حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ویسے تو خواجہ میر دردؔ کے بقول:
دل صد چاک ہے گل خنداں
شادی و غم جہاں میں توأم آئے
لیکن اگر کسی خوشی منانے والے انسان کو احساس ہو کہ اُس کے ہمسائے میں ماتم برپا ہے تو یقیناً وہ اپنی خوشی کے اظہار میں محتاط ہوجائے گا، بشرطیکہ اُس کا ضمیر بیدا ر ہوا ،اور دل دوسرے کے رنج کو محسوس کرنے والا ہو۔ استاد شکیب جلالی مرحوم نے کہا تھا:
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو
ان دنوں عالم اسلام میں پیغمبر رحمتؐ کی ولادت کے ایام کی مناسبت سے کہیں جشن برپا ہے، کہیں محفل نعت سجی ہے، کہیں جلوس ہے کہیں سیمینار منعقد کیا جارہا ہے اور کہیں کانفرنس ہورہی ہے۔ یہ اُس نبیؐ کی یاد کے سلسلے ہیں جس نے فرمایا ہے:
جو شخص پیٹ بھر کر سو رہے اور اس کا ہمسایہ بھوکا ہو تو گویا وہ مسلمان ہی نہیں۔(مشکاۃ المصابیح،ح۴۹۹۱)
آپؐ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
جس شخص نے اپنی صبح کا آغاز اس طرح سے کیا کہ اس نے مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے کچھ اہتمام نہیں کیا تو وہ مسلمان نہیں۔(المعجم الأوسط للطبرانی،ح۷۴۷۳)
ایسے ہادی و مرشد کی یاد مناتے ہوئے کیا حرج ہے کہ ہم یاد کرلیں کہ ہمارے ملک میں کتنے ایسے لوگ ہیں کہ جو اس خوشی کو منانے کے لیے ایک شمع خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھروں کے ظلمت کدوں سے باہر آکر جب چراغاں چراغاں عمارتیں اور روشن روشن بازار دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں حسرت ایک نئے درد کے ساتھ انگڑائی لیتی ہے۔ درود و سلام کے برستے ڈونگروں اور بلندو بانگ نعتوں کے ہنگام میں بھوک اور پیاس سے کراہتے بچوں کی دم توڑتی صداؤں کی آواز کون سن سکتا ہے۔ عشق نبویؐ سے سرشار شعلہ نواؤں کے خطبات کے لپکے اُٹھ رہے ہوں تو یہ خبر پلک جھپکنے میں گزر جاتی ہے کہ یمن کے چاروں طرف غذا و دوا کی پابندیوں کے باعث ۸۵ہزار بچے دم توڑ چکے ہیں اور لاکھوں موت و حیات کی کش مکش میں ہیں۔ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں ایسی ہی ایک تقریبِ میلاد پر دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ساٹھ افراد خاک وخون میں غلطاں ہو گئے۔ یہ بھی تصویر کا ایک رُخ ہے۔ چمن کی ایک مسجد میں بھی دھماکے سے دس سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک آنکھ کو میلاد کی خوشی میں آنسو بہانا ہیں تو دوسری کو ایسی دردناک خبروں پر۔
جاں بھی بہ لب ہنسی بھی بہ لب دونوں ایک ساتھ
قسمت ہنسا ہنسا کے رُلائے تو کیا کروں
عشق کے ولولوں اور مظاہروں کو دیکھوں تو کیا اسے امت کے کمال سے تعبیر کروں اور اسی امت میں خوں چکاں منظر دیکھوں تو کیااسے دور زوال قرار دوں۔ بقول غالب:
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک بدن کی طرح ہیں۔ بدن کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا بدن بے خواب ہو جاتا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی،ج۲۱،ح۵۲)
ایسے میں ہم جانتے ہیں کہ بدن تو داغ داغ ہے زخم زخم ہے:
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
اگر صورتِ حال ایسی ہے تو پھر جو لوگ فقط شادیانے بجا رہے ہیں اور وہ امت کے تازہ و کہنہ ناسوروں سے بے اعتنا ہیں تو یہ کہے بغیر چارہ نہ ہوگا کہ وہ بے خبر ہیں یا ان کی آنکھوں کا پانی مر گیا ہے یا وہ عالم ہوش میں نہیں۔ ہماری ناچیز رائے یہ ہے کہ امت پر مجموعی غفلت کا عالم ہے۔ حقائق سے بے خبری بھی ہے، تجزیہ و تحلیل کی صلاحیتیں سو چکی ہیں ،دینی ترجیحات کو سمجھنے میں راہنما عام طور پر ناکام ہیں اور عالمی اور سماجی حالات سے ناواقفیت اس پر مستزاد ہے۔
فیس بک پر تبصرے