1950کی دہائی میں جب مختلف مسلمان ممالک سے ہزاروں افرادنے معاش کی تلاش میں مغربی ممالک کا رخ کیا تو ان کا خیال یہ تھا کہ وہ مغرب میں کچھ عرصہ قیام کے بعد وطن واپس چلے جائیں گے اور یہاں سے جمع کی گئی رقم سے اپنے اہل خانہ کی کفالت کریں گے، مگر وہ واپس نہ جاسکے اور مغرب کے ہی ہوکررہ گئے۔بعد میں انہی مسلمان مردوں کے اہل خانہ نے مغرب کا رخ کیا تو انہیں دینی تعلیم، اسلام کی ثقافتی اقدار کی منتقلی و ترویج اور اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسلام کے عائلی نظام، اسلامی اسکولوں اور مدارس میں مسلم بچوں کی تعلیم، اسکولوں، ہسپتالوں اور جیلوں میں حلال کھانے کا انتظام اور مسلمانوں کی تدفین کے انتظام جیسے سماجی معاملات اور مسائل بھی پیدا ہوئے۔
اہل مغرب میں اسلام کے بارے میں لاعلمی کی وجہ سے پہلے ہی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں جس کے باعث اسلام کا حقیقی پیغام اور اس کی اقدار یورپ کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوگئے۔مسلم معاشرے لسانی، قومی اور فرقہ وارانہ یا مسلکی بنیادوں پر منتشر، منقسم اور ایک دوسرے سے دْور ہیں۔ مسلم ممالک میں جو مسلکی اور نظریاتی اختلافات ہیں، وہی اختلافات مغرب میں مقیم مسلمانوں میں بھی اب پائے جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں غیر مسلموں کے لیے یہ تحقیق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارا تعلق اسلام کی کس شاخ یا فرقے سے ہے اور وہ عمومی طور پر اسلام مخالف پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
9/11 کے افسوس ناک واقعے کے بعد دہشت گردی کے جو دیگر واقعات 7جولائی2005 کو لندن میں اور پھر میڈرڈ، اسپین اور دیگر مقامات پر رونما ہوئے، ان کے باعث یورپ اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے تحفظ اور مسلمانوں کے متعلق خدشات اور مسائل پیدا ہوئے۔ بہت سے اداروں کے مختلف اعدادوشمار آئے روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جن کے مطابق مغرب کے اکثر لوگ اسلام کو انتہاپسندی، دہشت گردی اور خواتین پر ظلم کرنے والوں کا مذہب سمجھتے ہیں۔ مسلم خواتین کے حجاب اور نقاب کے استعمال کے حوالے سے بھی بڑا تنازع کھڑا ہوا اور اس کے نتیجے میں فرانس میں حجاب پر پابندی لگی۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے مسجد کے لیے میناروں والی عمارت کو ممنوع قرار دیا۔
اس وقت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مغرب کے مذہبی، سماجی اور سیاسی منظر کا ایک حصہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں بڑی حد تک لاعلمی پائی جاتی ہے۔ مغربی باشندوں کو مذاہب کے بارے میں سرسری علم ہوتا ہے اور اسی کی روشنی میں وہ نہ صرف اسلام کے بارے میں اپنی ایک منفی رائے قائم کر لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات جارحانہ رویہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مغربی میڈیا میں ایک مخصوص طبقے نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور اس منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر مغرب میں بہت سے لوگ اسلام کوبنیاد پرستی،انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ہم معنیٰ سمجھنے لگے ہیں۔ یقیناًایسے افراد اور ادارے بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام کا معروضی مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثریت کی رائے کا دار و مدار متعصب مبلغوں، سیاست دانوں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پروگراموں پر مبنی ہوتی ہے۔
یہی وہ مسائل ہیں جن کا ادراک شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی نے امریکہ و یورپ کے مختلف اسفار کے دوران کیا اور ان مسائل کو اپنے خطبات و نگارشات کا موضوع بنایا۔ مولانا راشدی کا شمار گنتی کے ان اہل علم میں ہوتا ہے جو روایتی مکتب فکر کے ترجمان ونمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاصر موضوعات اور جدید مسائل وسوالات کو اپنی علمی وفکری دنیا میں پوری اہمیت دیتے ہیں۔مولانا زاہد الراشدی نے اپنی نئی تصنیف ’’دیار مغرب کے مسلمان:مسائل ،ذمہ داریاں اور لائحہ عمل‘‘میں ان سوالات ومسائل کا احاطہ کیا ہے جن کا مسلمان اقلیتوں کو غیر مسلم اکثریتی معاشروں میں آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے۔مولانا زاہد الراشدی کا اسلوب تحریر اتنا سادہ اور دلنشین ہے کہ قاری انکی تحریر کو پڑھتے ہوئے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار رہتا ہے اور کہیں بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے نمٹنے کے لیے عقلی اور ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہوں۔ مصنف کے نزدیک اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑا چیلنج دین اور تہذیب کے درمیان فرق کو سمجھنا بھی ہے۔ مصنف کے نزدیک دین ومذہب کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے جبکہ کلچر علاقائی تعلقات،ضروریات اور باہمی مفادات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور اس میں علاقائی ماحول، آب وہوا اور موسمی صورت حال کا بھی دخل ہوتا ہے۔یہ فرق اگر ملحوظ خاطر رہے تو مغربی تہذیب کے چیلنج سے نمٹنا بہت آسان ہوجائے۔ اس فرق کو سمجھانے کے لیے مصنف نے بہت ساری مثالوں کو بیان کیا ہے۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو غیرمعمولی صبر، حکمت اور دْوراندیشی کی ضرورت ہے۔ مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ جس معاشرے میں مقیم ہیں، اس میں اپنا ایسا مقام بنائیں جس کی مدد سے وہ اپنے متعلق غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کرسکیں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان کے حل کے لیے بھی انہیں کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ اب وہ بھی اسی معاشرے کا جزو ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنی کتاب میں دیگر اپنے ہم عصر اہل علم کو بھی اس جانب متوجہ کیا ہے کہ وہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو درپیش مسائل ومشکلات کا خالصتاً علمی اور تہذیبی بنیادوں پر جائزہ لیں۔ قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ان کا حل تلاش کریں اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی علمی وفکری رہنمائی کریں۔
Prev Post
سہ ماہی استعارہ پر ایک نظر
Next Post
فیس بک پر تبصرے