عالمی آرٹ کی قدریں اور تحریکیں

آرٹ گیلری کی دیواروں سے

974

فلسفہ ،ادب ، آرٹ اور نظریہ سازی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔کسی ایک شعبے میں اٹھنے والی نئی تحریک یا رجحان باقی شعبوں کو بھی متاثر کرتا ہے ۔آرٹ ، مذہب ، فلسفے اور سماج سے اثرات قبول کرتا ہے اور اس کے اظہار کی تحریکیں ادب ، فلسفے، سیاسی اور ثقافتی رجحانات کو متاثر کرتی ہیں ۔پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم یوں تو دنیا میں بہت تباہی لائیں مگر اس عرصے میں دنیا میں آرٹ کی کئی تحریکیں اٹھیں ۔ہر تحریک کا اپنا اسلوب اور پس منظر ہے ۔روایت اور جدت کے میدان میں نئی نئی تخلیقات ہوئیں ۔ِآرٹ گیلری کی دیواریں ان رجحانات کی آئینہ دار ہیں ۔دنیا بھر کی آرٹ گیلریاں آرٹ کے نمونوں کے علاوہ شائقین کو مختلف تحریکوں سے بھی روشناس کرواتی ہیں ۔ذیل میں مختلف تحریکوں کا تعارف میٹرو پولیٹن میوزیم آف آرٹ ،واشنگٹن اور میوزیم آف ماڈرن آرٹ نیویارک کی دیواروں سے لیا گیا ہے ۔مدیر

ڈاڈاکے بعد Dada and Beyond) (

جنگ عظیم اوّل سے چند سال پہلے تجریدیت کا ظہور ہوا ،اسی جنگ نے داداازم کی تحریک کو جنم دیا۔یہ نام زیورخ کی ایک ڈکشنری سے لیا گیا جس کے معنی لکڑی کا جھولا جھلانے والا گھوڑا ہے جبکہ رومانیہ اور روسی میں اس کا مطلب ’’ہاں ہاں ‘‘ ہے ۔Jean Arpاس کے بانی تھے جلد ہی فرانسیسی آرٹسٹ بھی ا س تحریک کے زیر اثر آ گئے ۔سیاسی اتھل پتھل ،جنگ اور تصادم کے ماحول میں ڈاڈا ازم کی تحریک نے ایک مزاحمتی کردار ادا کیا اور آرٹ کے ذریعے ہر مقدس گائے کو چیلنج کیااور جارحانہ انداز میں اپنا اظہار کیا ۔ اس کے اثرات اس کے بعدآنے والی لاشعوریت کی تحریک میں بھی نمایا ں نظر آتا ہے ۔Christosنے 1961میں اپنے ایک فن پارے میں جو اس کے ابتدائی فن پاروں میں سے ہے میں ایک سلائی مشین آرمی کے کمبل میں لپٹی ہوئی دکھائی ہے۔Robert Cornell اورDuchampنے کہا تھا کہ وہ سب کچھ آرٹ ہوتا ہے جوکسی فنکار کے ہاتھوں سے وجود پاتا ہے ۔یہی خیال ڈاڈا ازم ہے جس نے آگے چل کر معاصر آرٹ پر گہرا اثر ڈالا۔

لاشعوریت
یہ بیسویں صدی کی ایک ادبی تحریک تھی جس کا معنی بر حقیقت یا ماورائے حقیقت کے ہیں ۔ا س کا آغاز 1924ء میں ہوا جب اس کا پہلا منشور لکھا گیا ۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہی تحریک 1968کی بغاوت کی وجہ بنی ۔لیکن اس کے اثرات کہیں زیادہ ہیں .Hieronymus Bosch جو کہ ایک ڈچ مصور تھا اس نے اندوہناک مناظر سے بھر پور پینٹنگز بنائیں ۔اسی طرح اٹالین مصور Leonardo da Vinci نے داغوں سے بھرپور دیواروں کی طرف مصوروں کی توجہ مبذول کروائی ۔
لاشعور سے متعلق فرائڈ کے نظریات یا پھر مارکس کے انقلاب آفرین خیالات کے پس منظر میں اس تحریک نے دادائی تحریک جیسا کہ Marcel Duchamp کی طرح آرٹ کو دوبارہ زندہ کیا اور بہت کامیاب رہی اور جنگ زدہ ماحول میں اس نے میڈیا کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔مصوری میں اس نے دو صورتیں اختیار کیں ۔ Rene Magritte ,KaySageاورYves Tanguyنے روایتی ٹیکنیکس اختیار کیں اور اپنے خیالات کواشتباہ کی جانب موڑ دیا ۔جبکہ دوسرے مثلاًMax Ernstنے فکر وخیال کے نئے ا طوار متعارف کروائے ۔Alberto Giacomettiکے ابتدائی مجسموں سے لگتا ہے کہ لاشعوریت کی یہ تحریک افریقی ثقافت سے مستعار لی گئی جس نے بعد ازاں یورپی روایات پر کافی اثر ڈالا ۔
لاشعوریت کو اس وقت ایک نئی زندگی ملتی ہے جب بھی کوئی مصور (شاعر اور ا س کے بانی Andre Bretonکے بقول )پہلے سے مروجہ تضادات کو ختم کرنے کا خواب دیکھ کر اسے بدل دیتا ہے ۔

تجریدیت کا آغاز
جدید مصوری کی سب سے اچھوتی شکل تجریدی ہے ،اس میں ایسی تصویریں بنائی جاتی ہیں جو حقیقی دنیا میں نظر نہیں آتیں بلکہ وہ صرف خیالی تصویریں ہوتی ہیں ۔نیویارک میوزیم میں جو تصویریں آویزاں کی گئی ہیں یہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ہیں جن میں وہ تصویر یں بھی شامل ہیں جو تجریدی مصوروں کی جانب سے اس آرٹ کی پہلی کاوش قرار دی جا سکتی ہیں ۔انہیں اس کام سے روکا گیا مگر انہوں نے یہ کام جاری رکھا ۔
تجریدیت جوش اور اضطراب دونوں کا اظہار ہے ۔’’کیسے کسی چیز کی ہیئت بدل دی جائے ‘‘ Kandinskyکو یہ خیال1913ء میں پریشان کرتا رہا ۔اسی سال انہوں نے Improvisation 31 (Sea Battle)1913 میں روایتی فوجی موضوع کو ایک نیا آہنگ دیا ۔اس سے مصوروں کو نئے اسلوب ملے وہی اسلوب جو پہلے میوزک ،جیومیٹری کی منطق ،جذبات اور روح کی طاقتیں یہ سب تجریدی آرٹ میں ایسے سامنے آئیں جیسے کسی چیز کا ایکسرے ہو یا آئین سٹائن کا نظریہ اضافیت ہو ۔تجریدی مصوری میں ایک ایسا آزاد منش آرٹ تخلیق کیا جاتا ہے جس کے اپنے ضابطے ہیں ۔یا جو کسی اصل شے کا عکس نہ ہو ۔یہ آرٹ کہاں سے آیا اس پراسی طرح بحثیں ہوئی جیسے پہلی جنگِ عظیم کے محرکات پر ہوئیں ہیں تاہم اس کے پیچھے عالمی محرکات ضرور تھے دنیا کے کئی ممالک کے مصور یہ سوچتے تھے کہ وہ کیسے ایک ایسے آرٹ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جس میں کسی قسم کا امتیاز نہ ہو مختلف ثقافتوں کی اپنی اپنی اشکال نہ ہوں ۔نیوایرک میوزیم میں موجود Piet Mondrian اورConstantin Brancusiکے مصوری کے نمونے اسی پیرائے میں ہیں جنہیں اس صدی کے شاہکار کہا جا سکتا ہے ۔

خالصیت ؟(Purity)
Brancisi, Leger, Mondrian
پیٹ مانڈرینPiet Mondrian کے بقول ’’نقاشی اپنے اظہار کے منطقی نتائج کو تسلیم نہیں کرتی ۔یہ اپنے اہداف کے لئے کسی تجریدیت کا سہارا بھی نہیں لیتی ۔بلکہ اس کااظہار خالص کی حقیقت پر کھڑا ہے ‘‘۔
جب دادائیت اور لاشعوریت پر مبنی تحریکوں کا 1920ء میں خاصا چرچا تھا تو اس وقت کچھ لوگ تجریدیت کی طرف مائل تھے ۔اس دوران ہالینڈ کے باسی مانڈرین نے ایک نیا رجحان متعارف کروایا جسے Purismکہا جاتا ہے ۔
خالصیت کی تحریک کلاسیکیت کی طرف چلی گئی جس نے انسانی اعضا کی خوبصورتی کو اجاگر کیا۔خالصیت کی یہ مقبولیت 1920ء میں منظرِ عام پر آنے والے کام میں نظر آتی ہے مثال کے طور پر اصطفائی روح پکاسو اور Miro کا’’ گٹار‘‘ اور’’سر‘‘ جنہوں نے مصوری کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔خالصیت کے ان اصناف میں نظر آنے والا کام اپنی جگہ ایک بڑا کام ضرور ہے جو بالآخر اس تحریک کے پیچھے سماجی طاقتوں اور افراد کو واضح کرتی ہے ۔خالصیت کے اثرات اس دور میں سماجی علوم کی نظری بحثوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔
جنگ کے بعد کا یورپ
Jean Fautrier نے کہا تھا ’’فن پارہ ایک ایسی چیز ہے جو اپنے آپ کو مسخر کرتا ہے تاکہ وہ اپنی تسخیر کر کے کچھ نیا تخلیق کر سکے ‘‘۔یہ شاید آدھا سچ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیویارک نے جدید مصوری کا تصور پیرس سے چرایا تھا ۔مرکز کے بدلنے سے جو چیز نئی بنی وہ تجریدی اظہار کی صورت میں سامنے آئی ۔جو نئے مقام پر آکر سب سے اہم بن گئی اور سب کی توجہ کا مرکز قرار پائی ۔لیکن 1940ء کی دہائی کے آخر ی سالوں اور1950ء کا سال اس کے لئے بہت زرخیز ثابت ہوئے لیکن اگر یہ دور مسائل لایا تو وہ صرف یورپ کے لئے تھے ۔
امریکی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ اپنی ہمت کے بل بوتے پر کیا ہے انہوں نے نئی مہارتیں اور میدان تلاش کئے ۔جبکہ یورپی جنہوں نے اپنی سرزمین پر خوفناک جنگ کا سامنا کیا تھاانہیں اپنی حیات نو کے لئے جدوجہد کرنی پڑی Jean Fautrierجو پیرس کے مضافات میں واقع اپنے سٹوڈیو کی کھڑکی سے ان جنگی قیدیوں کی چیخ و پکار سنتے تھے جنہیں نازیوں نے پکڑ رکھا تھا ۔انہوں نے پلاسٹک کے اوپر رنگ چھڑکے تاکہ وہ ایسا تجریدی آرٹ بنا سکیں جس سے اس تشدد کا اظہار کیا جا سکے جس سے جسم اور روح افتراق کا شکار ہو کر رہ گئے تھے ۔ Jean Dubuffetجو 1940ء میں اپنے فنِ نقاشی کے ابتدائی سالوں میں تھے انہوں نے اپنے فن کے ذریعے ان قیدیوں اور ذہنی طور پر معذور لوگوں کے مسائل کو اجاگر کیا جو برطانیہ میں انہیں دکھائی دیتے تھے ۔ Francis Baconنے برطانیہ میں ایسے لوگوں پر کام کیا جو بیگانگی کا شکار تھے ۔نیویارک میں Max Beckmann جنہیں نازیوں نے غیر متمدن فنکار قرار دے رکھا تھا ان کے فن پارے میراث کا شاہکار تھے ۔ اس تحریک کا واضح اظہار وہ مجسمے تھے جنہیں Alberto Giacomettiنے بنایا تھاانہوں نے مٹی سے وہ بت تراشے جو لازوال ہو گئے ۔
تجریدی اظہار
1945ء کے بعد 1950ء تک نیویارک کے مصوروں کو اپنے کام کے بدولت نئی طاقت ،اعتماداور معیار ملا ۔جب دوسری جنگ عظیم کے کرب کا شکار مصور بھی تھے تو Barnett Newman نے کہاتھا کہ ’’ہم خاک مصوری کریں ‘‘۔مگر یہ امریکہ تھا جہاں سے اس کا جواب آیاکیونکہ تب یورپ جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار تھا جبکہ امریکہ پہلے سے بھی مضبوط ہو چکا تھا ۔یہ اپنی جگہ اہم تھا کہ یورپی مہاجرین جنگ سے پہلے اور بعد میں بڑی تعداد میں امریکہ آ رہے تھے جن میں مصور Max Ernst, Fermand Leger, Piet Monrian,اور لکھاری اور لاشعوریت کی تحریک کے اہم رہنما Andre Breton بھی تھے ۔ان سب کی موجودگی کی وجہ سے امریکہ کی نئی نسل کو آرٹ کے شاہکار دیکھنے کو مل رہے تھے ۔جن میں لاشعوریت سب سے اہم تھی جن کے نمومنے یہاں نیویارک میوزیم میں موجود ہیں ۔
یہ 1950ء کا ایک بڑا منظرنامہ تھا جس میں Jackson Pollockجیسے مصور تھے جن کے بارے میں محقق کہہ رہے تھے کہ یہ امریکی مصوری کے کامیاب ترین لوگ ہیں جن سے ہرکوئی واقف تھا۔پتھروں سے بنی ہوئی مگر جذبات سے بھرپور مصوری کے ان نمونوں نے ایسے معیار اپنائے جو نئی مہارتوں کے آئینہ دار تھے ۔
مجموعہ ہائے فن Bodies of Work
شکلوں کے ذریعے اظہار کا سہرا ایک ہی فنکار کے سر جاتا ہے جو لکھاری بھی تھا اور کمپوزر بھی ،اس طرح یہ نام بھی کسی فنکار کے جسم سے نکلا ہوا ہے جو پچھلے پچاس سالوں میں پھیلا ۔جس میں انسان کسی قوتِ متخیلہ ،خوف یا مشقت میں نظر آتا ہے جیسا کہ نیویارک میوزیم میں موجود گیلریوں میں فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں ۔تنقید نگار Britt Julious کے بقول ’’آرٹ تاویلوں کی مزدوری ہے ‘‘۔ یہاں موجود پینٹنگز اور سنگ تراشی کے نمونے معاصر مصوروں کے مختلف انداز کو ظاہر کرتے ہیں ۔جن میں تاریخ اور مختلف تاریخی ادوار کا بھی پتہ چلتا ہے۔Bob Thompson,Los Caprichos, Goyaنے اپنے فن پاروں میں یہی فن پیش کیا ہے۔اسی طرح Marshall نے ایک بحری جہاز میں دو کالوں کودکھایا ہے یہ امریکہ میں میں غلاموں کا آنے والا آخری جہاز تھا ۔اس طرح یہ آرٹ انسان کے مختلف ادوار کا بھی آئینہ دار ہے ۔
جرمن اظہاریت
جرمنی 1900ء میں تضادات کا شکار تھا جدت تیزی سے فروغ پا رہی تھی مگر اس کی اقدار اقدامت پسندانہ تھیں ۔اس سے جرمن مصوروں کو اپنے فن کے اظہار کا بڑا وسیع میدان ملا کہ وہ اس وقت روحانی اور جذباتیت کو بے اثر کر سکیں ۔اس دوران دو بڑی تحریکیں اٹھیں ۔Die Bruckeکی The Bridgeکا آغاز 1905میں Dresdenمیں ہوااورDer Blaue Reiterکی The Blue Rider 1911 میں میونخ میں شروع ہوئی ۔Brucke کے فن پارے نیویارک میوزیم میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ Erich Heckel , Emil Nolde , Max Pechsten, Otto Mullerکے فن پارے بھی رکھے گئے ہیں ۔ایک فن پارہ ایسا ہے جو اس تحریک کا بھر پور اظہار ہے ۔1910ء میں دو لڑکیاں ایک چھتری تلے کھڑی ہیں۔وہ ایک پوری تہذیب کا آئینہ ہیں ۔

مکعبیت Cubism
یہ بیسویں صدی میں ویژول آرٹ کی انتہائی مؤثر تحریک تھی ۔مگر اس کے آغا زکے بارے میں کوئی مصدقہ رائے دستیاب نہیں ۔لیکن 1908ء میں جنوبی فرانس میں Georges Braqueہی تھا جب اس نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اس میں کمال کیا ۔Paul Cezanneجن کادو سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔Picasso اورBraqueنے جب اکھٹے کام کیا تو Cezanneان کی مشترکہ پسند تھی ۔
یہاں ایک لمبی دیوار پر اس تحریک کے شاندار نمونے آویزاں ہیں ۔جن میں گٹار اور کافی کا کپ بھی ہے جن کے ساتھ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جس سے کئی سوال اٹھتے ہیں ۔
(تلخیص و ترجمہ : سجاد اظہر)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...