بالآخر ہجرت کو تم سے لپٹنا ہی تھا
ابھی چند روز پہلےہی تو فرزانہ ناز کا پہلا شعری مجموعہ ‘‘ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے ’’آیا تھا اور مقتدرہ قومی زبان میں اس کی کتاب کی تقریب رونمائی 28 اپریل کو ہو رہی تھی
میں فرزانہ ناز کو جانتا تو نہیں تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔وہ شاعرہ تھیں ،نوجوان تھیں اور اپنی طرح پھول جیسے دو بچوں کی ماں ،جو نجانے اب ماممتاکی تلا ش میں کہاں کہاں بھٹکتے پھریں گے ۔بھلوال سرگودھا سے اس کا تعلق تھا ۔جاگیردارانہ سماج میں اگر کوئی لڑکی پڑھ لکھ جائے اور وہ شاعری بھی کرتی ہو ،ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہو تو یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے ۔لیکن اس طرح وہ غیر معمولی موت کا شکار ہو جائے گی یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن نے کتابوں کا تین روزہ میلہ سجایا تو شہر میں ادیبوں کے تصویری بینر آویزاں کئے گئے ۔پاکستان اور پاکستان سے باہر اُردو دانوں کے لئے خیر مقدمی بینرز لگے ہوئے دیکھے تو دل شاد ہوا کہ چلو اس ملک میں پڑھنے لکھنے والوں کی قدر کا بھی کسی کو خیال آیا ۔اسلام آباد کی بڑی شاہراہیں ایسے بینروں سے سجی ہوئی تھیں ۔ان میں یقیناً بڑی تعداد ان پی آر والوں کی تھی جن کی ادبی حیثیت توکسی کو معلوم نہ ہو مگر ان کو کوئی ادارہ نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ اس ماحول میں ایک نو آموز شاعرہ نے بھی کئی خواب دیکھے ہوں گے ۔وہ بھی اپنے بچوں کو بتاتی ہو گی کہ ایک روز آپ کی ماں کی تصویر بھی ان شاہراہوں پر لگے گی ،آپ اپنی ماں پر فخر کر سکیں گے ۔کیونکہ ابھی چند روز پہلےہی تو فرزانہ ناز کا پہلا شعری مجموعہ ‘‘ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے ’’آیا تھا اور مقتدرہ قومی زبان میں اس کی کتاب کی تقریب رونمائی 28 اپریل کو ہو رہی تھی ۔اسی موقع کی مناسبت سے وہ ایک ہفتہ قبل آکسفورڈ کے میلے میں بھی پیش پیش رہی ہر سیشن میں شریک ہوئی ، ملک بھر سے آنے والے شاعروں اور صحافیوں کو کتابیں پیش کیں، ان کے ساتھ اپنی تصویریں بنوائیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ۔ اس ہفتے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے میلے میں بھی اسی طرح متحرک تھیں مگر یہ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا ۔ جب فیس بک پر چند دوستوں نے ان کی وفات کی خبر شیئر کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ یہ جوان سال شاعرہ اچانک کیسے انتقال کر گئیں ؟میں ان کی ٹائم لائن پر گیا تو کل تک کی تمام سرگرمیاں ان کی وال پر موجود تھیں ۔چند روز قبل ان کی کتاب ‘‘ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے ’’آئی ۔ آکسفورڈ کے کتاب میلے کے ساتھ ساتھ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کتاب میلے میں بھی یہ کتاب انہوں نے کئی نامور شخصیات کو پیش کی ۔ معلوم ہوا ہے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کتابی میلے کی اختتامی تقریب میں یہ سٹیج پر گئیں ،وہ اپنی کتاب سٹیج پر موجوداحسن اقبال ، عطا الحق قاسمی ، عرفان صدیقی یا انعام الحق جاوید میں سے کسی کو پیش کرنا چاہتی تھیں ، لیکن سٹیج پر اچانک رش ہو گیا انہیں کسی کا دھکا لگا اور وہ سٹیج سے نیچے گر گئیں ۔ریڑھ کی ہڈی اور سر میں لگنے والی چوٹ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی ۔اگر یہ واقعہ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا لیکن یہاں کسی کو کسی سے اور بھی ایک عام شاعرہ سے کیا غرض ہے ۔میڈیا تنقید کرے بھی تو کس پر! عرفان صدیقی پر جو وزیر اعظم کے مشیر خاص ہیں ، میڈیا کی خبر ایک فون پر رکوانے کی طاقت رکھتے ہیں ، عطا الحق قاسمی پر جو پی ٹی وی کے چیئرمین ہیں ،انعام الحق جاوید پر جنہوں نے میلے کی مد میں میڈیا کو کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کئے یا پھر ‘‘گیم چینجر’’والے وفاقی وزیر احسن اقبال پر ، میڈیا اس واقعہ پر کسی پر بھی تو تنقید نہیں کر سکتا ۔نیشنل بک فاؤنڈیشن پر بھی تنقید نہیں ہو سکتی جس کے منتظمین کی بد انتظامی کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا ۔ اس عمارت کا انتظام چلانے والے سی ڈی اے پر بھی تنقید نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے سربراہ کوئی بیو رو کریٹ نہیں بلکہ منتخب میئر ہیں اور وہ بھی ایسے میئر جنہیں اس ادارے میں براہ راست لانے والے وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔رہا سوال شاعروں کی کمیونٹی کا تووہ بچارے اتنے ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ جمہوری دور میں بھی وہی استعارات استعمال کر رہے ہیں جو ضیا کے مارشل لا میں استعمال کیا کرتے تھے ۔جن کا تخلیقی سفر جامد ہو چکا ہے ، جو لوگ خود کھل کر نہیں لکھ سکتے وہ کسی دوسرے کی ناگہانی موت پر کیوں شور مچائیں گے ۔
پاک چائنا سینٹر جس کے مرکزی آڈیٹوریم میں یہ حادثہ پیش آیا وہاں مین سٹیج اور ہال کے درمیان سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ایک کھائی نما گہری جگہ ہے تاکہ سٹیج پر براجمان وی آئی پیز کو محفوظ رکھا جا سکے لیکن ہو ایوں کہ جیسے ہی تقریب ختم ہوئی کچھ لوگ اور میڈیا کے نمائندوں نے سٹیج پر چڑھنے کی کوشش کی اسی کوشش میں فرزانہ ناز بھی گر گئیں ۔ہمارے دوست اور میلے کے کرتا دھرتا محبوب ظفر کہتے ہیں کہ اس کی موت کی ذمہ دار میلے کی انتظامیہ نہیں بلکہ سی ڈی اے ہے کیونکہ بلڈنگ کے ڈھانچے میں خرابی ہے ۔حالانکہ بلڈنگ تو حفاظتی نقطہ نظر کے مطابق بنائی گئی تاکہ لوگ سٹیج پر نہ چڑھیں لیکن ا س کے باوجود اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار تو پھر میلے کی انتظامیہ ہی ہو سکتی ہے ۔
اس میلے کے محرک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر اور نامور مزاحیہ شاعر انعام الحق جاوید ہیں ۔ان کی شاعرانہ حیثیت پر تو کوئی اعتراض نہیں مگر فرزانہ ناز کی ناگہانی موت نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کا پول کھول دیا ہے ۔الخیر یونیورسٹی سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور پھر وہاں سے اپنے ‘‘یارانوں ’’کے بل بوتے پر نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہی تک ان کی ترقی ان کی ‘‘مخفی صلاحیتوں’’ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وہ پی آر کے بادشاہ ہیں اور ا س کی جھلک نیشنل بک فاؤنڈیشن میلے کے شرکا سے ہو جاتی ہے ۔اس میں ادیبوں سے زیادہ ان کے ذاتی دوستوں ، قدردانوں اور صحافیوں کی تصویریں آویزاں کی گئیں ۔میں اس میلے کے اختتامی لمحات میں گیا جب یہ حادثہ ہو چکا تھا ۔فرزانہ ناز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر ہسپتال پہنچ چکی تھیں ۔مجھے کسی نے اس اندوہناک واقعہ کے بارے میں تو نہیں بتایا لیکن جیسے ہی میں پاک چائنا سینٹر میں داخل ہوا انعام الحق جاوید شاعروں اور شاعرات کے ساتھ سلفیوں میں مصروف تھے وہ میلے کی کامیابی پر دادو تحسین سمیٹ رہے تھے ۔ہال کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے ہیوسٹن امریکہ سے آئے ہوئے شاعر ڈاکٹر آصف قدیر نظر آئے جو طویل عرصہ سے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی امریکہ میں میزبانی کرتے آئے ہیں اب جب انعام الحق جاوید کے پاس اختیار آیا ہے تو لازم ہے کہ وہ سرکاری خرچ پر اپنے احسانوں کا بدلہ چکائیں ۔اس میلے میں شریک ایسے کئی اور نام بھی گنوائے جا سکتے ہیں ۔اس میلے میں کتابوں کا پہلا سٹال ایک مذہبی اشاعتی ادارے کو دیا گیا تھا ۔ جوصرف مخصوص مکتب ِ فکر کی کتابیں ہی چھاپتا ہے ۔خالصتاً ایک ادبی میلے میں کسی مذہبی ادارے کو سٹال دینے کا کیا جواز تھا؟ اگر سرکاری ادبی میلوں پر بھی فرقہ وارانہ لٹریچر ہی بکنا ہے تو پھر نیشنل ایکشن پلان کہاں پر کھڑا ہے؟ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات پر بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر فرزانہ ناز کی اچانک موت نے اتنا دکھی کر دیاکہ اور کچھ لکھ سکا ۔میں فرزانہ ناز کو تو نہیں جانتا لیکن اس کی موت کے ذمہ داروں کو بخوبی جانتا ہوں ۔لیکن ا س معاشرے میں میری اور فرزانہ ناز جیسی گواہیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔وہ معاشرہ جو ہر حادثے کو تقدیر سمجھتا ہو وہاں صرف ‘‘صبر ’’ کی روایت ہوتی ہے ‘‘مزاحمت ’’کی نہیں ۔جو مزاحمت کرتے ہیں انہیں یا یہ ملک چھوڑنا پڑتا ہے یا یہ دنیا ۔اس لئے فرزانہ ناز اللہ تمہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کیونکہ تم جیسے لوگ اس دنیا کی جہنم کے لئے نہیں ہوتے ! بالاخر ہجرت کو تم سے لپٹنا ہی تھا !
فیس بک پر تبصرے