پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے، منچھر جھیل جو کبھی بر اعظم ایشیا میں صاف پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمجھی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے جہاں کبھی کشتیوں پر پندرہ سو خاندان رہائش پزیر تھے اب ان کی تعداد گھٹ کر پچاس سے بھی کم رہ گئی ہے، منچھر جھیل میں پانی کی گرتی ہوئی صورتحال اور آلودگی نے وہاں حیاتیاتی تنوع کو ہی نقصان نہیں بلکہ اس جھیل سے وابستہ سماجی اور ثقافتی دھارے کو بھی الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے،انگریزی جریدے ہیرالڈ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ جامع انداز میں جھیل کی موجودہ صورتحال کو بیان کرتی ہے۔ مدیر
مچھیرے سالہا سال سے مینچھر جھیل کے کنارے رہ رہے ہیں۔ ان کے کیچڑ سے بنے گندے فرش اور چٹخی ہوئی دیواروں والے کچے گھر ملاحظہ کئے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہاں رہتے ہوئے کچھ زیادہ نہیں کمایا۔ جھیل کے کناروں پر کہیں کہیں آباد ان کے چھوٹے چھوٹے دیہات دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے رہائشی لیٹرین اور ٹونٹی کے پانی جیسی سہولیات سے ناواقف ہیں۔ گندہ پانی ان کے آس پاس بہتا رہتا ہے اور کوڑے کے ڈھیر چہار طرف پھیلے ہیں۔
مرد مچھیرے صبح 4 بجے اٹھ کر جھیل میں شکار کے لئے نکل جاتے ہیں اور شام کو 5 بجے لوٹتے ہیں۔ 13 گھنٹوں پر محیط اس محنت طلب کام کا معاوضہ محض چند سو روپے ہے جو کہ انہیں پکڑی گئی مچھلیوں کی تعداد کی مناسبت سے ادا کیا جا تا ہے۔ شکار نہیں تو آمدنی نہیں۔
وہ ان ٹھیکے داروں کے لئے کام کرتے ہیں جنہوں نے حکومت سے جھیل پر مچھلیاں پکڑنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ مچھیرے انہیں جھیل سے مچھلیاں پکڑ کر دیتے ہیں جن میں سے وہ چند مچھلیاں مقامی منڈی میں بیچ دیتے ہیں اور باقی کراچی بھجوا دی جاتی ہیں۔
ملگجے شکنوں والے گندے کپڑوں میں ملبوس ادھیڑ عمر مچھیرا شاہنوازجس کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا بتاتا ہے کہ ’’ بیس سال پہلے تک مچھیرے لوگ اتنی مچھلیاں پکڑ لیتے تھے کہ بہت بہتر گزارہ ہوجاتا تھا۔ مگر اب حال یہ ہے کہ اگر کوئی مچھیرا 250 روپے دیہاڑی کما لے تو وہ بہت خوش نصیب ہو گا۔ ‘‘
سیہون میں موجود ایک شخص نے بھی مچھلیوں کی تعداد میں کمی کی تصدیق کی۔ اس کے مطابق مینچھر جھیل سے روزانہ صرف 200 کلوگرام مچھلی کراچی پہنچائی جارہی ہے۔
بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ اب مچھلیوں کی مختلف اقسام ملنی بند ہوگئی ہیں۔ 1980 کی دہائی میں یہاں سے 200 اقسام کی مچھلیا ں پکڑی جاتی تھیں مگر اب صرف ایک ہی قسم کی مچھلی ملتی ہے۔ ’’ پومفرٹ‘‘
مینچھر جھیل ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جس کا آغاز سیہون شریف کے مغرب میں کچھ کلومیٹرز کے فاصلے سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں بارہویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کا مزار ہے۔ یہ جھیل یہاں سے شمال مغرب میں پھیل کر کیرتھر پہاڑی کے دامن تک جاتی ہے۔
ایک زمانے تک یہ جھیل براعظم ایشیا ء میں صاف تازہ پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ جسے کیرتھر پہاڑی سے آنے والے چشمے اور مشرق میں بہنے والے دریائے سندھ کے تازہ پانی کے ذخیرے سیراب کرتے تھے۔
جھیل میں شامل ہونے والے پانی کے اول الذکر ذریعے کا مکمل انحصار بارش کے پانیوں پرتھا۔ کیرتھر پہاڑی سلسلے پر گذشتہ چند سالوں سے بارشوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے جس کے سبب اس ذریعے سے پانی کی فراہمی کا سلسلہ رک سا گیا ہے۔ اب یہ جھیل محض 60 کلومیٹر کے علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اگر یہ بھری ہوئی ہو تو یہ رقبہ اس کے کل رقبے کا محض ایک چوتھائی ہی ہوگا۔ دریائے سندھ کے بہاؤ میں گزشتہ چند سالوں کیدوران آہستگی آئی ہے جس کے سبب اس کا پانی بھی جھیل تک نہیں پہنچ پاتا۔
جھیل میں دریا کے پانی کے کم بہاؤ کی وجہ سے جھیل میں مچھلیوں کی حیات پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔ایک مچھیرا 1976 کے سیلاب کو یاد کرتا ہے جب دریائے سندھ میں پانی کا ایک بہت بڑا ریلہ بہت سی اقسام کی مچھلیوں کو ساتھ لے آیا تھا۔ اس کی بدولت جھیل میں مختلف اقسام کی مچھلیوں کی افزائش اس قدر زیادہ ہوئی کہ اگلے 20 سالوں تک کسی نے مچھلیوں کی کمی کی شکایت نہیں کی۔
’’ان دنوں کچھ ٹھیکے دار اتنے امیر ہوگئے تھے کہ وہ حقیقت میں پیسوں کو جلا دیا کرتے تھے۔ ایک مشہور مقامی کہاوت کے مطابق ان کے ہاں خوشی کے تہواروں جیسے شادی بیاہ وغیر کو منانے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ روپو ں کو بندوق کی نالی میں ٹھونس دیا کرتے تھے اور پھر فائر کرنے کے لئے ٹریگر دباتے تھے۔ اس طرح کرنسی نوٹو ں کے ٹکڑے ہوا میں بکھر جاتے تھے۔ ‘‘
گوٹھ حاجی خیر دین ملاح، ایک گاؤں ہے جہاں شاہنواز اپنے جیسے دوسرے مچھیروں کے ہمراہ رہتا ہے۔ یہ گاؤں سیہون شریف کے مغرب میں 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک مچھلی منڈی، گھریلو سودا سلف کی دکانیں، ادویات اور دیگر ضروریات کی چیزیں خریدنے کے لئے مارکیٹ یہاں قریب میں ہی واقع ہے۔
وہ جگہ جہاں سے اکثر مچھیرے جھیل میں داخل ہوتے ہیں وہ بھی یہاں قریب ہی واقع ہے۔ سیمنٹ کا ایک ستون یہاں نصب ہے جس کے پاس کچھ سیڑھیاں نیچے پانی میں اتر رہی ہیں۔ یہ ستون جھیل میں پانی ماپنے کا آلہ تھا۔ اس پر لگے نشانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں جھیل میں کبھی کتنا پانی ہوتا ہوگا۔ آج یہ ستون خشک کھڑا ہے۔ پانی کی ایک پتلی سی گزرگاہ جھیل تک جاتی ہے۔ جس میں بمشکل ایک ڈونگا کشتی تیر سکتی ہے۔
جھیل میں کیچڑ خشک ہوجانے پر مربع شکل کی چھوٹی چھوٹی دراڑیں تاحد نگاہ پھیلی ہوئی ہیں، جن کے بیچوں بیچ کہیں کہیں کیچڑ زدہ بدبودار پانی کی نالیاں ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں تک پانی کی یہ نالیاں اس قدر خشک تھیں کہ مچھیرے اپنی ڈونگا کشتیاں چلا کر جھیل تک جا سکیں۔صبح کے وقت انہیں کئی کلومیٹرز تک سفر کرکے اپنے ڈونگوں تک پہنچنا ہوتا تھا اور شام کو اپنے ڈونگے وہیں چھوڑ کر شکار کی ہوئی مچھلیوں کے ساتھ کئی کلومیٹرز تک چل کے واپس آنا پڑتا تھا۔ یہ صورتحال چند ہفتے پہلے ہی تبدیل ہوئی جب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 25 جولائی 2018 کے ہفتے میں الیکشن کے دوران ان آبی گزرگاہوں کو دوبارہ کار آمد بنوایا ہے۔
ایک غیر مکمل تعمیر شدہ عمارت گاؤں کے مغرب سے دور دکھائی دیتی ہے۔ اسے زیرو پوائنٹ کہتے ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لئے ایک نالے پر بنے پل پر سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ اس عمارت کو 2010 کے سیلاب میں کافی نقصان پہنچا تھا۔ بہت سی مشینیں اور اوزار حبس زدہ ہوا میں زنگ آلودہ ہورہے ہیں۔ یہ حکومت کے پراجیکٹ وائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (بی آر او ڈی ) کی نشانیاں ہیں۔
اس کے اہم مقاصد میں سے ایک صوبہ سندھ کے شمال مغربی علاقوں سے کھارے پانی کو جنوب میں سمندر تک پہنچانا تھا۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کیرتھر پہ ہونے والی بارشوں کے پانی کو محفوظ بنا کر مینچھر جھیل اور علاقے مین دوسرے قدرتی پانی کے ذخائر کو کھارے پانی سے بچاتے ہوئے بھر دیا جائے۔
اس پراجیکٹ کی پہلی مدت میں سیہون شریف کے پاس واقع جھیل سے اندازہََ 185 کلومیٹر دور قمبر شہداد کوٹ کے قصبے میرو خان ٹاؤن میں ایک پمپنگ اسٹیشن کو جوڑنا تھا۔ اس کی تعمیر 1994 میں شرع ہوئی اور اس کی مدت تکمیل جون 1998 تھی۔ یہ کبھی بھی مکمل نہ ہوسکی۔ یہ پروجیکٹ ابھی تک ادھورا ہے اور اب اس کے مکمل ہونے کی تاریخ 30 نومبر 2019 مقرر کی گئی ہے۔ اس کا تخمینہ لاگت اس دوران 4 اعشاریہ 395 بلین روپے سے 17 اعشاریہ 505 بلین روپے ہوگیا ہے۔
273 کلومیٹر طویل اس پروجیکٹ دوسرا حصہ سیہون شریف سے آغاز ہونا تھا اور اسے سمندر تک جانا تھا۔ وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کے درمیان اس کی فنڈنگ پہ موجود تنازعے کے سبب اس پر سالہا سال سے کام رکا ہوا ہے۔ آر بی او ڈی کے پہلا فیز تاحال نا مکمل ہے اور دوسرے پہ ابھی کام شروع نہیں ہو ا، اس پروجیکٹ کے ادھورا رہنے کے سبب کھارے پانی کا بہاؤ بڑھ رہا ہے جس میں نمک اور دیگر کیمیکلز شامل ہیں جو کہ جھیل تک پودوں سبزیوں اور انسانوں کے لئے مفید نہیں ہیں۔ وہ لوگ جن کی زندگیوں کا دارومدار جھیل پر ہے انہوں نے عدالتوں میں سمن دائر کر رکھے ہیں، وہ آئے روز ااحتجاج کرتے ہیں، اپنے مقصد کے لئے این جی اوز کی مدد لیتے ہیں اور اپنی دادرسی کے لئے سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں کی منت سماجت کرتے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں محض چند میڈیا رپورٹوں تک محدود رہتی ہیں یا کسی تعلیمی تحقیق ان کے اعدادو شمار شامل ہوتے ہیں یا کوئی ماہر ماحولیات ان پر توجہ دیتا ہے یا سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ا یک کمیشن تشکیل دے اور اس پروجیکٹ پر عمل در آمد جلد کروائے۔
کمیشن کی تجاویز کا جائزہ لینے کے لئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس سال جون کے آخر میں جھیل کا دورہ کیا۔ گوٹھ حاجی خیردین ملاح کے باسی تپتی دھوپ میں قطار بنائے اس انتظار میں کھڑے رہے کہ وہ ان کی شکایات سنیں گے اور فوری طور پر ان کی دادرسی کریں گے۔ مگر چیف جسٹس وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے۔ انہوں جھیل اطراف کناروں کا ایک جائزہ لیا اوربعد ازاں لاڑکانہ شہر میں وکلاء کی جانب سے دیئے گئے عشایئے میں شرکت کے لئے چلے گئے۔
ایک ڈونگا کشتی گوٹھ حاجی خیر دین ملاح سے جھیل کے وسط میں موجود رہائشی کشتیوں تک پہنچنے میں تقریباَََ 15 منٹ لگاتی ہے۔ یہ کشتیاں شیخ برادری کی ہیں جو متمول ہیں۔ ان کے پاس جھیل سے مچھلیاں پکڑنے کا ٹھیکہ ہے۔ مضبوط لکڑی سے بنی ہوئی یہ کشتی جس کے تختے اس کے احاطے کو واضح کرتے ہیں اور ان پر پیچیدہ پھولوں کی نقاشی گھڑی ہے، کی مالیت 20 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ ایک مکمل رہائشی گاہ ہے جس میں مختلف مقاصد کے جگہیں مختص ہیں۔ ایک حصے میں باورچی خانہ ہے، ایک حصہ بچوں کے کھیلنے کی جگہ ہے جبکہ ایک جانب سٹور ہے جہاں کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء رکھی ہیں۔ البتہ اس کشتی گھر میں کوئی کمرہ یا دروازے نہیں ہیں۔ سبھی لوگ کھلی جگہ پہ سوتے ہیں۔
کشتیوں پر رہنے والوں کی زندگی گوٹھ کی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لڑکے سکول پڑھنے کے لئے سیہون جاتے ہیں۔لڑکیاں عام طور پر گھر پہ رہتی ہیں جہاں وہ اپنی ماؤں کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ صوبائی حکومت نے ہر کشتی میں بجلی مہیا کرنے کے لئے شمسی توانائی کے پینل دیئے ہیں جس کی وجہ سے دو بلب، ایک پنکھا اور بعض صورتوں میں ٹیلی ویڑن چلتا ہے جس میں سگنلز کے لئے انہوں نے ڈش انٹینا نصب کئے ہیں۔ بہت سے خاندانوں نیسائبریا سے نقل مکانی کرکے آئے ہوئے پرندوں کو پالتو بنالیا ہے۔ لکڑی کے تختے پر جو جھیل میں تیرتا رہتا ہے، بیٹھے ہوئے یہ پرندے کشتی سے بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔
عطا محمد ان کشتی گھروں میں سے ایک پر اپنے دور پرے کے رشتہ داروں کے ساتھ رہتا ہے۔ سفید کلف لگی شلوار قمیض اور سیاہ بالوں کے ساتھ جنہیں سر کے پیچھے کی جانب آراستہ کیا گیا ہے وہ کسی طاقتور شخص کا شائبہ دیتا ہے۔
کشتی گھروں کے رہائشی جھیل کا پانی تمام مقاصد جیسا کہ کھانا بنا نے، کپڑے و برتن دھونے اور نہانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ پینے کے کا پانی پلاسٹک کے برتنوں میں گوٹھ سے بھرتے ہیں، جھیل کنارے حکومت نے سال 2010 کے سیلاب کے بعد پینے کے صاف پانی کے لئے پلانٹس لگائے ہیں ان میں سے ایک گوٹھ حاجی خیر دین ملاح میں بھی نصب ہے۔ جب کبھی اس میں پانی ختم ہوتا ہے تو وہ جھیل سے پانی لے کر بھی پی لیتے ہیں۔
محمد کی رخسانہ سے شادی 1986 میں ہوئی تھی جب جھیل کا پانی چمکتا تھا اور وہ مچھلیوں سے بھری ہوئی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ اس زمانے میں وہ 5000 روپے روزانہ تک کماتا تھا۔ اب پانی کا رنگ گدلا ہے اور اس میں کھارا نمک شامل ہے جو کشتیو ں کے لئے نقصان دہ ہے اور اس میں زہریلا کیمیکل ہے جوکہ مچھلیوں کی پرورش نہیں ہونے دیتا۔
جس لمحے رخسانہ باورچی خانے میں کھانا تیار کررہی تھی محمد نے بتایا کہ کس طرح اس مسئلے کے سبب اس جیسے سینکڑوں خاندانوں کو جھیل سے باہر منتقل ہونا پڑا ہے۔ 14 سال پہلے تک، وہ بتاتا ہے کہ جھیل پر 2 ہزار کشتی گھر موجود تھے۔ اب بمشکل 50 رہ گئے ہیں۔ وہ افسردہ لہجے میں بولتا ہے۔
’’ایک روز یہ سب بھی چلے جائیں گے۔‘‘
مچھیروں کے پاس نقل مکانی کے وسائل نہیں ہیں۔ لہذا وہ یہیں رہیں گے۔ جب تک مینچھر جھیل میں پانی موجود ہے۔ جب تک اس جھیل میں مچھلیاں موجود ہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جھیل کا پانی خشک ہورہا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہوئے پانی میں مچھلیاں زہریلے کیمیکل پہ پل رہی ہیں۔
بشکریہ ہیرالڈ
مترجم : شوذب عسکری
فیس بک پر تبصرے