا پردہ چاک کررہی ہیں کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا طریقہ مسلم مخالف ہے۔ یہ بنیادی طور پر بنگالی مخالف ہے چاہے وہ ہندو بنگالی ہو یا مسلم بنگالی۔ چونکہ یہ مرحلہ اس قدر وسیع ہے کہ اس میں کچھ دیگر گروپ مثال کے طور پر گورکھے بھی گُھن کی طرح پس رہے ہیں۔ لیکن کئی دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بنگلہ میں دونوں جماعتیں حکمران جماعت ترینامول اور اس کی اصولی مخالف جماعت سی پی آئی (ایم) نے ایک ساتھ مل کر نیشنل رجسٹر سٹیزننز کی مخالفت کی ہے۔ اس دوران ترینامول نے ایم پی ایز کی ایک ٹیم تشکیل دی جو کہ سٹیزن کنونشن میں شریک ہونے جارہی تھی اس کو آسام پولیس نے متشدد انداز میں روکا اور سلچر ائیر پورٹ پر جانے سے روک دیا۔ بنگلہ میں اُن دلت ہندو بنگلوں کی حمایت میں، دلتوں اور متویوں کی بڑی تعداد نے بنگلہ ریلوے کے ٹریکس کو بند کردیا جن کے نام آسام میں نیشنل رجسٹر سٹیزنز میں شامل نہیں تھے۔ اگر یہ کافی نہیں تھا ہے تو یہ بھی نوٹ کیجئے کہ بی جے پی کے آتشی مزاج ایم ایل اے شلادتیہ دیب جو کہ بنگالی ہندو ہیں اور اپنی مسلم مخالف تقاریر کے سبب بہت مشہور ہیں نے خود اعتراف کیا ہے کہ نیشنل رجسٹر سٹیزنز میں اکثر نام ہندوؤں کے ہی شامل ہیں۔ اس بات کو ملحوط رکھتے ہوئے کہ اس کے سیاسی مرکز ہجوئی اور اس کے اطرف میں آسام کے بنگالی ہندو ؤں کی عدم اطمینانی سے وہ خود آگاہ ہے۔ وہ اس لئے ٹارگٹ نہیں کئے جارہے کہ وہ ہندو ہیں بلکہ انہیں اس لئے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ بنگالی ہیں۔ بنگالی مسلمان تو پہلے ہی خوف زدہ اور تباہ حال ہیں کیونکہ جو بیانیہ بی جے پی نے تشکیل دیا ہے اس کے مطابق جو بھی بنگالی بولنے والا مسلمان آسام میں موجود ہے وہ اسے بنگلہ دیشی گردانتے ہیں۔ آسام کے بنگلہ اکثریت والے ضلع بکسا میں ہندو بنگالیوں نے سڑکیں بند کردیں اور نیشنل رجسٹر سٹیزنز کے خلاف مظاہرہ کیا اس دوران وہ ممتا بینرجی کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے جس کی سیاسی جماعت کی اس وقت آسام کے علاقے میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ محض مایوس عوام کی چیخ و پکار تھیں۔
اگر ایک جانب بی جے پی کا مسلم مخالف بیانیہ تھا تو دوسری جانب آسام میں پہلے موجود آسامی نسل پرست رویئے پر مبنی بنگالی مخالف بیانیہ بھی موجود تھا جس کی داعی آل آسام اسٹوڈنٹس یونین(اے اے ایس یو) جیسی تنظیمیں ہیں۔ یہ دونو ں بیانئے آپس میں ملے تو نتیجے کے طور پر نیشنل رجسٹر سٹیزنز کا مرحلہ سامنے آیا۔
ہندو بنگالیوں کو عارضی طور پر سابق سربراہ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین سارابنندا کے اس مقصد کے لئے ساتھ جوڑا گیا کہ وہ وزیر بن سکیں۔ہندو بنگالیوں کی مدد سے مقصد پورا کیا گیا جنہیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ بی جے پی بنگالی ہندو اور مسلمان کے لئے کوئی رستہ ڈھونڈ لے گی کہ جس کے دوران انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ کردیا جائے گا۔
اب نیشنل رجسٹریشن سٹیزنز کے آخری مسودے کے سامنے آنے کے بعد یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ ہندو اور مسلمان بنگالیوں کو الگ الگ کرنے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا وہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ اسی شیلا دتیا دیب جو کہ ہندو بنگالی ہیں اور صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں انہیں یہ قبول کرنا پڑا کہ نیشنل رجسٹر سٹیزنز میں جن شہریوں کے نام آئے ہیں وہ بنگالی ہندو ہیں۔
جب یہ دونوں باتیں ظاہر ہوگئیں تو ہندو بنگالیوں پر بھی یہ بات کھل گئی کہ بی جے پی نے ان کے ساتھ کھیل کھیلا ہے۔ جو وعدہ ان سے کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔
بی جے پی نے جب اپنے آپ کو بنگالیوں اور آسامیوں کے درمیان پھنسا ہوا دیکھا تو یہ فیصلہ کیا کہ بنگالیوں کو اٹھا کرباہر کیا جائے ۔
ہندوستان کے آئین میں بنگلہ دیشی سے مراد تو وہ وہ لوگ ہونے چاہیءں تھے جو بنگلہ دیشی شہری ہیں اور بھارت میں غیر قانونی طور پہ رہ رہے ہیں۔ بی جے پی کے مسلم فرقہ واری بیانئے کے تحت اس کے یہ معنی ہوئے ہیں کہ تمام مسلم بنگالی بنگلہ دیشی ہیں۔اور یہ جیسا کہ اس سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے ان ریاستوں میں جہاں ان کی حکومت ہے بشمول مہاراشٹر میں اور ہریانہ میں، انہوں نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے۔ جب آسام کی بات جائے اور اس کی نزدیکی ریاستوں کی،جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اور جہاں بنگالی اقلیت میں ہیں وہاں بلاتفریق مسلم بنگالی اور ہندو بنگالی تمام بنگالیوں کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے۔
جب نیشنل رجسٹر سٹیزنز شائع ہوا تو یہ اس سے بھی ظاہر ہوگیا کہ جب مگھالایا میں شرپسندوں نے غیر قانونی چیک پوسٹیں قائم اور لوگوں سے ان کے شہری کاغذات دکھانے کو کہا جو شکل و صورت سے بنگالی لگتے تھے۔ اگلے چودہ دنوں میں ارونا چل پردیش میں بھی اسی قسم کا آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔
مانی پور میں نیشنل رجسٹر سٹیزنز کا منصوبہ بنایا جارہا ہے کہ ایک رجسٹر بنایا جائے کہ 1951 کے بعد وہاں جو بھی بنگالی وہاں ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔ خاص طور پر جیری بام کے علاقے میں جہاں پہ بنگالی کافی تعداد میں رہتے ہیں۔
کیا ہندوستانی وفاقیت میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ قانونی شہری نہیں ہیں اور غیر قانونی طریقے سے داخل ہوئے ہیں؟ ہاں! اگر ایسا ہے تو یہ طے کرنے کے لئے کہ کون شخص غیر قانونی شہری ہے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سا شخص قانونی شہری ہے۔ کوئی بھی قانونی سیاسی جماعت جو کہ ہندوستانی وفاقیت میں کام کرتی ہے ایسی گنتی کو ناجائز نہیں سمجھتی۔
تب سوال اٹھتا ہے کہ آپ کس طرح یہ فیصلہ کریں گے کہ کوئی شخص ہندوستانی شہری ہے یا نہیں ہے۔ کسی بھی طور پر اگر کوئی پیمانہ بنایا جائے تو لازمی ہے کہ وہ بنیادی سطح پر آئین کے سامنے مساوات اور انصاف کے منصفانہ تقاضے پورا کرتا ہو۔ اس کو معروضی حقائق کے مطابق ہونا چاہئے جس کا مطلب ہوتا ہے قابل دید شواہد اور ان کی ایک نقل جانچ کرنے والے ادارے کے پاس عوامی جائزے کے لئے بھی موجود ہو۔ اس جانچ کو آفاقی ہونا چاہیے کیونکہ ہندوستانی وفاق کے تمام رہنے والوں کے لئے ہے۔ اس طرح کی کسی جانچ میں جانچ کرنے والا ادارہ کوئی ایک فریق نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا ادارہ جانچ کرنے کے عمل کا نگران نہ ہو جس کے کچھ مقاصد ہیں۔ تاہم آسام میں نیشنل رجسٹر سٹیزنز کے عمل کے دوران درج بالا پیمانے میں سے کسی ایک کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔اسے اسی طرح انجام دیا گیا جس طرح اسے انجام دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کے دوران ”قانونی ” طریقے سے دلی ناگ پور اور گواہٹی میں نسل پرست عناصر کو خوش رکھنے کے لئے آسام میں بنگالیوں اور دیگر نسلی گروہوں کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے۔نیشنل رجسٹریشن سٹیزنز کے عمل سے پہلے پہل حاصل ہونے والی خوشی کے بعد اب ان طاقتوں کو جلد ی سے اندازہ ہورہا ہے کہ بی جے پی نے اس مرحلے سے جو فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اسے آسام اور بنگلہ میں فرقہ وارانہ تفریق سے بالاتر جس طرح کی بڑھتی ہوئی مزاحمت کا سامنا ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی ہندوستانی وفاق میں رہنے دیگر والے شہریوں کو بھی اس طریقے کے ڈھونگ کا شعور بڑھ رہا ہے۔
آسام میں نیشنل رجسٹریشن سٹیزنز کا مرحلہ وہی صورت اختیار کرچکا ہے جس مقصد کے لئے اسے تشکیل دیا گیا تھا: آسام میں بنگالیوں اور دیگر نسلوں کے لوگوں کو شہریت سے محروم کرنے کا آئینی رستہ۔
ایک لمحے کے ان پیمانوں کا جائزہ لیں جن کی مدد سے ہمیں یہ سمجھ آ سکتی ہے کہ نیشنل رجسٹر سٹیزنز کا مرحلہ درپردہ ایک ڈھونگ کیوں ہے؟ سب سے پہلے، یہ بات کہ شہریت کی جانچ کا مرحلہ۔ سب سے بڑا اسکینڈل تو یہ ہے کہ اس مرحلے کے دوران کچھ نسلی گروہوں پر اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے شواہد کا بوجھ دیگر نسلی گروہوں کی نسبت زیادہ لادا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ کچھ گروہ جنہیں نام نہاد طور پر اصل باشندے کہا گیا ہے کو یہ چھوٹ دی گئی کہ وہ نیشنل رجسٹر سٹیزنز میں شمولیت کے لئے کچھ معلومات دیں (اکثر صورتوں میں تو کوئی معلومات دینے کا تقاضہ نہیں کیا گیا) جبکہ دیگر گروہوں کو مثال کے طو ر پر بنگالیوں کو (جنہیں حیران کن طور پر اصل باشندوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیاتھا، یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے کسی کو بھی یہ حیرت ہوسکتی ہے کہ کیا وادی باراک آسام کا حصہ ہے بھی یا نہیں؟کیونکہ بنگالی ہی تو ایشان بونگو باراک کے اصل رہائشی ہیں)ان سے یہ کہا گیا کہ وہ اس قدر تفصیل سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے شواہد مہیا کریں جو شائد ہندوستانی وفاق کے اکثر شہری مہیا نہ کرسکیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس ملکیت کے یا دیگر نوعیت کے سرکاری کاغذات یا رسیدیں نہیں ہوتیں۔ جب اس طرح کسی ایک نسلی گروہ سے اس حد تک سختی سے شواہد طلب کئے جاتے ہیں اور دوسرے گروہ کو اس سختی سے محفوظ رکھا جا تا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک گروہ چاہتا ہے کہ دوسرے گروہ کے زیادہ سے زیادہ لوگ شہریت کی فہرست سے خارج ہوجائیں۔
اس کے بعد ہم اس جانچ اور اس کے طریقہ کار کے تعلق کے مرحلے پہ آتے ہیں۔ یہ تمام جانچ کس نے کی؟ سپریم کورٹ نے تو یہ جانچ نہیں کی اور نہ ہی اس جانچ کے ہر مرحلے اور مقام کا جائزہ لیا ہے۔ یہ تو آسام میں موجود آل آسام سٹوڈنٹس یونین کے ایک سابقہ رہنما جو کہ اب صوبائی وزیر ہیں اور ا ن کی کابینہ نے کی جس میں تمام ارکان متعصب اور نسل پرستی کی آگ بھڑکانے والے ہیں۔ اب اس طرح کے جائزہ کاروں کو اس صورتحال میں دیکھئے جہاں زمینی سطح پہ کوئی جانچ جاری ہے اور وہاں تعصب کا مظاہر ہ کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ یہ کوئی تعجب نہیں کہ نیشنل رجسٹر سٹیزنز کے پہلے مرحلے میں ایسے بہت سے افراد کو نکال دیا گیا جو کہ بی جے پی کے پرانے نظریاتی مخالف تھے۔ ان میں سے سب سے بڑا نام بنگلہ زبان کے بڑے ادیب اور ماہر لسانیات پروفیسر تاپودھیر بھٹیاچاریہ کا ہے جو کہ آسام یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرہیں اور تحریک آزادی کے ہیرو اور سابق ایم ایل اے کے بیٹے ہیں۔ اگر اس طرح کی ”غلطیوں ” کو بی جے پی ” اتفاقیہ ” سمجھتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان تمام شہروں کا مکمل ڈیٹا ظاہر کرے جہاں ان جیسی ” اتفاقیہ غلطیوں ”کے علاوہ برابری کی سطح پر جانچ کی گئی ہے۔
سیاسی طور پر نظریاتی گروہ نے یہ جانچ کی اور ان کی نظریاتی جڑوں کا آل آسام سٹوڈنٹس یونین جیسی تنظیموں میں ہونا انہیں باقاعدہ طور پر اس تنازع میں ایک پارٹی بناتا ہے۔ نتیجہ ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔ ایک بوگس نظام جس نے ہندوستانی شہریوں کو اپنے وطن میں اجنبی بنا دیا ہے۔ ان میں اکثریت یہ نہیں جانتی کہ اب وہ آئینی طور پر اپنے لئے کیا رستہ اختیار کریں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس معاشی وسائل نہیں ہیں کہ وہ کوئی قانونی معاونت کا اہتمام کرسکیں اور نیشنل رجسٹر سٹیزنز کے مراحل میں قانونی معاونت کے بغیر کوئی مدد ممکن نہیں ہے۔
غیر قانونی تارکین کا معاملہ واقعی ایک پریشان کن حقیقت ہے۔ آسامیوں کو ان کے اپنے وطن میں اقلیت نہیں بنایا جا سکتا۔ تاہم آسام ایک مخلوط ریاست ہے۔ جہاں آسامیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے لیکن وہ واحد اکثریت قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے نسلی گروہ موجود ہیں۔ ملکیت کے طریقہ کار اور دوسری نوعیت کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے لازم نہیں ہے کہ ہندوستانی شہریوں کو ان کی شہریت سے محروم کیا جا ئے۔ کیا غیرقانونی تارکین کے معاملے پہ کچھ کیا کرنا ضروری ہے؟ بالکل۔ لیکن کیا یہ ہندوستانی وفاق کے شہریوں کو لاحق بڑے مسائل مثلاََ سرمایہ کاری، ملازمتیں، معاشی مواقع، عوامی صحت، نفرت میں اضافے، معاشی عدم تفریق میں اضافے اور مرکز اور ریاستوں کے درمیان طاقت کی تقسیم جیسے مسائل سے بھی بڑا مسئلہ ہے تو میں کہوں گا کہ نہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ شوذب عسکری)
فیس بک پر تبصرے