سہ ماہی جریدہ استعارہ لاہور سے شائع ہونے والا ایک معروف علمی و ادبی جریدہ ہے جو ڈاکٹر امجد طفیل کی زیر ادارت باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے ۔288صفحات پر مشتمل اس جرید ے کی قیمت 400روپے ہے جس میں مستنصر حسین تارڑ کا ایک بھر پور انٹرویو بھی شامل ہے ۔نظموں ،غزلوں، افسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی اداب اور مضامین کے گوشے بھی موجود ہیں ۔منشا یاد پر ایک خوبصورت خاکہ بھی ہے ہیروشیما پر حمید راضی کا ایک سفرنامہ بھی ہے ۔محمد دعاصم بٹ کے ناول مٹھو ایلین اور محمد عامر رانا کے ناول بستی میری جان کے ابواب بھی ناول میں دیئے گئے ہیں۔ مستنصر تارڑ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ ہر پچاس سال بعد ہر چیز بدل جاتی ہے ۔یہاں تک کہ جذبہ بدل جاتا ہے ،مذہب بدل جاتا ہے یہ وہ مذہب نہیں جس پر ہم عمل کرتے تھے ۔جو آج کل پریکٹس کر رہے ہیں ۔ہم ’’خدا حافظ ‘‘کہتے تھے یہ پتہ نہیں ’’اللہ حافظ‘‘ کہا ں سے آگیا ۔۔ایک مولوی سے میں نے پوچھا ۔یہ کہنا کہ جی خدا دوسروں کا بھی ہوتا ہے اللہ صرف مسلمانوں کا ہے i Know کہ ا س کی بنیاد کیا ہے Anti Iran یا اینٹی شیعہ اس کی بنیاد ہے میں نے اسے صرف اتنا جواب دیا کہ یہیں آپ شرک کے مرتکب ہو گئے ۔آپ نے مان لیا کہ کوئی دوسرا بھی خدا ہے ۔مولوی فتح محمد جالندھری مشہور زمانہ قرآن کے مترجم ہیں ۔بسم اللہ کا ترجمہ کرتے ہیں شروع کرتے ہیں خدا کے نام سے ۔تو بھائی آپ اس سے زیادہ پڑھے لکھے ہو گئے ۔
نیا قلم کے نام سے ایک گوشہ دیا گیا ہے جس میں نئے لکھنے والوں میں سے کسی ایک کی تخلیقات شامل کی جاتی ہیں۔اس شمارے میں نوجوان شاعر فیاض منیر کوجگہ دی گئی ہے ۔فیاض منیر کے چند اشعار:
اک روپوش ستارے نے صدا دی ہے مجھے
مصحفِ شب سے نئی فال نکالی جائے
رات اور دن کے لبادوں کو کتر کے فیاض
سرمئی شام کی پوشاک نکالی جائے
نئے شاعروں کے ساتھ پختہ کار کے نام سے شاعروں کا ایک الگ گوشہ بھی ہے جس میں نامور شاعر عباس تابش کا منتخب کلام دیا گیا ہے :بقول عباس تابش
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
افسانوں کے باب میں دس افسانے دیئے گئے ہیں جن میں پاکستان کے نمائند ہ افسانہ نگار شامل ہیں جن میں رشید امجد، حامد سراج، طاہر اسلم گورا ،حسنین جمیل اور عبیرہ احمد شامل ہیں ۔غزلیں اور نظمیں بھی شمارے کی خاصیت ہیں ۔ساقی فاروقی پر شمیم حنفی کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، محمد حمید شاہد نے، مبین مرزا، نجم الدین اور فیصل شہزاد کی تنقیدی مضامین بھی اہم ہیں ۔
Prev Post
ناول میں نئے بیانیہ کی جستجو
Next Post
فیس بک پر تبصرے